مہاجرین جموں و کشمیر کی نمائندگی نظریاتی، تاریخی اور سیاسی تناظر
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان وہ خطہ جسے کشمیری مجاہدین نے قبائلی لشکر اور پاک فوج کی تائید سے بھارتی اور ڈوگرہ افواج کو پسپا کرتے ہوئے آزاد کرایا، یہ صرف ایک خطہ زمین نہیں بلکہ ایک نظریے کا مظہر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں آزادی کے متوالوں نے اس خطے میں ایک انقلابی حکومت قائم کی، جسے ”آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر” کا نام دیا گیا۔ یہ حکومت ریاست کے آزاد اور مقبوضہ حصوں کی نمائندہ تھی، جس میں مہاجرین اور مقامی افراد کی مساوی شمولیت تھی، اس حکومت کا قیام کسی علاقائی خودمختاری کا نتیجہ نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی منزل کی طرف ایک قدم تھا۔
ابتدائی حکومت اورمہاجرین کا کردارپہلی کابینہ کی قیادت بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان نےکی اور اسکی ساخت میں مہاجرین اور انصار (مقامی باشندگان) کی مساوی نمائندگی شامل تھی۔ یہ حکومت پلندری کے مقام ’’جونجال ہل‘‘ پر قائم کی گئی، جہاں سے مہاجرین کی بحالی مجاہدین کی مدد اور ریاستی نظم و نسق کی بنیاد رکھی گئی۔ معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب، جو خود جموں کے مہاجر تھے اس حکومت کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے،آزادخطے میں مقامی تعلیم یافتہ افرادی قوت کی قلت تھی، چنانچہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین نے انتظامیہ، تعلیم، عدلیہ اور ریاستی نظام کے دیگر شعبوں میں کلیدی کردار ادا کیا، ان کی قربانیوں اور خدمات نے نہ صرف آزاد کشمیر کو سنوارا بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کی سمت متعین کی۔
ریاستی سطح پرمہاجرین کی نمائندگی کو ابتدا ہی سے ایک بنیادی حیثیت حاصل رہی، ساٹھ کی دہائی تک اسٹیٹ کونسل میں مہاجرین اور انصار کی مساوی نمائندگی موجود تھی۔ 1970 ء کے ایکٹ میں 25 رکنی اسمبلی میں 8 نشستیں مہاجرین کے لیے مخصوص کی گئیں،تاہم 1974 کے عبوری آئین میں ان کی نمائندگی میں کمی واقع ہوئی، اور اب صرف 12 نشستیں (6 جموں، 6 وادی کشمیر) مہاجرین کے لیے مخصوص ہیں۔جموں کی نشستوں پر ووٹرز کی تعداد بعض آزادکشمیر حلقوں سےبھی زیادہ ہے، جبکہ وادی کے ووٹرز کی تعداد نسبتا کم ہے۔ اس تناظر میں مہاجرین کی نمائندگی محض عددی توازن کا مسئلہ نہیں بلکہ تحریک آزادی کشمیر کی نظریاتی اور سیاسی ضرورت ہے تاکہ وہ ریفرنڈم کی صورت میں اپنی شناخت کے ساتھ رائے دہی میں حصہ لے سکیں۔بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ مہاجرین کی نشستوں پر دھاندلی ہوتی ہے، اس لیے ان کا خاتمہ کیا جائے یہ موقف سراسر کمزور اور یک طرفہ ہے دھاندلی کا مسئلہ صرف مہاجر نشستوں تک محدود نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے عمومی انتخابی نظام پر بھی اس کا سایہ رہا ہے، اگر یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو پھر پوری اسمبلی ہی سوال کے دائرے میں آ جائے گی۔ایک اور اعتراض یہ ہےکہ مہاجر نمائندے تحریک آزادی میں فعال کردار ادا نہیں کر رہے، یہ ایک جائز اور بروقت تنبیہ ہے۔ ہم نے خود بھی ان نمائندوں کو بارہا متوجہ کیا ہے کہ ان کی غیر فعالیت نمائندگی کے حق پر سوالیہ نشان بن سکتی ہےلیکن کیا آزاد کشمیر کے اندر منتخب نمائندے تحریک کے حوالےسے کوئی مثالی کردار ادا کرسکے ہیں؟اگر جواب نفی میں ہے تو پھر مہاجرین کی نمائندگی کو تنقید کا نشانہ بنانا سراسر ناانصافی ہے۔
اگر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو ایک نظریاتی حکومت کی حیثیت میں قائم رکھا جائے، جو تحریک آزادی کی نمائندہ ہو اور پوری ریاست کی نمائندگی کرے، تو مہاجرین کی نمائندگی اس کی روح ہے۔ بصورت دیگر اگر آزاد حکومت کو ایک محض علاقائی حکومت میں تبدیل کرنا مقصود ہے، تو پھر جو چاہیں کیجیے۔
بھارت ہمیشہ سے یہی چاہتا رہا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت تحریک آزادی سے علیحدہ ہو جائے، اور اسے ایک بے ضرر انتظامی یونٹ بنا دیا جائے۔ ایسی صورتحال میں اگر ہم خود ہی مہاجرین کی نمائندگی کو ختم کریں، تو ہم بھارتی بیانیے کی تائید کر رہے ہوں گے۔مہاجرین کی قربانیاں اور ان کے ثمرات یہ وہی نمائندگی ہے جس نے ہمیں کے ایچ خورشید، سہروردی، پروفیسر عبدالعزیز سلہریا، عبدالمجید سلہریا، خلیل قریشی، جسٹس منظور گیلانی جیسے نابغہ روزگار افراد دیے، جنہوں نے ریاستی اداروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ جموں، راجوری اور پونچھ سے آنے والے مہاجرین نے اپنے خاندانوں کی قربانی دی، جن میں بعض خاندان مکمل طور پرختم کر دیے گئے۔ ان قربانیوں کو فراموش کرنا ایک تاریخی جرم ہو گا۔موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم مہاجرین اور انصار دونوں کو شفاف، منصفانہ اور دیانت دار قیادت فراہم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اس کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔مہاجرین کی متناسب نمائندگی کو برقرار رکھا جائے۔انتخابی نظام کو شفاف بنایا جائے۔سیاسی قیادت کو تحریک آزادی کے ساتھ جوڑنے کے لیے ادارہ جاتی کوششیں کی جائیں۔
