یکم جون سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی؟فیصلہ آج ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) مہنگائی سے پریشان عوام کی نظریں اب یکم جون پر جمی ہوئی ہیں، جب حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کرے گی۔
شہریوں کی جانب سے سوال کیا جارہا ہے کہ کیا حکومت بجٹ سے قبل مہنگائی کا ایک اور بم گرانے جا رہی ہے یا عوام کو کچھ ریلیف ملے گا؟
میڈیا ذرائع کے مطابق وزارت توانائی اور دیگر متعلقہ ادارے عالمی منڈی کے رجحانات اور ملکی مالیاتی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں معمولی کمی پر غور کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 60 پیسے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 28 پیسے فی لیٹر تک کی کمی ممکن ہے۔
دوسری جانب مٹی کا تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمتوں میں معمولی اضافے کا امکان بھی موجود ہے، تاہم حتمی فیصلہ وزارت خزانہ اور وزیراعظم کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ وزارت خزانہ قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے آپشن پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، تاکہ کسی بڑے مالی جھٹکے سے بچا جا سکے۔
ذہن نشین رہے کہ اوگرا کی جانب سے ہر 15 دن بعد پیٹرولیم نرخوں پر نظرثانی کی جاتی ہے، جس میں بین الاقوامی منڈی کے اعداد و شمار اور ملکی مالیاتی پالیسیوں کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔
اگرچہ مجوزہ کمی معمولی ہے، مگر موجودہ مہنگائی کے تناظر میں عوام کیلئے معمولی ریلیف کا باعث بنے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف دیتی ہے یا بجٹ سے پہلے مزید بوجھ ان کے کندھوں پر ڈالتی ہے۔ حتمی فیصلہ یکم جون کو سامنے آ جائے گا۔
بجٹ 2025-26:تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سےمتعلق اہم خبرآگئی
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا
اسلام آباد:ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے جس کے سبب مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے زائد ہوگیا۔
حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمہ قرضوں سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین سال میں پاکستان کے ذمہ قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد پر آنے کا تخمینہ ہے، مالی سال 2026ء سے 2028ء کی درمیانی مدت میں قرض پائیدار رہنے کی توقع ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگیا، گزشتہ ایک سال کے دوران قرضے میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ اضافہ ہوا، سال 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، گزشتہ سال مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وزارت خزانہ نے قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی بھی نشاندہی کردی ہے۔ وزارت خزانہ حکام کے مطابق رپورٹ میں معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے، ایکسچینج ریٹ اور سود کی شرح میں تبدیلی قرض کا بوجھ بڑھا سکتی ہے، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلی قرض کے خطرات میں اضافہ کر سکتے ہیں، فلوٹنگ ریٹ قرض کی بڑی مقدار سے شرح سود کا خطرہ بلند رہے گا، پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد ملکی قرض ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، شرح سود کا خطرہ برقرار ہے، مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد، ری فنانسنگ کا خطرہ برقرار ہے، بیرونی قرضے مجموعی قرض کا 32.3 فیصد ہیں، زیادہ تررعایتی قرضہ دوطرفہ و کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل ہوا، فلوٹنگ بیرونی قرض 41 فیصد ہےاس سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے اور زرمبادلہ ذخائر کم ہونے کا امکان خطرناک ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالیاتی نظم و ضبط اور معاشی استحکام سے قرض کا دباؤ کم ہوگا، برآمدات اور آئی ٹی سیکٹر کے فروغ سے زرمبادلہ استحکام کا ہدف ہے، قرض اجرا میں شفافیت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا، پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی اورمسابقت سے قرض کے مؤثرانتظام کی سمت پیشرفت ہوئی، آمدن میں کمی یا اخراجات بڑھنے سے پرائمری بیلنس متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ہنگامی مالی ذمہ داریوں کے اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں، گزشتہ سال معاشی شرح نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد ہوگئی، اگلے تین سال میں شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا تخمینہ ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق مہنگائی 23.4 فیصد سے گھٹ کر 4.5 فیصد پر آگئی، سال 2028ء تک مہنگائی کی شرح 6.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے، پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی آئی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام اور بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوا، وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں 6.2 فیصد تک محدود رہا، وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا، درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد سرپلس برقرار رہنے کی توقع ہے آمدن میں اضافہ، اخراجات میں کفایت، سود ادائیگیوں میں کمی سے بہتری آئی ہے۔