آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان وہ خطہ جسے کشمیری مجاہدین نے قبائلی لشکر اور پاک فوج کی تائید سے بھارتی اور ڈوگرہ افواج کو پسپا کرتے ہوئے آزاد کرایا، یہ صرف ایک خطہ زمین نہیں بلکہ ایک نظریے کا مظہر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں آزادی کے متوالوں نے اس خطے میں ایک انقلابی حکومت قائم کی، جسے ”آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر” کا نام دیا گیا۔ یہ حکومت ریاست کے آزاد اور مقبوضہ حصوں کی نمائندہ تھی، جس میں مہاجرین اور مقامی افراد کی مساوی شمولیت تھی، اس حکومت کا قیام کسی علاقائی خودمختاری کا نتیجہ نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی منزل کی طرف ایک قدم تھا۔
ابتدائی حکومت اورمہاجرین کا کردارپہلی کابینہ کی قیادت بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان نےکی اور اسکی ساخت میں مہاجرین اور انصار (مقامی باشندگان) کی مساوی نمائندگی شامل تھی۔ یہ حکومت پلندری کے مقام ’’جونجال ہل‘‘ پر قائم کی گئی، جہاں سے مہاجرین کی بحالی مجاہدین کی مدد اور ریاستی نظم و نسق کی بنیاد رکھی گئی۔ معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب، جو خود جموں کے مہاجر تھے اس حکومت کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے،آزادخطے میں مقامی تعلیم یافتہ افرادی قوت کی قلت تھی، چنانچہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین نے انتظامیہ، تعلیم، عدلیہ اور ریاستی نظام کے دیگر شعبوں میں کلیدی کردار ادا کیا، ان کی قربانیوں اور خدمات نے نہ صرف آزاد کشمیر کو سنوارا بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کی سمت متعین کی۔
ریاستی سطح پرمہاجرین کی نمائندگی کو ابتدا ہی سے ایک بنیادی حیثیت حاصل رہی، ساٹھ کی دہائی تک اسٹیٹ کونسل میں مہاجرین اور انصار کی مساوی نمائندگی موجود تھی۔ 1970 ء کے ایکٹ میں 25 رکنی اسمبلی میں 8 نشستیں مہاجرین کے لیے مخصوص کی گئیں،تاہم 1974 کے عبوری آئین میں ان کی نمائندگی میں کمی واقع ہوئی، اور اب صرف 12 نشستیں (6 جموں، 6 وادی کشمیر) مہاجرین کے لیے مخصوص ہیں۔جموں کی نشستوں پر ووٹرز کی تعداد بعض آزادکشمیر حلقوں سےبھی زیادہ ہے، جبکہ وادی کے ووٹرز کی تعداد نسبتا کم ہے۔ اس تناظر میں مہاجرین کی نمائندگی محض عددی توازن کا مسئلہ نہیں بلکہ تحریک آزادی کشمیر کی نظریاتی اور سیاسی ضرورت ہے تاکہ وہ ریفرنڈم کی صورت میں اپنی شناخت کے ساتھ رائے دہی میں حصہ لے سکیں۔بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ مہاجرین کی نشستوں پر دھاندلی ہوتی ہے، اس لیے ان کا خاتمہ کیا جائے یہ موقف سراسر کمزور اور یک طرفہ ہے دھاندلی کا مسئلہ صرف مہاجر نشستوں تک محدود نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے عمومی انتخابی نظام پر بھی اس کا سایہ رہا ہے، اگر یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو پھر پوری اسمبلی ہی سوال کے دائرے میں آ جائے گی۔ایک اور اعتراض یہ ہےکہ مہاجر نمائندے تحریک آزادی میں فعال کردار ادا نہیں کر رہے، یہ ایک جائز اور بروقت تنبیہ ہے۔ ہم نے خود بھی ان نمائندوں کو بارہا متوجہ کیا ہے کہ ان کی غیر فعالیت نمائندگی کے حق پر سوالیہ نشان بن سکتی ہےلیکن کیا آزاد کشمیر کے اندر منتخب نمائندے تحریک کے حوالےسے کوئی مثالی کردار ادا کرسکے ہیں؟اگر جواب نفی میں ہے تو پھر مہاجرین کی نمائندگی کو تنقید کا نشانہ بنانا سراسر ناانصافی ہے۔
اگر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو ایک نظریاتی حکومت کی حیثیت میں قائم رکھا جائے، جو تحریک آزادی کی نمائندہ ہو اور پوری ریاست کی نمائندگی کرے، تو مہاجرین کی نمائندگی اس کی روح ہے۔ بصورت دیگر اگر آزاد حکومت کو ایک محض علاقائی حکومت میں تبدیل کرنا مقصود ہے، تو پھر جو چاہیں کیجیے۔
بھارت ہمیشہ سے یہی چاہتا رہا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت تحریک آزادی سے علیحدہ ہو جائے، اور اسے ایک بے ضرر انتظامی یونٹ بنا دیا جائے۔ ایسی صورتحال میں اگر ہم خود ہی مہاجرین کی نمائندگی کو ختم کریں، تو ہم بھارتی بیانیے کی تائید کر رہے ہوں گے۔مہاجرین کی قربانیاں اور ان کے ثمرات یہ وہی نمائندگی ہے جس نے ہمیں کے ایچ خورشید، سہروردی، پروفیسر عبدالعزیز سلہریا، عبدالمجید سلہریا، خلیل قریشی، جسٹس منظور گیلانی جیسے نابغہ روزگار افراد دیے، جنہوں نے ریاستی اداروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ جموں، راجوری اور پونچھ سے آنے والے مہاجرین نے اپنے خاندانوں کی قربانی دی، جن میں بعض خاندان مکمل طور پرختم کر دیے گئے۔ ان قربانیوں کو فراموش کرنا ایک تاریخی جرم ہو گا۔موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم مہاجرین اور انصار دونوں کو شفاف، منصفانہ اور دیانت دار قیادت فراہم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اس کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔مہاجرین کی متناسب نمائندگی کو برقرار رکھا جائے۔انتخابی نظام کو شفاف بنایا جائے۔سیاسی قیادت کو تحریک آزادی کے ساتھ جوڑنے کے لیے ادارہ جاتی کوششیں کی جائیں۔
سوشل میڈیا یا عوامی سطح پر ایسی بحثوں سے گریز کیا جائے جو دستوری و نظریاتی اساس کے خلاف ہوں،قومی اتفاق رائے کے ساتھ ایک جامع اصلاحاتی پروگرام ترتیب دیا جائے،مہاجرین کی نشستیں محض سیاسی مراعات نہیں بلکہ تحریک آزادی کے خون سے لکھی گئی قربانیوں کا تسلسل ہیں، ان نشستوں کو ختم کرنا محض ایک سیاسی اقدام نہیں، بلکہ ایک نظریاتی انحراف ہو گا۔ ہمیں ہوا کے رخ پر نہیں، نظریاتی اساس پر کھڑے ہو کر نئی نسل کی رہنمائی کرنا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں مقبوضہ وادی میں موجود اپنے بھائیوں تک بھی پہنچانا ہے کہ آزاد خطہ آج بھی ان کی آواز ان کی امید اور ان کے مستقبل کی نمائندگی کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مہاجرین کی نمائندگی ریاست جموں و کشمیر تحریک ا زادی مہاجرین اور نمائندگی کو میں مہاجرین کے ساتھ اور ان کے لیے

