عید سے قبل بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی باتیں جھوٹی ہیں، وکیل
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
راولپنڈی(نیوز ڈیسک)بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا ہے کہ عید سے پہلے عمران خان کی رہائی کی باتیں جھوٹی ہیں۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں 9 مئی مقدمات کی سماعت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا کہ کوئی ڈیل، ڈھیل نہیں ہو رہی۔ 3 سال قبل بانی چیئرمین کو آفر کی گئی کہ 3 سال چپ رہیں سب ٹھیک کر دیا جائے گا تو بانی کا جواب تھا کہ 3 سال نہیں، 3 منٹ چپ نہیں رہوں گا ۔
نعیم پنجوتھا نے کہا کہ بانی نے 3 نکات ’بھارت کی جارحیت،دہشت گردی اور معاشی معاملات‘ پر مذاکرات کی ہامی بھری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ایم این اے کو بغیر ثبوت و شواہد اور ہمیں حتمی دلائل دیے بغیر سزا دی گئی ۔ ہمارے 52 ارکان اسمبلی خلاف کیسز ہیں، انہیں سزا دینے کی سازش ہورہی ہے۔ بانی نے دوٹوک جواب دیا ہے کہ کسی صورت نہیں جھکوں گا۔ ہمیں انصاف فراہم نہ ہوا تو اس کی ذمہ دار عدلیہ ہوگی۔
وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے مزید کہا کہ چھبیسویں ترمیم کا مقصد فراڈ الیکشن کو تحفظ اور ہمیں سزا دینا تھا ۔ اب ہمیں 27 ویں آئینی ترمیم کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ترامیم جتنی مرضی کر لیں، جتنے مرضی ارکان اسمبلی و سینیٹر نااہل قرار دے دیں، ہم نہیں جھکیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ بانی چیئرمین کو جیل میں کہا گیا کہ 9مئی پر معافی مانگیں تو سب ٹھیک ہوگا ۔ بانی نے کہا 9 مئی کی فوٹیج لائیں جو ذمے دار نکلے سخت سزا دی جائے۔ بانی نے کہا معافی وہ مانگے جس نے 9 مئی کرایا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ قائد حزب اختلاف کو بھی 62 اور 63 کا نوٹس دے دیا گیا ہے۔ بانی کی رہائی پر کسی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے۔ عید سے قبل بانی کی رہائی کی باتیں جھوٹی ہیں۔ بانی نے حتمی طور پر واضح کر دیا کہ ملک کی خاطر جیل یا پھر بات کرو، ڈیل کسی صورت نہیں ہوگی۔
وزیراعظم امن و امان سے متعلق خصوصی جرگے میں شرکت کیلئے کوئٹہ پہنچ گئے
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
معیشت اور انصاف
ہم نے یہ جنگ اس بار ہمت سے لڑی۔ میرا یہ کامل یقین ہے کہ جنگیں کبھی جیتی نہیں جاتیں، بہت نقصان ہوتا ہے، انسانی جانیں چلی جاتی ہیں، معیشتیں تباہ ہوجاتی ہیں، دہائیاں لگ جاتی ہیں واپس بحال ہونے میں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یہ جنگ ہم نے نہیں کی تھی، یہ جنگ تو ہم پر مسلط کی گئی۔
پاکستان کی تاریخ میں اس بار جو افراط زر آیا، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ہمیشہ کی طرح زرمبادلہ کے ذخائر چند ہفتوں کے رہ جاتے تھے۔ جو بات ہمیں سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جب تک ہماری معیشت بہتر نہیں ہوگی، ہم بہتر یا مضبوط نہیں ہوسکتے۔ جس ملک سے ہمیں ہمیشہ جنگ کا سامنا ہے، وہ دفاع پر ہمارے مقابلے میں دس گنا زیادہ خرچ کرتا ہے، لیکن فی کس آمدنی کے حساب سے ہمارے مقابلے میں آدھے سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی آبادی بہت بڑی ہے۔ اس کی معیشت بہت مضبوط ہے اور اس کی شرح نمو سات فیصد کے لگ بھگ ہے، وہ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ ہم نے یقیننا ان کا غرور خاک میں ملادیا، لیکن یہ کوئی کشتی کا کھیل نہیں۔ ہمارے نصیب میں جو غربت آئی ہے اور بہت کچھ ہندوستان کی طرف بھی اس طرح سے ہی ہے۔
