امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ وزیراعظم غزہ میں اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے اسلامی ممالک اور فلسطین کے دوست ممالک کے سربراہان کا اجلاس بلائیں۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے حیدرآباد میں اسرائیل انڈیا مردہ باد جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے ثابت کردیا کہ وہ سامراجی طاقتوں ، امریکا ، اسرائیل کے خلاف ہیں، مسلمان حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں ظلم پر کیوں خاموش ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صہیونیوں کا خواب گریٹر اسرائیل، مسلمان خاموش رہے تو کوئی محفوظ نہیں رہےگا، حافظ نعیم الرحمان

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ مسلمان حکمران ٹرمپ کی خوشنودی چاہتے ہیں، امریکی صدر عرب ممالک میں بھتہ وصول کرنے آیا تھا، مسلمان حکمرانوں نے ٹرمپ سے اسرائیل کے خلاف بات کرنے کی جرآت نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا پڑے گا، پاکستان انڈیا کے خلاف فتح کے بعد پوری دنیا میں طاقتور ملک کے طور پر ابھرا ہے، پاکستان کو کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے عملی اقدام اٹھانے پڑیں گے۔

امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ بھارت کے خلاف فتح کا بہت جشن منا لیا، اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آگے بڑھا جائے، کشمیر کے مسئلہ کے حل کے بغیر بھارت سے تجارت قبول نہیں، وزیراعظم اسلامی ممالک اور فلسطین کے دوست ممالک کے سربراہان کا اجلاس بلائیں۔

یہ بھی پڑھیں: جو جنگ ابھی لڑی گئی یہ 2019 میں ہونی چاہیے تھی، حافظ نعیم الرحمان

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اسرائیل کا سرپرست ہے، غزہ پر بم نتین یاہو ہی نہیں ٹرمپ بھی پھینک رہا ہے، پاکستان کی حکمران اور اپوزیشن جماعتیں امریکا کی مذمت نہیں کرتیں، ن لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی واشنگٹن کی مذمت سے خوفزدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ غزہ پر خاموش تماشائی ہے، یہ عراق، جنوبی سوڈان کے معاملے پر ایکٹو ہوجاتی ہے، پاکستان چین سے بات کرے ، ترکی سے بات کی جائے، فیلڈ مارشل سے کہتاہوں کردار اداکریں ، آپ جنگ اس لیے جیتے کہ قوم نے آپ کا ساتھ دیا، چاروں صوبوں میں حالات خراب ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news پاکستان جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان حیدرآباد غزہ مارچ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان حافظ نعیم الرحمان جماعت اسلامی کے خلاف کے لیے کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

