پاکستان کو کبھی بھی دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر—فائل فوٹو
پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ معرکہ حق کی کامیابی ہمارے قومی عزم اور تمام قومی اداروں کی مکمل ہم آہنگی کا ثبوت ہے، پاکستان کو کبھی بھی دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا، جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ضروری ہے۔
پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے آج کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کیا۔
کوئٹہ آمد پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کا استقبال کمانڈر کوئٹہ کور اور کمانڈنٹ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ نے کیا۔
اس موقع پر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے طالب علموں، افسران اور فیکلٹی سے خطاب کرتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا، لواحقین سے یکجہتی کا اظہار کیا اور افواجِ پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت کو سراہا۔
آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ قومی قیادت کے تحت پاکستان کے عوام مادرِ وطن کے دفاع کےلیے فولادی دیوار بن گئے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے مختلف جامعات کے وائس چانسلرز اور سینئر اساتذہ سے ملاقات کی ہے۔
عالمی و علاقائی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے ابھرتے ہوئے تنازعات کی نوعیت پر روشنی ڈالی اور پاکستان کے خلاف بھارت کی بلا اشتعال جارحیت کے بڑھتے رجحان کو خطرناک قرار دیا۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے جارحیت کو شکست دینے کے عزم اور خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کا اعادہ بھی کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کبھی بھی دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا جائے گا، جنوبی ایشیاء میں تزویراتی استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل ضروری ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھارت کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی آبی دہشت گردی سے خبردار کیا اور پاکستان میں دہشت گردی کی بھارتی سرپرستی پر بھی بات کی۔
آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے انسدادِ دہشت گردی کی مہم کو مزید مؤثر بنانے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر صورت منطقی انجام تک پہنچائی جائے گی۔
انہوں نے طلباء اور افسران کو اپنی ذمے داریاں لگن، جذبے اور عزم کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے جدید سوچ اور تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ تربیت ناصرف موجودہ حالات کی عکاس ہونی چاہیے بلکہ ہمیں مستقبل کے میدانِ جنگ کے لیے بھی تیار کرے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو کبھی
پڑھیں:
اخلاقیات پر مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک مکالمہ
کچھ عرصہ قبل یہ مکالمہ چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ ہوا جس کا بنیادی محور یہ تھا کہ اخلاقیات کا ماخذ کیا ہے اور مصنوعی ذہانت اور اخلاقیات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ یہ مکالمہ بالخصوص ان لوگوں کےلیے دلچسپی کا باعث ہوگا جن کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت اب ججوں، قاضیوں، بلکہ مفتیوں تک کی جگہ لے لے گی۔ کیا واقعی ایسا ہوگا؟ کیا ایسا ہونا بھی چاہیے؟
پہلا سوال:
’اخلاقیات‘ (Morality) اور ’آداب‘ (Ethics) میں کیا فرق ہے؟ کیا کوئی عمل اخلاقی طور پر درست، لیکن آداب کے نقطۂ نظر سے غلط ہو سکتا ہے، یا اس کے برعکس؟
جواب:
اخلاقیات اور آداب اکثر مترادف سمجھے جاتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ 2 مختلف تصورات ہیں۔
’اخلاقیات‘ ایک ایسا نظام ہے جو صحیح اور غلط رویے سے متعلق عقائد پر مشتمل ہوتا ہے، جو عموماً ثقافتی، مذہبی یا ذاتی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ کسی مخصوص معاشرے میں رائج معیارات کی نمائندگی کرتا ہے جو درست و نادرست رویے کے تعین میں مدد دیتے ہیں۔