سوشل میڈیا یا عوامی سطح پر ایسی بحثوں سے گریز کیا جائے جو دستوری و نظریاتی اساس کے خلاف ہوں،قومی اتفاق رائے کے ساتھ ایک جامع اصلاحاتی پروگرام ترتیب دیا جائے،مہاجرین کی نشستیں محض سیاسی مراعات نہیں بلکہ تحریک آزادی کے خون سے لکھی گئی قربانیوں کا تسلسل ہیں، ان نشستوں کو ختم کرنا محض ایک سیاسی اقدام نہیں، بلکہ ایک نظریاتی انحراف ہو گا۔ ہمیں ہوا کے رخ پر نہیں، نظریاتی اساس پر کھڑے ہو کر نئی نسل کی رہنمائی کرنا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں مقبوضہ وادی میں موجود اپنے بھائیوں تک بھی پہنچانا ہے کہ آزاد خطہ آج بھی ان کی آواز ان کی امید اور ان کے مستقبل کی نمائندگی کرتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مہاجرین کی نمائندگی ریاست جموں و کشمیر تحریک ا زادی مہاجرین اور نمائندگی کو میں مہاجرین کے ساتھ اور ان کے لیے
پڑھیں:
375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
حکومت نے آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ میں مبینہ 375 ٹریلین روپے (تین لاکھ 75 ہزار ارب روپے) کی بے ضابطگیوں کے انکشاف کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے جس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا اور پورے نظام کو مشکوک بنانا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق یہ معاملہ محض ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’جان بوجھ کر کیا گیا اقدام‘‘ ہے جس کے پیچھے اصل نیت حکومت کو ہدف بنانا تھا۔
اگرچہ آڈیٹر جنرل آفس نے کئی ہفتوں تک رپورٹ کا دفاع کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے تسلیم کیا کہ اس میں ’‘ٹائپنگ کی غلطیاں‘‘ (ٹائپوز) موجود تھیں، لیکن سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی حادثاتی نہیں تھی۔
سرکاری حلقوں کا الزام ہے کہ یہ سب ایک اعلیٰ افسر کی منصوبہ بندی تھی جو ایک مخصوص سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس نے حکومت کو اسکینڈل کا شکار کرنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس افسر کو اپنا موجودہ عہدہ ایک طاقتور سابق انٹیلی جنس سربراہ کی آشیرباد سے ملا تھا۔ حکومت کو جمع کرائی گئی ایک انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق مذکورہ افسر نے سروس کے دوران سیاسی وابستگی رکھی اور مبینہ طور پر پارٹی سے جڑے افسروں کو آڈٹ کے اہم عہدوں پر تعینات کیا۔
ایک موقع پر اس افسر پر الزام لگا کہ اس نے حساس آڈٹ کا دائرہ کار مقررہ مدت سے آگے بڑھا دیا تاکہ اپوزیشن رہنماؤں کے لیے سیاسی گنجائش پیدا کی جا سکے جب کہ بیک وقت حکومت اور عسکری قیادت کے حصوں کو ہدف بنایا گیا۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہم خیال افسران کو خاص طور پر صوبائی حکومتوں، وفاقی محکموں اور ہائی پروفائل منصوبوں کے آڈٹ پر مامور کیا گیا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ تقرریاں اس نیت سے کی گئیں کہ ایسی آڈٹ پیراز اور رپورٹس تیار ہوں جو حکومت کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جا سکیں۔
مالی حکام نے آڈیٹر جنرل آفس کے بعض اندرونی فیصلوں پر بھی اعتراض کیا، مثلاً اپنے افسروں کے لیے خصوصی الاؤنسز کی منظوری جو فنانس ڈویژن کی ہدایات کے برعکس تھا تاہم بعد میں وزارتِ خزانہ نے یہ فیصلہ واپس لے کر اضافی رقم کی وصولی کا حکم دیا۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ انٹیلی جنس جائزوں میں یہ خدشات ظاہر کیے گئے کہ اس افسر نے سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے حساس آڈٹ ریکارڈ جمع کر رکھے ہیں، جن سے سیاسی لحاظ سے کسی بھی موزوں وقت پر لیک کر کے اپوزیشن بیانیے کو تقویت دی جا سکتی ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ (ٹائپوز) عام بات ہیں، لیکن 375 ٹریلین روپے کا اسکینڈل صرف غفلت نہیں بلکہ بدنام کرنے کی ایک منظم کوشش تھی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں کے اندر سے ایسی چالیں براہ راست استحکام اور حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔
انصار عباسی
Post Views: 8