پڑھیں:

وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس آنے والے متعدد افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں حکام کی جانب سے تشدد، بدسلوکی اور ناجائز حراستوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور 'او ایچ سی ایچ آر' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپس آںے والے افغانوں میں خواتین، لڑکیوں، سابق حکومت اور اس کی فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں، ذرائع ابلاغ کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ کسی مہاجر یا پناہ گزین کو ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ماضی کی بنا پر مظالم کا خدشہ ہو۔

(جاری ہے)

افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں محض صنفی بنیاد پر ہی ان کے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔خفیہ زندگی، تشدد اور مظالم

رپورٹ میں گزشتہ سال واپس آنے والے 49 لوگوں سے کی گئی بات چیت کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ان میں شامل سابق حکومت اور فوج کے اہلکار افغانستان میں انتقامی کارروائی کے خوف سے خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ طالبان حکام نے اعلان کیا تھا کہ ماضی میں ان کے خلاف لڑنے والوں کو عام معافی دی جائے گی۔

اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آںے کے بعد ملک چھوڑ دینے والی ٹیلی ویژن کی ایک سابق رپورٹر نے بتایا کہ ملک میں واپسی کے بعد انہیں اور دیگر خواتین کو نہ تو روزگار کے مواقع دستیاب ہیں اور نہ ہی انہیں تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی ہے۔ ان حالات میں وہ خود کو گھر میں نظربند محسوس کرتی ہیں۔

ایک سابق سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ 2023 میں افغانستان واپس آںے کے بعد انہیں دو راتوں تک ایک گھر میں بند کر کے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس دوران طالبان حکام نے انہیں ڈنڈوں اور تاروں سے مارا پیٹا، پانی میں غوطے دیے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر بناوٹی طور پر پھانسی دی۔ اس تشدد کے نتیجے میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ملک بدری سے گریز کا مطالبہ

پناہ گزینوں کو ایسے ملک میں واپس بھیجنا بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے جہاں انہیں مظالم، تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا، جبری گمشدگی یا دیگر ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ ہو۔

رپورٹ میں رکن ممالک پر زور دیاگیا ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم کسی افغان فرد کو اس کے ملک میں واپس بھیجنے سے قبل یہ جائزہ ضرور لیں کہ کہیں اسے واپسی پر اپنے حقوق کی پامالی کا خدشہ تو نہیں۔ جن لوگوں کو ایسا خطرہ لاحق ہو انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں، رکن ممالک خطرات سے دوچار افغانوں کو ملک چھوڑنے اور اپنے ہاں گرفتاری یا ملک بدری کے خوف سے بے نیاز ہو کر رہنے کے لیے محفوظ راستے مہیا کریں۔

2023 سے اب تک لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس جا چکے ہیں جس کے باعث افغانستان میں محدود وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں رکن ممالک سے افغانوں کے لیے امدادی مالی وسائل میں اضافے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

امدادی وسائل کی ضرورت

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتنبائیوا نے کہا ہے کہ اگرچہ افغان حکام نے حالیہ برسوں کے دوران ملک میں واپس آنے والوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سبھی لوگوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے اور ان کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے مزید اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں تمام افغانوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔ انہوں نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اور افغان لوگوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
  • آزاد کشمیر میں آئینی اور سیاسی بحران سنگین ، ن لیگ نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کردیا
  • نئی دلی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ
  • الحاق پاکستان کے نظریے کے فروغ میں جموں و کشمیر لبریشن سیل کا کلیدی کردار
  • جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، عثمان جدون
  • بارشوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں سندھ حکومت مکمل طور پر متحرک ہے، شرجیل میمن
  • اسرائیل پر ایران کا جوابی حملہ جائز تھا، فلسطین کا دو ریاستی حل قبول نہیں، ملی یکجہتی کونسل
  • سول سوسائٹی ارکان نے اگست 2019ء کے بعد کے اقدامات کو مسترد کر دیا
  • سینئر سیاست دان میاں اظہر کا انتقال، نماز جنازہ آج ادا کی جائے گی
  • ’’ سیاسی بیانات‘‘