غربت سائوتھ ایشیا کا نصیب بن گئی اور اب تک بھی ہم اس غربت سے نہیں نکل سکے۔ ہم اگر دفاع کے لیے پیسے نہیں بڑھاتے تو بھی ہمارے لیے مشکل۔ اس لیے کہ جس دشمن سے ہمیں سامنا ہے وہ بہت سے پیسے بچت میں رکھتا ہے دفاع کے لیے۔ اور اگر ہم دفاع کے لیے پیسے زیادہ نہیں رکھتے تو دشمن کا مقابلہ ممکن نہیں رہتا ، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم وہ پیسے تعلیم، صحت وغیرہ پر رکھتے ہیں تو بہت زیادہ ترقی ہوسکتی ہے لیکن مجبوری ہے۔
ہمیں انسانی وسائل پر بھی پیسہ خرچ کرنا ہے تاکہ ہماری معیشت مضبوط ہوجائے۔ ہنر مند پیدا ہوں اور اس ہنر سے ہم زر مبادلہ کمائیں گے خاص کرکے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں۔ بہت تیزی سے مصنوعی ذہانت دنیا کو تبدیل کرنے جارہی ہے لگ بھگ چار ہزار ارب ڈالر دنیا کی مجموعی پیداوار میں آیندہ چند سالوں میں مصنوعی ذہانت کے فروغ سے آئیں گے۔
یقینا پاکستان اس سے مستفید ہوسکتا ہے کیوں کہ ہماری تعلیم کا انفرا اسٹرکچر مغرب کی طرح ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے تعلیم سرکاری اسکولوں سے غائب کر دی ہے لیکن جو متوسط طبقہ ہے جو اپنے بچوں کو کیمرج سسٹم کے تحت پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھا سکتا ہے اور وہ بھی جو اپنے بچوں کو معقول تعلیم دلا سکتے ہیں وہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں آگے اپنے لیے روزگار اور اس ملک کے لیے زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔
جو انتہائی خوش آیند بات ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے ترسیلات جو 26 ارب ڈالر ہوا کرتی تھی وہ اب 36 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ ہماری ایکسپورٹ جو 24 ارب ڈالر تھیں وہ اب تیس ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ ہمارا کرنٹ اکائونٹ ڈیفیسٹ یا بیلینس آف پیمنٹ اب توازن میں ہیں اور یہ بھی کسی انقلاب سے کم نہیں کہ ان دو سالوں میں ہماری آمدنی ٹیکسزکی مد میں جوکل تک 8 ہزار ارب تھی اب 13 ہزار ارب تک پہنچ گئی ہیں، لیکن جو فی کس آمدنی ہے یا جو معیشت کا شرح نمو ہے وہ ڈھائی فیصد تک ہے۔
یقیننا جو یہ پانچ چھ سال کی معیشت کا بحران آیا، اس سے اب نکل رہے ہیں۔ انٹرسٹ ریٹ جو 22 فیصد تھا وہ اب گیارہ فیصد تک آگیا ہے۔ اس مرتبہ ہماری زراعت منفی رہی ۔ ملک کے 55 فیصد جو ورک فورس ہے وہ کھیتی باڑی سے منسلک ہے۔ پانی کے ذخائرکم ہونے جا رہے ہیں، ہندوستان کے پانی کے حوالے سے ہمارے تنازعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہم ابھی تک یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان مستحکم معیشت سے نکل کر اب مضبوط معیشت کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ابھی تک ہمارے اوپر آئی ایم ایف کا پروگرام لاگو ہے، ہم پر ہزاروں ارب کا قرضہ ہے۔
نیا بجٹ ہماری دہلیز پرکھڑا ہے، یہ بجٹ ہم آئی ایم ایف کی منشا کے بغیر بنا ہی نہیں سکتے، اس لیے آنے والے بجٹ سے افراط زر بے قابو ہونے کا خطرہ برقرار ہے، رواں سال آئی ایم ایف نے ہمیں چالیس فیصد ٹیکسز بڑھانے کے لیے کہا اور ہم سب یہ سمجھے کہ افراط زر بڑھے گا، لیکن اس بار ہم نے اگر چالیس فیصد دوبارہ نئے ٹیکسز لاگوکیے اور وہ بھی ان ڈائریکٹ ٹیکسز، افراط زر بے قابو ہوسکتا ہے۔ آنے والے زمانوں میں مجموعی اعتبار سے بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں گریں گی۔ الیکٹریکل کار، سولر انرجی دنیا کی کایا پلٹ دے گی۔
