شہداء کانفرنس کے بعد احسان ایڈووکیٹ کی رہائی کیلئے تحریک چلائیں گے، سید علی رضوی
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی صدر سید علی رضوی نے کہا ہے کہ ہماری زمینوں کو ہتھیانے کیلئے قانون بنانے والے ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں جس پر قانون بنانے والوں کو شرم آنی چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی صدر سید علی رضوی نے کہا ہے کہ ہماری زمینوں کو ہتھیانے کیلئے قانون بنانے والے ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں جس پر قانون بنانے والوں کو شرم آنی چاہیئے، ہم ایک انچ زمین کسی کو نہیں دیں گے، زمینوں کا تحفظ ہر صورت میں کریں گے، زمینوں کے ساتھ بڑا تماشہ ہو رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں گلتری کالونی شق تھنگ سکردو میں علمائے کرام، عمائدین اور نوجوانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی زمینوں، معدنیات اور چراگاہیں کسی کے حوالے کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہونگے، ہم سے دشمنی مول کر کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی، عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین احسان ایڈووکیٹ کو محض زمینوں کے تحفظ کی بات کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے، احسان ایڈووکیٹ کو خصوصی سیل میں رکھ کر ٹارچر کیا جا رہا ہے، شہداء کانفرنس کے بعد احسان ایڈووکیٹ کی گرفتاری کے خلاف تحریک چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم آزاد فضاؤں میں سکون کی زندگی گزار رہے ہیں تو یہ ہمارے شہداء کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: احسان ایڈووکیٹ نے کہا
پڑھیں:
غیرت کے نام پر بلوچستان میں قتل خاتون کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان، ملزمان کی رہائی کا مطالبہ
غیرت کے نام پر بلوچستان میں فائرنگ کرکے قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ بانو کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، معاملے میں گرفتار ملزمان کو رہا کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی والدہ نے اپنے جاری مبینہ بیان میں کہا کہ میرا نام گل جان ہے اور میں بانو کی ماں ہوں، میں اس قرآن پاک کو سامنے رکھ کر سچ بول رہی ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی، وہ کوئی بچی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا بڑا بیٹا نور احمد ہے، جس کی عمر 18 سال ہے۔ دوسرا بیٹا واسط ہے، جو 16 سال کا ہے۔ اس کے بعد اس کی بیٹی فاطمہ ہے، جو 12 سال کی ہے۔ پھر اس کی بیٹی صادقہ ہے، جو 9 سال کی ہے۔ اور سب سے چھوٹا بیٹا زاکر ہے، جس کی عمر 6 سال ہے۔
والدہ نے کہا کہ کیا ایک بلوچ کا ضمیر یہ گوارا کرے گا کہ اتنے بچوں کی ماں کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے؟ بے شک، ہم نے انہیں قتل کیا، یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تم ہمارے گھروں پر چھاپے بھیجتے ہو، ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم نے جو بھی کیا، غیرت کے تحت کیا، کوئی گناہ نہیں کیا۔ میری بیٹی بانو اور احسان اللہ پڑوسی تھے۔
بانو 25 دن احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ 25 دن بعد وہ واپس آ گئی۔ تب بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اسے معاف کر دیا اور اسے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا۔ مگر احسان اللہ باز نہیں آیا، وہ ہمیں ویڈیوز بھیجتا تھا۔ ٹک ٹاک پر ہاتھ پر گولی رکھ کر کہتا تھا: ’جو مجھ سے لڑنے آئے، وہ شیر کا دل رکھ کر آئے۔‘ وہ ہمیں دھمکیاں دیتا تھا۔
والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے کی تصویر پر کراس کا نشان لگا کر کہتا تھا: ’میں اسے مار دوں گا۔‘ اتنی رسوائی اور بے غیرتی ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے جو بھی کیا، اچھا کیا۔ اس قرآن پر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں قتل کرنا ہمارا حق تھا۔