(گزشتہ سےپیوستہ)
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم کی بیخ کنی کے لیئے کام کرے لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا ہم اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کررہے ہیں؟ جس دور میں ہیں ہم سب نفسانفسی کی زندگی گزار رہے ہیں ہم معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے۔ اپنی ذات سے نکل کر جب ہم دوسروں کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے تو جرائم سمیت دیگر مسائل کا حل بھی نکل آئیگا۔ پاکستان کا واحد مسئلہ صرف اور صرف معاشی ہے۔یہی مسئلہ بڑھتے ہوئے جرائم کا سبب بھی ہے۔ جرائم کے بڑھنے کی وجہ احساس محرومی بھی ہے۔ انصاف کا بول بالا نہ ہو۔طاقتور، کمزور پر حاوی ہونے لگے تو ملک میں جرائم بڑھتے رہیں گے۔ ناانصافی بھی جرم بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ لوگوں کو انصاف ملنا شروع ہو جائے تو یقیناجرم میں کمی ہو گی۔
قانون کا خوف ہو گا تو کوئی بھی بندہ جرم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں قانون تو ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا۔پولیس میں کرپٹ عناصر کی وجہ سے بھی جرم بڑھتے ہیں۔ یہ سب حکومت کے سوچنے کی باتیں ہیں۔لوگوں سے معاشرہ بنتا ہے۔ معاشرہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مل جل کر رہنا ہے۔اس سے مراد لوگوں کا وہ گروہ ہے جو کسی مشترکہ نصب العین کی خاطر وجود میں آیا ہو۔ کسی معاشرے کے افراد میں فکری سوچ، وحدت عمل اور ذہنی یک جہتی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس طرح کے معاشرے میں جغرافیائی حد بندیوں کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ معاشرہ کثیر التعداد بنی نوح انسان کی وہ جماعتی زندگی جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے، ترقی، حصول مقصد اور فلاح و بقا کے لیے دوسروں سے سابقہ پڑتا ہے۔ جس ماحول سے کسی فرد، بندہ بشر کو ضرر نہیں، معاشرہ کہلاتا ہے۔ لوگ جہاں مل جل کر رہنے لگیں وہاں معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ یعنی افراد سے ہی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔موجودہ دور میں جرم ایک عام سا معمول او رمعاشرے کا جزو لازم بن گیا ہے۔ جرم یا جرائم اخلاقی ہوں یا معاشرتی۔ لوٹ مار، قتل یا ڈکیتی سے متعلق ہوں۔ ان کی زد سے نہ انفرادی زندگی محفوظ ہے، نا اجتماعی۔ آج پورے عالم میں جرائم کا تناسب بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ جرائم کی کثرت کا جو عالم ہے ، وہ کسی بیان یا وضاحت کا محتاج نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا پورا معاشرہ ہی جرائم کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ کوئی اسے بے روزگاری کی وجہ قرار دیتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہی معاشرہ جرائم کی لپیٹ میں ہے۔بہرحال ان ناگفتہ بہ حالات کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں، مذکورہ تمام اسباب جزوی طور پر بہ کثرت جرائم کا باعث ہیں۔ جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں جہاں نہ بے روزگاری ہے۔ قانون پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے اور جہاں معاشرتی شعور کی بھی کوئی کمی نہیں۔ تعلیم بھی بہت زیادہ ہےاور جہاں نظم و ضبط کا بھی کوئی فقدان نہیں لیکن وہاں مجرم قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔پولیس بھی کرپٹ نہیں۔ نظام بھی غیر لچک دار ہے۔ پھر بھی اگر وہاں جرائم ہوتے ہیں تو حیرانی کی بات ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے جرائم کی سالانہ رپورٹ ملاحظہ کی جائے تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ حال ہی میں مغرب میں جرائم کی شرح کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم امریکہ میں ہوتے ہیں۔ہر معاشرے کا ایک دستور ہے جس کے مطابق لوگ اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ اپنے روزمرہ کے معاملات کو انہی اصولوں کے تحت انجام دیتے ہیں۔ اگر معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم نہ رہے تو معاشرے میں عدل ناپیدہو جاتا ہے۔ لوگوں میں بد دلی پھیلتی ہے۔ جس سے لوگوں میں احساس اور ذمہ داری کا خیال نہیں رہتا یوں معاشرے ذلت و رسوائی اور ناآسودگی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ نوجوان نسل پر اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو انہیں جرم کی طرف راغب کرتے ہیں۔ تعلیم کی کمی، معاشرتی ناہمواری اور اخلاقی اصولوں کے مطابق عملی تربیت نہ ہونے سے بھی آج کا نوجوان بھٹک رہا ہے اور جرم کی طرف مائل ہو رہا ہے۔جب بھی کوئی کسی وجہ سے جرم کرتا ہے اور جیل جاتا ہے تو جیل میں نت نئے جرائم کے بارے میں کافی کچھ سیکھتا ہے۔ جیلوں کو جرائم کی نرسریاں کہا گیا ہے۔ یہ بات ٹھیک بھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے سزا کاٹنے کے بعد کوئی مجرم جیل سے باہر آئے تو آئندہ کے لیے جرائم سے توبہ کر لے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جیل کی سطح پر مجرمان کی اسلامی فقہ کے مطابق ذہنی تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔ایسی تربیت ہو جائے کہ وہ ناصرف دوبارہ جرم کی طرف راغب نہ ہو۔ بلکہ جیل سے باہر آ کر معاشرے کا مفید اورکارآمد فرد بن جائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جرائم کی ہوتے ہیں کی طرف ہے اور
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