Daily Ausaf:
2025-06-02@21:07:02 GMT

پاک بھارت تنازعہ کے بعد کی سیاسی صورتحال

اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کوئی نئی بات نہیں۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سن انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے وقت سے ہی تنازعات کھینچا تانی اور جنگ جاری ہیں۔ تاہم ہر گزرتے سال کے ساتھ ان تنازعات میں شدت پیدا ہوتی رہی ہے اور سیاسی معاملات روزانہ کی بنیاد پر نیا موڑ لیے نظر آرہے ہوتے ہے۔ بالخصوص سن دو ہزار پچیس کے پاک بھارت تنازعہ نے جو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک اور سنگین بحران کا سبب بنا ہے، اس نے دونوں ممالک کے سیاسی منظر نامہ کو بے حد متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔
پاکستان میں یہ صورت حال محض سیاسی نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور حتیٰ کہ ثقافتی سطح پر بھی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ پاکستان کا داخلی سیاسی منظر نامہ جو کہ کئی سالوں سے تنازعات اور تقسیم کا شکار تھا بھارتی حملے کے بعد اس سیاسی منظر نامہ میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی نظر آئی کہ تمام سیاست دان اور ان کے حامی و حمایتی ایک قوم بن کر اپنی سپاہ کے ساتھ کھڑی نظر آئی اور ان کے شانہ بشانہ ہر محاذ پر ان لڑنے کا عزم بھی ظاہر کیا اور کئی جگہ تو ایسے مناظر بھی نظر آئے کہ شہری سپاہ کے ساتھ لڑتی نظر آئی پر کچھ عناصر جو کہ ملت اور قوم کے دشمن کے ہاتھوں ایک معمولی کھلونا بن کر اپنی قوم اور عوام کا نقصان کرنے پر تلی نظر آرہی ہے تاہم کچھ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اندرونی خلفشار کا فائدہ ان چند باغی عناصر کے ذریعے بھارت جیسے ہمسایہ ملک اٹھا سکتے ہیں جو پاکستان کے استحکام کو ہلانے کی ہر ممکن کوشش کرنے میں اپنی جی جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔
دوسری طرف بھارت کی داخلی سیاست میں بھی اس تنازعہ نے گہرا اثر ڈالا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا رکھا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بھارت میں حزبِ اختلاف بھی مودی حکومت کی اس پالیسی پر سوالات اٹھاتی نظر آرہی ہے اور یہ سیاسی کشمکش بھارت کی داخلی صورت حال کو مزید پیچیدہ بناتی جارہی ہے۔
دونوں ممالک میں اشتعال انگیزی کی بڑھتی لہر میڈیا ہمیشہ سے ہی پاک بھارت تعلقات میں ایک اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔ دونوں ممالک کے میڈیا نے ہمیشہ اپنے ممالک کے مفادات کا دفاع کیا ہے لیکن یہ اکثر عوامی جذبات کو بھڑکانے اور افواہوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی بنتا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں اور جنگی جنون کی حقیقی شکل عوام اور اقوام عالم کے سامنے پیش کرتے ہوئے شدید مذمت کی جبکہ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحیت کو نمایاں کرکے پیش کیا اور جھوٹی و من گھڑٹ کہانیاں بھی اپنی عوام کو سنا کر گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی پر ’’گودی میڈیا‘‘ کو بھارتی میڈیا اور عالمی میڈیا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا اور اپنی منہ کی بھی کھانی پڑی جس سے عوام میں ’’گودی میڈیا‘‘ کا مکروہ چہرہ سامنے آیا اور اس سے مودی سرکار کو کافی نقصان پہنچا پر دوسری طرف مودی سرکار نے فوری اس کا اثر زائل کرنے کے لیے مذہبی کارڈ کھیلتے ہوئے ہندو مسلم تنازعہ کھڑا کردیا اس میں بھی مودی سرکار کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کشیدگی کے دوران بھارتی میڈیا نے اپنے عوام کو اس انداز میں معلومات فراہم کیں کہ وہ اپنے دشمن کے بارے میں مزید اشتعال انگیز جذبات رکھیں۔ جبکہ پاکستانی میڈیا نے اپنا درست کردار ادا کرتے ہوئے صحیح انداز میں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے حق و سچ پر مبنی معلومات فراہم کی پر بھارتی میڈیا کے اس کردار نے سیاسی منظر نامہ کو مزید پیچیدہ بنایا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کو فروغ دیا۔
سوشل میڈیا نے دونوں ممالک کی سیاسی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جہاں ایک طرف سوشل میڈیا نے عوام کو آواز دی، وہیں دوسری طرف یہ جھوٹی خبروں، اشتعال انگیز مواد اور منفی بیانیہ کا مرکز بھی بنا نظر آیا۔ بھارت اور پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے، توہین کرنے اور نفرت پھیلانے میں مصروف رہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں اور جعلی ویڈیوز کا پھیلاؤ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات کو مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا گیا۔
پاک بھارت تنازعہ کے دوران عالمی برادری کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ سن بیس پچیس کے تنازعہ کے بعد عالمی طاقتوں نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی برقرار ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی اس معاملے میں مداخلت کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور کسی بھی فوجی تنازعہ کا نتیجہ بہت ہی سنگین ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے لیے اس صورت حال میں سب سے بڑا چیلنج داخلی استحکام ہے۔ داخلی سیاست میں انتشار، معاشی بحران اور اس کے علاوہ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔ ایک طرف جہاں حکومت کو بھارتی جارحیت کا جواب دینا ضروری ہے، وہیں دوسری طرف ملک کے اندر کے مسائل جیسے مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر اہم عوامی مسائل نے عوامی سطح پر حکومت کے خلاف جذبات کو ابھارا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے، جہاں انہیں داخلی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی حکمت عملی اپنانا ہوگی وہیں ان کو عالمی سطح پر بھی اپنے موقف کو منوانے کے لیے بھی ان تھک کوششیں کرنی ہوگی۔
بھارت کے لیے بھی یہ وقت بڑا چیلنج ہے۔ جہاں ایک طرف وہ پاکستان کے ساتھ جنگی حالات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے وہیں دوسری طرف وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی برادری بھارت کی جارحیت کو تو نظر انداز کر دیتی ہے لیکن جب بات پاکستان کی ہوتی ہے تو پاکستان کو عالمی سطح پر حمایت حاصل ہوتی ہے۔ بھارت کے لیے یہ ایک اہم موڑ ہے، جہاں اس کو اپنے فیصلوں کی عالمی سطح پر اثرات کا اندازہ لگانا ہوگا۔
پاک بھارت کشیدگی کے بعد کی سیاسی صورت حال بے حد پیچیدہ ہوچکی ہے اور دونوں ممالک کے لیے امن کی راہ تلاش کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر نفرت اور جذبات کا غصہ بڑھ چکا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت تحمل کا مظاہرہ کرے۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ اس صورت حال میں مداخلت کرے اور دونوں ممالک کو امن کے راستے پر لے آئے۔
اگرچہ امن کی امیدیں کم ہیں مگر ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں یہ یقین رکھنا ہوگا کہ ہر بحران کے بعد ایک نیا آغاز ہوتا ہے اور ہمیں اپنی قیادت اور عوام کو ایک نیا مقصد دینا ہوگا تاکہ یہ کشیدگیاں ختم ہو سکیں۔
بقول ساحر لدھیانوی:
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازم ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سیاسی منظر نامہ ممالک کے درمیان دونوں ممالک کے بھارتی میڈیا عالمی سطح پر پاکستان کے سوشل میڈیا پاک بھارت صورت حال کی سیاسی میڈیا نے بھارت کی بھارت کے عوام کو کے خلاف کے ساتھ ہے اور کے لیے کے بعد