پاک بھارت تنازعہ کے بعد کی سیاسی صورتحال

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کوئی نئی بات نہیں۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سن انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے وقت سے ہی تنازعات کھینچا تانی اور جنگ جاری ہیں۔ تاہم ہر گزرتے سال کے ساتھ ان تنازعات میں شدت پیدا ہوتی رہی ہے اور سیاسی معاملات روزانہ کی بنیاد پر نیا موڑ لیے نظر آرہے ہوتے ہے۔ بالخصوص سن دو ہزار پچیس کے پاک بھارت تنازعہ نے جو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک اور سنگین بحران کا سبب بنا ہے، اس نے دونوں ممالک کے سیاسی منظر نامہ کو بے حد متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔
پاکستان میں یہ صورت حال محض سیاسی نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور حتیٰ کہ ثقافتی سطح پر بھی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ پاکستان کا داخلی سیاسی منظر نامہ جو کہ کئی سالوں سے تنازعات اور تقسیم کا شکار تھا بھارتی حملے کے بعد اس سیاسی منظر نامہ میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی نظر آئی کہ تمام سیاست دان اور ان کے حامی و حمایتی ایک قوم بن کر اپنی سپاہ کے ساتھ کھڑی نظر آئی اور ان کے شانہ بشانہ ہر محاذ پر ان لڑنے کا عزم بھی ظاہر کیا اور کئی جگہ تو ایسے مناظر بھی نظر آئے کہ شہری سپاہ کے ساتھ لڑتی نظر آئی پر کچھ عناصر جو کہ ملت اور قوم کے دشمن کے ہاتھوں ایک معمولی کھلونا بن کر اپنی قوم اور عوام کا نقصان کرنے پر تلی نظر آرہی ہے تاہم کچھ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اندرونی خلفشار کا فائدہ ان چند باغی عناصر کے ذریعے بھارت جیسے ہمسایہ ملک اٹھا سکتے ہیں جو پاکستان کے استحکام کو ہلانے کی ہر ممکن کوشش کرنے میں اپنی جی جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔
دوسری طرف بھارت کی داخلی سیاست میں بھی اس تنازعہ نے گہرا اثر ڈالا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا رکھا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بھارت میں حزبِ اختلاف بھی مودی حکومت کی اس پالیسی پر سوالات اٹھاتی نظر آرہی ہے اور یہ سیاسی کشمکش بھارت کی داخلی صورت حال کو مزید پیچیدہ بناتی جارہی ہے۔
دونوں ممالک میں اشتعال انگیزی کی بڑھتی لہر میڈیا ہمیشہ سے ہی پاک بھارت تعلقات میں ایک اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔ دونوں ممالک کے میڈیا نے ہمیشہ اپنے ممالک کے مفادات کا دفاع کیا ہے لیکن یہ اکثر عوامی جذبات کو بھڑکانے اور افواہوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی بنتا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں اور جنگی جنون کی حقیقی شکل عوام اور اقوام عالم کے سامنے پیش کرتے ہوئے شدید مذمت کی جبکہ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحیت کو نمایاں کرکے پیش کیا اور جھوٹی و من گھڑٹ کہانیاں بھی اپنی عوام کو سنا کر گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی پر ’’گودی میڈیا‘‘ کو بھارتی میڈیا اور عالمی میڈیا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا اور اپنی منہ کی بھی کھانی پڑی جس سے عوام میں ’’گودی میڈیا‘‘ کا مکروہ چہرہ سامنے آیا اور اس سے مودی سرکار کو کافی نقصان پہنچا پر دوسری طرف مودی سرکار نے فوری اس کا اثر زائل کرنے کے لیے مذہبی کارڈ کھیلتے ہوئے ہندو مسلم تنازعہ کھڑا کردیا اس میں بھی مودی سرکار کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کشیدگی کے دوران بھارتی میڈیا نے اپنے عوام کو اس انداز میں معلومات فراہم کیں کہ وہ اپنے دشمن کے بارے میں مزید اشتعال انگیز جذبات رکھیں۔ جبکہ پاکستانی میڈیا نے اپنا درست کردار ادا کرتے ہوئے صحیح انداز میں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے حق و سچ پر مبنی معلومات فراہم کی پر بھارتی میڈیا کے اس کردار نے سیاسی منظر نامہ کو مزید پیچیدہ بنایا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کو فروغ دیا۔
سوشل میڈیا نے دونوں ممالک کی سیاسی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جہاں ایک طرف سوشل میڈیا نے عوام کو آواز دی، وہیں دوسری طرف یہ جھوٹی خبروں، اشتعال انگیز مواد اور منفی بیانیہ کا مرکز بھی بنا نظر آیا۔ بھارت اور پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے، توہین کرنے اور نفرت پھیلانے میں مصروف رہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں اور جعلی ویڈیوز کا پھیلاؤ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات کو مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا گیا۔
پاک بھارت تنازعہ کے دوران عالمی برادری کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ سن بیس پچیس کے تنازعہ کے بعد عالمی طاقتوں نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی برقرار ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی اس معاملے میں مداخلت کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور کسی بھی فوجی تنازعہ کا نتیجہ بہت ہی سنگین ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے لیے اس صورت حال میں سب سے بڑا چیلنج داخلی استحکام ہے۔ داخلی سیاست میں انتشار، معاشی بحران اور اس کے علاوہ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔ ایک طرف جہاں حکومت کو بھارتی جارحیت کا جواب دینا ضروری ہے، وہیں دوسری طرف ملک کے اندر کے مسائل جیسے مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر اہم عوامی مسائل نے عوامی سطح پر حکومت کے خلاف جذبات کو ابھارا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے، جہاں انہیں داخلی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی حکمت عملی اپنانا ہوگی وہیں ان کو عالمی سطح پر بھی اپنے موقف کو منوانے کے لیے بھی ان تھک کوششیں کرنی ہوگی۔
بھارت کے لیے بھی یہ وقت بڑا چیلنج ہے۔ جہاں ایک طرف وہ پاکستان کے ساتھ جنگی حالات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے وہیں دوسری طرف وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی برادری بھارت کی جارحیت کو تو نظر انداز کر دیتی ہے لیکن جب بات پاکستان کی ہوتی ہے تو پاکستان کو عالمی سطح پر حمایت حاصل ہوتی ہے۔ بھارت کے لیے یہ ایک اہم موڑ ہے، جہاں اس کو اپنے فیصلوں کی عالمی سطح پر اثرات کا اندازہ لگانا ہوگا۔
پاک بھارت کشیدگی کے بعد کی سیاسی صورت حال بے حد پیچیدہ ہوچکی ہے اور دونوں ممالک کے لیے امن کی راہ تلاش کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر نفرت اور جذبات کا غصہ بڑھ چکا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت تحمل کا مظاہرہ کرے۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ اس صورت حال میں مداخلت کرے اور دونوں ممالک کو امن کے راستے پر لے آئے۔
اگرچہ امن کی امیدیں کم ہیں مگر ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں یہ یقین رکھنا ہوگا کہ ہر بحران کے بعد ایک نیا آغاز ہوتا ہے اور ہمیں اپنی قیادت اور عوام کو ایک نیا مقصد دینا ہوگا تاکہ یہ کشیدگیاں ختم ہو سکیں۔
بقول ساحر لدھیانوی:
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازم ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے

متعلقہ مضامین

  • حافظ نعیم الرحمٰن کا اسرائیلی بربریت پر مسلم حکمرانوں کی کانفرنس بلانے کا مطالبہ
  • حافظ نعیم کا اسرائیلی بربریت پر مسلم حکمرانوں کی کانفرنس بلانے کا مطالبہ
  • حافظ نعیم  الرحمان نےغزہ میں اسرائیلی بربریت پر مسلم حکمرانوں کی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کر دیا 
  • بہت جشن منا لیا اب مسئلہ کشمیرکوپہلی ترجیح بنانا ہوگا، حافظ نعیم الرحمان
  • ملی یکجہتی کونسل خیبر پختونخوا کی صیہونی مظالم پر اسلامی ممالک کی خاموشی کی مذمت
  • پاک بھارت تنازعہ کے بعد کی سیاسی صورتحال
  • کرپشن، بدانتظامی، امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر جے یو آئی کا عوامی مہم چلانے کا اعلان
  • کرپشن، بدانتظامی، امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر جے یو آئی کا عوامی مہم چلانے کا اعلان
  • جماعت اسلامی نے برطانیہ سے غزہ میں جنگ بندی کروانے کا مطالبہ کر دیا