کرپٹو کرنسیوں پر کوئی پابندی نہیں، اسٹیٹ بینک کی وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) نے واضح کیا کہ اس نے کرپٹو کرنسیز سمیت ورچوئل اثاثوں (VAs) کو کبھی بھی غیر قانونی قرار نہیں دیا۔
مرکزی بینک کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ایڈوائزری نے بینکوں، مائیکرو فنانس اداروں، ترقیاتی مالیاتی اداروں (DFIs)، الیکٹرانک منی اداروں (EMIs) اور دیگر مالیاتی خدمات فراہم کرنے والوں کو احتیاطی اقدام کے طور پر خالصتاً VAs میں ڈیل کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے کرپٹو کرنسی پر پابندی برقرار ہے، سیکریٹری خزانہ
مرکزی بینک کے مطابق یہ ایڈوائزری مکمل طور پر ہمارے ریگولیٹڈ اداروں اور ان کے صارفین کے تحفظ کے لیے جاری کی گئی تھی، اس لیے نہیں کہ VAs کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
یہ وضاحت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو دی گئی حالیہ بریفنگ کے تناظر میں سامنے آئی ہے، جس کے دوران یہ تجویز کیا گیا تھا کہ پاکستان میں کریپٹو کرنسیوں کی تجارت اور انعقاد غیر قانونی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ کرپٹو سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث اداروں کو اس طرح کے لین دین کی اطلاع فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کو دینے کی ضرورت ہے، جو اس کے بعد کیسز کو مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیج دیتا ہے۔
ایس بی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سہیل جواد نے کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی کہ 2018 کی ہدایت بدستور نافذ العمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بلاک چین اور کرپٹو کرنسی امور پر بلال بن ثاقب وزیراعظم کے معاون خصوصی مقرر
تاہم مرکزی بینک نے واضح کیا کہ وہ اس وقت فنانس ڈویژن اور حال ہی میں تشکیل دی گئی پاکستان کرپٹو کونسل (PCC) کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ ملک میں کرپٹو کرنسیوں کے لیے ایک جامع ریگولیٹری اور قانونی فریم ورک ڈیزائن کیا جا سکے۔
اسٹیٹ بینک نے نوٹ کیا کہ ایک باضابطہ فریم ورک کے قیام سے پاکستان میں ڈیجیٹل اثاثوں کی قانونی حیثیت کو واضح کرنے میں مدد ملے گی، جبکہ مناسب سرمایہ کاروں کے تحفظ اور صارفین کے تحفظات کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
اسٹیٹ بینک کی وضاحت کے باوجود، سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے اسی کمیٹی کی بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان میں اس وقت کریپٹو کرنسیوں پر پابندی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے اثاثوں کا کاروبار کرنے والوں کو ایف ایم یو اور ایف آئی اے سمیت متعلقہ نافذ کرنے والے حکام کی طرف سے تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کمیٹی کی چیئرپرسن نفیسہ شاہ کے اس سوال کے جواب میں کہ پی سی سی پارلیمنٹ یا اسٹیٹ بینک کی مشاورت کے بغیر کیوں قائم کی گئی، سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ٹاسک فورس وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے تشکیل دی گئی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی سی سی کا کردار مشاورتی نوعیت کا ہے، جس کا مقصد ایک قانونی اور طریقہ کار کو آگے بڑھانا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیٹ بینک پاکستان سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کرپٹو کرنسی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹیٹ بینک پاکستان کرپٹو کرنسی اسٹیٹ بینک کی کے لیے
پڑھیں:
صنعتکاروں کی پالیسی ریٹ 11فیصد برقرار رکھنے پر کڑی تنقید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-2
کراچی (کامرس رپورٹر)سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے صدر احمد عظیم علوی نے بزنس کمیونٹی کے مسلسل مطالبے کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرنے اور 11فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ایک بار پھر پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک کے اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت کی معاشی شرگرمیوں میں تیزی لانے کی تمام حکمت عملی پر پانی پھر جائے گا اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ایک بیان میں احمد عظیم علوی کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں یکدم نمایاں کمی کرنے سے قاصر ہے تو مرحلے وار کچھ نہ کچھ کمی کرکے اسے نیچے لایا جاسکتا ہے جس کے ملکی معیشت پر یقینی طور پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور کاروبار وصنعتوں کی توسیع اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی تاہم حالیہ اقدامات نے بزنس کمیونٹی شدید مایوس کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ کی زائد شرح کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں ( ایس ایم ایز) کو ہو گا جو زائد پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنی بقا قائم رکھنے کی سخت جدوجہد کررہی ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ مہنگائی کو جواز بنا کر پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرنا ہر گز دانشمندی نہیں حالانکہ گذشتہ کئی ماہ کا جائزہ لیا جائے تو مہنگائی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے مگر اسٹیٹ بینک نے اپنی مانیٹری پالیسی کو نرم کرنے کے بجائے مزید سخت کردیا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔مرکزی بینک کو پاکستان کے حریف ممالک میں پالیسی ریٹ کا جائزہ لینا چاہیے جہاں آسان شرائط اور مناسب شرح پر قرضوں کی فراہمی معمول کی بات ہے۔ انہوں نے مانیٹری پالیسی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے اور ملک کے بہتر مفاد میں پالیسی ریٹ کو بتدریج نیچے لائے تاکہ کاروبار و صنعتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو اور پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکے۔