دوسری طرف ’آداب‘ فلسفے کی ایک شاخ ہے جو اخلاقیات سے متعلق سوالات کا تجزیہ کرتی ہے اور استدلال و منطق کی بنیاد پر رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ آداب کا مقصد عموماً ایسے آفاقی اصول وضع کرنا ہوتا ہے جو مختلف حالات میں یکساں طور پر لاگو ہو سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلامی جمہوریہ میں طلاق کا غیر اسلامی قانون
جی ہاں، ایک عمل آداب کے لحاظ سے درست اور اخلاقی لحاظ سے غلط ہو سکتا ہے، یا اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے: اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کس اصول کی روشنی میں اس کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ مثلاً کسی کو نقصان سے بچانے کے لیے جھوٹ بولنا بعض اوقات آداب لحاظ سے درست سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ’مجموعی فائدے‘ کو فروغ دیتا ہے، مگر اخلاقی لحاظ سے یہ غلط سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ دیانت داری کے اصول کے خلاف ہے۔
دوسرا سوال:
ایک ٹرین آ رہی ہے۔ ایک شخص X کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ریل کا رخ بدل دے جس سے 2 افراد ہلاک ہوں گے؛ یا وہ کچھ نہ کرے اور نتیجتاً 3 افراد ہلاک ہو جائیں گے۔ کیا ریل کا رخ بدلنا اخلاقی لحاظ سے یا آداب کے لحاظ سے درست/غلط ہے؟
جواب :
یہ ایک روایتی اخلاقی مسئلہ ہے جسے ’ٹرالی پرابلم‘ (Trolley Problem) کہا جاتا ہے۔ یہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا کچھ لوگوں کو بچانے کے لیے کچھ دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچانا اخلاقی طور پر درست ہے؟
اس منظرنامے میں دونوں صورتوں (رخ بدلنے یا کچھ نہ کرنے) کے نتائج میں دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے؛ اس لیے کوئی آسان جواب موجود نہیں۔ کچھ لوگ یہ موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ کم لوگوں کی موت کے لیے ریل کا رخ بدل دینا اخلاق اور آداب دونوں پہلوؤں سےدرست ہے۔ اس کے برعکس بعض دیگر افراد یہ مؤقف اختیار کر سکتے ہیں کہ کسی بھی حالت میں جان بوجھ کر کسی کو نقصان پہنچانا غلط ہے۔
آخری تجزیے میں، یہ ایک پیچیدہ اخلاقی مسئلہ ہے جس کا کوئی قطعی جواب نہیں اور مختلف لوگ اپنے اصولوں کے مطابق مختلف رائے دے سکتے ہیں۔
تیسرا سوال:
رحم کے جذبے سے کسی کا قتل (euthanasia) اخلاق اور آداب کے پہلوؤں سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کیا ایجابی (positive) اور سلبی (negative) قتل کےلیے جواب مختلف ہوگا؟
جواب:
ایجابی اور سلبی قتل بہ جذبۂ رحم 2 مختلف تصورات ہیں جن کا تعلق زندگی کے اختتام سے متعلق فیصلوں سے ہے۔
ایجابی قتل بہ جذبۂ رحم (positive euthanasia) کا مطلب ہے کہ کسی کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے اس کی زندگی کو جان بوجھ کر ختم کر دیا جائے۔ اکثر اسے اخلاق آداب دونوں پہلوؤں سے متنازعہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ جان بوجھ کر زندگی کے خاتمے کا عمل ہے، جسے عام طور پر غلط تصور کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: ایران کے خلاف اسرائیلی و امریکی جارحیت: اہم قانونی سوالات
سلبی قتل بہ جذبۂ رحم (negative euthanasia) اس وقت ہوتا ہے جب کسی مریض کے علاج کو روکا یا ختم کر دیا جائے تاکہ وہ فطری طور پر وفات پا جائے۔ اسے عموماً قابل قبول سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ کسی کی خودمختاری اور وقار کو تسلیم کرنے کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔
تاہم، اخلاق اور آداب دونوں کے پہلوؤں سے ان دونوں اقسام کی حیثیت کے بارے میں شدید اختلاف موجود ہے اور مختلف افراد اپنی اقدار کی بنیاد پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔
چوتھا سوال:
اصل میں سوال یہ ہے کہ کیا کسی عمل کے کرنے ، یعنی ’فعل‘ (commission) اور نہ کرنے، یعنی ’ترکِ فعل‘ (omission) میں اخلاق یا آداب کی بنیاد پر فرق کیا جا سکتا ہے؟ یا ہم صرف ان کے نتائج کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتے ہیں؟