اگر ہم غور سے دیکھیں یہ شاید ہم ہی دنیا کا واحد خطہ ہیں جہاں آپس میں ٹریڈ کرنے کا رواج نہیں ہے۔ نہ ہم ایران سے گیس لے سکتے ہیں نہ ہندوستان کے ساتھ تجارت کرسکتے ہیں اور جو افغان ٹریڈ ہے ، اس کے ذریعے سارا سامان اسمگل ہوکر ہمارے ملک میں کھپتا ہے، اس نے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔
اس ساری صورتحال میں ایک طرف تو روایتی بیانیہ ہے جو ہماری نیشنل سیکیورٹی کے پس منظر میں ہے اور دوسری طرف ہماری معیشت ہے۔ اس قوم میں معیشت کے حوالے سے حساسیت ہونی چاہیے جس کو اجاگرکرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں جو تاریخ سے سبق ملتا ہے وہ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ دشمن نے ہمیشہ ہماری داخلی حالات دیکھ کر حملہ کیا ہے۔ وہ پراکسی جنگ کرنے کا ماہر ہے اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ چالیس سال سے یہ جو افغان پالیسی تھی، ، طرح طرح کی پرائیویٹ فورسز بنیں جو افغانستان جہاد کے لیے جاتی تھیں، اس نے ہماری معیشت کو ماڈرن نہیں ہونے دیا،دنیا سے اپنے آپ کو جوڑنے کا بیانیہ تھا، اس کوکمزوکیا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان نے ترقی اور جدید دنیا سے جوڑنے کا معاشی اعتبار سے مضبوط کرنے کا بیانیہ متعارف کروایا ہے۔
ہمیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ 1971 کی جنگ جو ہندوستان کے ساتھ ہوئی وہ کشمیر کے تنازع پرکم اور مشرقی پاکستان میں ہمارے فوجی آپریشن کی غیر مقبولیت کا فائدہ اٹھایا گیا۔ یہ بحران ان انتخابات کی کوکھ سے نکلا اور ایوب کی آمریت کے زمانوں میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں پیدا ہوئیں، اقتدار سارا مغربی پاکستان کی طرف جھکا ہوا تھا جس کا فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور ہم دولخت ہوئے۔
یہ ضروری ہے کہ تاریخ کو اس کی حقیقتوں میں دیکھنا چاہیے۔ پاکستان آج بھی اس حوالے سے شدید چیلینجزکا سامنا ہے۔ کوئی بھی بری حکمرانی وہ چاہے بلوچستان میں ہو یا اب کے یہ بحران سندھ میں بھی کھلتا جا رہا ہے، اسے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے فیصلے کرنے سے اجتناب کیا جائے جس سے بحران بڑھے اور ایسے بحران کا دشمن فائدہ اٹھائے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان ایک وفاقی ملک ہے، اس میں چار اکائیاں ہیں اور خود اکائیوں کے اندر مختلف ثقافتیں اور زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔
کسی بھی مسئلے کا حل آہنی ہاتھوں کا استعمال نہیں ہوسکتا، بلوچستان میں جس طرح لوگوں کا گم ہوجانا اور خود ان گمشدگیوں نے حالات اور خراب کیے۔ آج ڈاکٹر مالک جیسے لوگ بلوچ نوجوانوں کے مقبول لیڈر نہیں رہے اور جو بھی وہاں کا مقبول لیڈر ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو سیاسی معاملے ہیں وہ سیاسی انداز میں حل ہوں تو بہتر ہے۔
مختصر یہ کہ ہمیں معاشی اعتبار سے مضبوط ہونا ہے اور اس لیے جو رکاوٹ ہے وہ ہے ہمارا مخصوص پرانا بیانیہ جوکہ اب بھی مقبول بھی نہیں رہا۔ انتہائی سنجیدگی کی ضرورت اور پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ جس تیزی سے معیشت بہتر ہو رہی ہے اور یہ اگر دس برس تک اس طرح بہتر ہوتی رہی یقیننا ہمارے پاس ڈھیر سارے پیسے ہوں گے، دفاع کے لیے بھی اور انسانی وسائل کو بہترکرنے کے لیے بھی اور پھر دشمن کبھی بھی میلی آنکھ سے دیکھنے کے لائق نہیں رہے گا۔