حماس نے امریکی ثالثی سے پیش کردہ نئی جنگ بندی تجویز مسترد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے امریکا کی جانب سے پیش کردہ نئی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ جنگ بندی: حماس اور امریکا معاہدے کے مسودے پر متفق ہوگئے
برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق اس تجویز میں 60 روزہ جنگ بندی، 10 زندہ یرغمالیوں اور 18 ہلاک شدگان کی باقیات کی واپسی، اور اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔
حماس کا مؤقف ہے کہ یہ تجویز ان کے بنیادی مطالبات، جیسے جنگ کا مکمل خاتمہ اور مستقل جنگ بندی کی ضمانت، کو پورا نہیں کرتی۔
تنظیم نے کہا ہے کہ وہ ثالثوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور جلد ہی تحریری جواب پیش کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی کی رہائی پر حماس راضی
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے مبینہ طور پر یرغمالیوں کے اہل خانہ کو بتایا کہ وہ اس امریکی تجویز کو قبول کرتے ہیں۔ تاہم اسرائیلی حکومت کی جانب سے باضابطہ تبصرہ نہیں کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق حالیہ 10 ہفتوں میں غزہ میں تقریباً 4,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ 600,000 سے زائد افراد دوبارہ بے گھر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ رپورٹ کے مطابق، آئندہ مہینوں میں تقریباً 500,000 افراد کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا جنگ بندی حماس.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ’’تقسیم پیدا کرنے والے‘‘ سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو میں رہنا "امریکی قومی مفاد میں نہیں" ہے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور میں امریکا دوبارہ یونیسکو کا رکن بن گیا تھا۔
اب ٹرمپ کی واپسی کے بعد ایک بار پھر امریکا کا ادارے سے نکلنے کا اعلان سامنے آیا ہے، جو دسمبر 2026 میں مؤثر ہو گا۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملٹی لیٹرلزم (کثیر الجہتی تعاون) کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا اور ادارہ اس کے لیے تیار ہے۔
یونیسکو نے کہا کہ امریکی انخلا کے باوجود ادارے کو مالی طور پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ گزشتہ دہائی میں امریکا کی بجٹ میں شراکت 20 فیصد سے کم ہو کر اب 8 فیصد رہ گئی ہے۔
امریکا نے یونیسکو پر الزام لگایا ہے کہ اس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل مخالف بیانیہ بڑھایا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا بھی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔
اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے یونیسکو کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی میں ریگن حکومت کے تحت یونیسکو سے نکل چکا ہے، اور 2000 کی دہائی میں صدر بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