جواب:
فعل اور ترکِ فعل میں فرق ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس پر اخلاق اور آداب کے پہلوؤں سے بحث جاری ہے۔
بعض صورتوں میں دونوں کا نتیجہ ایک جیسا ہو سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی بھوکے شخص کو کھانا نہ دیا جائے اور وہ مر جائے، تو یہ ترکِ فعل بعض اوقات ویسا ہی تصور ہو سکتا ہے جیسا کہ کسی کو جان بوجھ کر مار دینے کا فعل۔
دوسری صورتوں میں دونوں میں واضح فرق ہو سکتا ہے۔ مثلاً کسی کی جان لینے کےلیے عملی اقدام اور کسی کو بچانے کوشش نہ کرنا بظاہر ایک ہی نتیجہ پیدا کرتے ہیں، مگر اخلاق اور آداب کے لحاظ سے مختلف سمجھے جاتے ہیں۔
یہ فرق ذاتی پسند و ناپسند، ثقافتی اثرات، مذہبی عقائد اور فلسفیانہ اقدار پر بھی منحصر ہوتا ہے۔
پانچواں سوال:
کیا کسی عمل کا اخلاق/آداب کے لحاظ سے اچھا یا برا ہونا صرف اس کے نتائج کی بنیاد پر طے ہوتاہے؟
جواب:
اخلاقی و اقداری فیصلے صرف نتائج کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے۔ اگرچہ نتائج اہم ہیں، لیکن ’نیت‘ بھی فیصلہ کن عنصر ہو سکتی ہے۔
مثلاً اگر کوئی شخص نیکی کی نیت سے کوئی عمل کرے، لیکن اس کے نتائج نقصان دہ ہوں، تو بھی یہ عمل بعض نظریات کے مطابق اخلاقی طور پر درست ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر کوئی شخص نقصان پہنچانے کی نیت سے کوئی عمل کرے، چاہے اس کے نتائج فائدہ مند ہوں، تو وہ عمل اخلاقی طور پر غلط شمار کیا جا سکتا ہے۔
خودمختاری، وقار، اجتماعی بھلائی، انصاف اور برابری جیسے عناصر بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں۔ مختلف فلسفے ان پہلوؤں کو مختلف انداز میں کم یا زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
چھٹا سوال:
جب ہم اخلاق/آداب کی بنیاد پر کسی فعل یا ترکِ فعل کے نتائج پر بات کرتے ہیں، تو کیا ان نتائج کا تعلق دوسروں سے ہوتا ہے یا فیصلے کرنے والے شخص سے؟ اور کیا نتائج صرف مادی ہوتے ہیں یا روحانی پہلو بھی اس میں شامل ہوتے ہیں؟
جواب:
اخلاق/ آداب کے تناظر میں عام طور پر نتائج سے مراد دوسروں پر اثرات ہوتے ہیں، کیونکہ مقصد دوسروں کو نقصان سے بچانا اور ان کی فلاح کو فروغ دینا ہوتا ہے۔
تاہم، بعض نظامِ اخلاقیات میں خود فیصلے کرنے والے فرد کی روحانی یا نفسیاتی کیفیت کو بھی اہم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کام کے بعد روحانی تسکین، ضمیر کا اطمینان یا پچھتاوا محسوس کرتا ہے تو یہ بھی قابلِ غور پہلو ہو سکتا ہے۔
لہٰذا، مادی اور روحانی دونوں قسم کے نتائج بعض اقداری نظاموں میں اہمیت رکھتے ہیں، اور یہ کہ کون سے نتائج زیادہ اہم ہیں، یہ اس نظامِ اقدار پر منحصر ہے جس کے تحت تجزیہ کیا جا رہا ہے۔
ساتواں سوال:
جب مصنوعی ذہانت روحانی تسکین یا پشیمانی محسوس نہیں کر سکتی، نہ ہی اسے احساسِ جرم ہوسکتا ہے، تو وہ اخلاق/آداب کی بنیاد پر فیصلہ کیسے کرسکتی ہے؟ کیا وہ گناہ یا جرم پر ندامت، یا اچھے کام پر اطمینان اور سکون محسوس کر سکتی ہے؟
جواب:
مصنوعی ذہانت ایسی کسی جذباتی یا روحانی کیفیت کو محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی کیونکہ اس کے پاس انسانی شعور یا داخلی احساسات نہیں ہوتے۔
مصنوعی ذہانت فیصلے اعداد و شمار، اصولوں اور الگورتھم کی بنیاد پر کرتی ہے، نہ کہ ذاتی احساسات یا تجربات کی بنیاد پر۔ اخلاق/آداب کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت ان عوامل کا تجزیہ کرتی ہے جو اس کے نظام میں پروگرام کیے گئے ہوں، جیسے نتائج، سیاق و سباق اور قابلِ اطلاق اصول۔
مزید پڑھیں: ہمارے ججوں اور وکلا کے فہم شریعت کے مآخذ
تاہم چونکہ مصنوعی ذہانت کو جو کچھ سکھایا جائے گا وہی وہ کرے گی، اس لیے اس کی اخلاقی فیصلہ سازی کی قابلیت اسی حد تک ہوگی۔ اس میں انسانی اخلاقیات کے باریک پہلوؤں کو مکمل طور پر سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
اخلاقیات آداب ایتھکس چیٹ جی پی ٹی چیٹ جی پی ٹی سے مکالمہ مورالیٹی