پڑھیں:

اسحاق ڈار کا افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ ، دونوں ممالک کا تعاون جاری رکھنے پر اتفاق

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا افغان ہم منصب امیر خان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں دونوں جانب سے سفارتی تعلقات کو سفیروں کی سطح تک بڑھانے کے فیصلوں کا خیر مقدم کیا گیا۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق دو روز قبل وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان میں اپنے سفارتخانے کو سفیر کی سطح پراپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں افغانستان نے بھی گزشتہ روز اسلام آباد میں تعینات اپنے ناظم الامور کو سفیر کی سطح تک بڑھا دیا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا بتانا ہے کہ آج وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا افغان ہم منصب امیر خان متقی سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں افغان وزیر خارجہ امیر خان نے پاکستان کی جانب سے سفارتی تعلقات سفیر کی سطح تک بڑھانے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امیر خان متقی نے آگاہ کیا کہ افغانستان نے بھی اسی نوعیت کا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا، انہوں نے اس پیشرفت کو دونوں ممالک کے تعلقات کے لئے مثبت اور خوش آئند قرار دیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے 19 اپریل کی ملاقات میں طے پانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیا اور باہمی اعتماد کے فروغ کے لئے قریبی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
اس کے علاوہ ٹیلیفونک رابطے میں علاقائی روابط کے لئے ازبکستان افغانستان پاکستان ریلوے منصوبے کی اہمیت پر زور دیا گیا اور ازبکستان افغانستان پاکستان ریلوے منصوبے کی جلد تکمیل کے لئے فریم ورک معاہدے کو حتمی شکل دینے پر اتفاق بھی کیا گیا۔

فضائیہ کی ذلت کے بعد وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی اگلے حملے میں  اپنی بحریہ کو آگے کرنے  کی خفت بھر ی دھمکی، پاک فوج کے ترجمان کا موقف بھی آگیا

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور اٹلی کے درمیان سفارتی تعلقات کی ایک بھرپور اور قابل فخر تاریخ ہے،عطاء تارڑ
  • سول سوسائٹی کے اراکین کا تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بات چیت پر زور
  • وزیراعظم غزہ کی صورتحال پر اسلامی ممالک کے سربراہان کا اجلاس بلائیں، حافظ نعیم الرحمان
  • اسحاق ڈار کا افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ ، دونوں ممالک کا تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • پاکستان اور افغانستان کا سفارتی تعلقات اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ
  • صدرمملکت کا پاکستان اور بنگلادیش کرکٹ ٹیموں کے اعزاز میں استقبالیہ
  • میں اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے پاکستان اور بنگلہ دیش کو علیحدہ ہوتے دیکھا،صدر آصف علی زرداری
  • پاک بھارت جنگ چھڑی تو دونوں ممالک کیساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہوگی،امریکی صدر ٹرمپ کا لاتعلقی کا اعلان
  • صدر ٹرمپ نے پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کی امریکا آمد سے متعلق کیا کہا؟