Daily Ausaf:
2025-11-03@17:14:01 GMT

جرائم میں اضافے کی وجوہات

اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم کی بیخ کنی کے لیئے کام کرے لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا ہم اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کررہے ہیں؟ جس دور میں ہیں ہم سب نفسانفسی کی زندگی گزار رہے ہیں ہم معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے۔ اپنی ذات سے نکل کر جب ہم دوسروں کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے تو جرائم سمیت دیگر مسائل کا حل بھی نکل آئیگا۔ پاکستان کا واحد مسئلہ صرف اور صرف معاشی ہے۔یہی مسئلہ بڑھتے ہوئے جرائم کا سبب بھی ہے۔ جرائم کے بڑھنے کی وجہ احساس محرومی بھی ہے۔ انصاف کا بول بالا نہ ہو۔طاقتور، کمزور پر حاوی ہونے لگے تو ملک میں جرائم بڑھتے رہیں گے۔ ناانصافی بھی جرم بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ لوگوں کو انصاف ملنا شروع ہو جائے تو یقیناجرم میں کمی ہو گی۔
قانون کا خوف ہو گا تو کوئی بھی بندہ جرم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں قانون تو ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا۔پولیس میں کرپٹ عناصر کی وجہ سے بھی جرم بڑھتے ہیں۔ یہ سب حکومت کے سوچنے کی باتیں ہیں۔لوگوں سے معاشرہ بنتا ہے۔ معاشرہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مل جل کر رہنا ہے۔اس سے مراد لوگوں کا وہ گروہ ہے جو کسی مشترکہ نصب العین کی خاطر وجود میں آیا ہو۔ کسی معاشرے کے افراد میں فکری سوچ، وحدت عمل اور ذہنی یک جہتی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس طرح کے معاشرے میں جغرافیائی حد بندیوں کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ معاشرہ کثیر التعداد بنی نوح انسان کی وہ جماعتی زندگی جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے، ترقی، حصول مقصد اور فلاح و بقا کے لیے دوسروں سے سابقہ پڑتا ہے۔ جس ماحول سے کسی فرد، بندہ بشر کو ضرر نہیں، معاشرہ کہلاتا ہے۔ لوگ جہاں مل جل کر رہنے لگیں وہاں معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ یعنی افراد سے ہی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔موجودہ دور میں جرم ایک عام سا معمول او رمعاشرے کا جزو لازم بن گیا ہے۔ جرم یا جرائم اخلاقی ہوں یا معاشرتی۔ لوٹ مار، قتل یا ڈکیتی سے متعلق ہوں۔ ان کی زد سے نہ انفرادی زندگی محفوظ ہے، نا اجتماعی۔ آج پورے عالم میں جرائم کا تناسب بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ جرائم کی کثرت کا جو عالم ہے ، وہ کسی بیان یا وضاحت کا محتاج نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا پورا معاشرہ ہی جرائم کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ کوئی اسے بے روزگاری کی وجہ قرار دیتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہی معاشرہ جرائم کی لپیٹ میں ہے۔بہرحال ان ناگفتہ بہ حالات کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں، مذکورہ تمام اسباب جزوی طور پر بہ کثرت جرائم کا باعث ہیں۔ جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں جہاں نہ بے روزگاری ہے۔ قانون پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے اور جہاں معاشرتی شعور کی بھی کوئی کمی نہیں۔ تعلیم بھی بہت زیادہ ہےاور جہاں نظم و ضبط کا بھی کوئی فقدان نہیں لیکن وہاں مجرم قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔پولیس بھی کرپٹ نہیں۔ نظام بھی غیر لچک دار ہے۔ پھر بھی اگر وہاں جرائم ہوتے ہیں تو حیرانی کی بات ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے جرائم کی سالانہ رپورٹ ملاحظہ کی جائے تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ حال ہی میں مغرب میں جرائم کی شرح کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم امریکہ میں ہوتے ہیں۔ہر معاشرے کا ایک دستور ہے جس کے مطابق لوگ اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ اپنے روزمرہ کے معاملات کو انہی اصولوں کے تحت انجام دیتے ہیں۔ اگر معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم نہ رہے تو معاشرے میں عدل ناپیدہو جاتا ہے۔ لوگوں میں بد دلی پھیلتی ہے۔ جس سے لوگوں میں احساس اور ذمہ داری کا خیال نہیں رہتا یوں معاشرے ذلت و رسوائی اور ناآسودگی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ نوجوان نسل پر اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو انہیں جرم کی طرف راغب کرتے ہیں۔ تعلیم کی کمی، معاشرتی ناہمواری اور اخلاقی اصولوں کے مطابق عملی تربیت نہ ہونے سے بھی آج کا نوجوان بھٹک رہا ہے اور جرم کی طرف مائل ہو رہا ہے۔جب بھی کوئی کسی وجہ سے جرم کرتا ہے اور جیل جاتا ہے تو جیل میں نت نئے جرائم کے بارے میں کافی کچھ سیکھتا ہے۔ جیلوں کو جرائم کی نرسریاں کہا گیا ہے۔ یہ بات ٹھیک بھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے سزا کاٹنے کے بعد کوئی مجرم جیل سے باہر آئے تو آئندہ کے لیے جرائم سے توبہ کر لے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جیل کی سطح پر مجرمان کی اسلامی فقہ کے مطابق ذہنی تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔ایسی تربیت ہو جائے کہ وہ ناصرف دوبارہ جرم کی طرف راغب نہ ہو۔ بلکہ جیل سے باہر آ کر معاشرے کا مفید اورکارآمد فرد بن جائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جرائم کی ہوتے ہیں کی طرف ہے اور

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ اس وقت پارٹی اور وفاقی حکومت یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام دوسرا رخ میں گفتگو کرتے ہوئے گوہر علی خان نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں تلاش نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والی بات چیت بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: موجودہ آرمی چیف کے دور میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے، بیرسٹر گوہر علی خان

انہوں نے بتایا کہ جب مارچ 2024 میں پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا مینڈیٹ چُرایا گیا ہے، تو پارٹی بانی عمران خان نے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی، مگر جب بات چیت آگے نہ بڑھی تو کہا گیا کہ پی ٹی آئی صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے۔

گوہر علی خان کے مطابق عمران خان نے کہا تھا کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اگر کوئی تجویز لے کر آتے ہیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید بتایا کہ 26 نومبر کو ایک اور کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی لیکن حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی۔ ہماری اور حکومت کی کمیٹیوں کے قیام کے باوجود دو ہفتے تک ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد حکومت نے ملنے میں دلچسپی نہیں دکھائی، اس لیے ہم نے محض فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا قومی اسمبلی کی 4 قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ

انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد محض بات چیت نہیں بلکہ سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنا تھا، جو جمہوریت، پارلیمان اور تمام جماعتوں کے لیے بہتر ہوتا، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔

خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشنز پر مؤقف

گوہر علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں جاری آپریشنز کے حوالے سے جنوری، جولائی اور ستمبر میں آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں۔ ان کے مطابق انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ضروری ہیں، تاہم ان میں شہریوں کو نقصان یا سیاسی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ آپریشنز میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے گھر آج تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکے، اس لیے آئندہ کسی بھی کارروائی میں عوامی تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسٹیبلشمنٹ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی مذاکرات

متعلقہ مضامین

  • جعلی اکاونٹس کیس،عدالتی حکم پر جج احتساب عدالت نے نیب دائرہ اختیار پر فیصلہ نہ سنانے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ جمع کروادی
  • تکنیکی و آپریشنل خرابیاں،5پروازیں منسوخ  
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • پنجاب میں عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں،جماعت اسلامی
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر