مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اقوامِ متحدہ اورانسانی حقوق کی تنظیمیں جن کے دفتروں کی دیواروں پرانسانیت کے عظیم اصول آویزاں ہیں،وہ مودی کےان بیانات پریاتو خاموش ہیں یاایسے دیکھ رہی ہیں جیسے کسی ناول کے کردارجومکالمہ نہیں،فقط تماشاکرتے ہیں۔حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹرکی شق(2) اور4))واضح طورپرکسی بھی ملک کودوسرے ملک کے خلاف طاقت یااس کی دھمکی سے باز رہنے کاپابندبناتی ہے۔ مگریہاں سوال اخلاقی جرات کاہے اورتاریخ گواہ ہے کہ طاقتورکے خلاف زبان کھولناہمیشہ کمزوردلوں کےبس کی بات نہیں رہی۔اگریہ بات دنیاکے سامنے پوری صداقت کےساتھ لائی جاتی ہےتویہ صرف مودی کانہیں،بلکہ اسرائیل کے عسکری جنون اورامریکی خاموشی کابھی پردہ چاک کرنےکالمحہ ہوگا۔اس سے قبل کہ اسرائیل کی مداخلت جنگ کانیامحاذ کھول دےتواس وقت تک بہت دیرہوجائے گی اوراس جنگ کو سنبھالناکسی کے بس میں نہ ہوگا۔جب دشمن کھلی دھمکی دے اوردنیاخاموش رہے،توخاموشی کاتقاضہ یامزاحمت کا بھرپور مظاہرہ اس لئے ضروری ہے کہ یہ خاموشی فقط حکمت نہیں بلکہ بزدلی کی چادر اوڑھے ہوئےظلم کی خاموش ساتھی بن جاتی ہے۔ پاکستان،جس نے ہمیشہ امن کی بات کی،اورعالمی سطح پرسفارتی وقارکے ساتھ اپنے اصولی موقف کو اجاگرکیاسوال یہ ہے کیا عالمی برادری مودی کی دھمکیوں پر نوٹس لے سکتی ہے؟
مودی کی جانب سےپاکستانی شہریوں کوگولیوں سے اڑانے کی کھلی دھمکی بین الاقوامی قوانین،اقوام متحدہ کےمنشور،اوربنیادی انسانی حقوق کے تمام معیارات کی صریح خلاف ورزی ہے۔یہ بیان کسی سیاسی اختلاف کا اظہار نہیں بلکہ ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک کی جانب سے دوسرے ملک کے شہریوں کے خلاف نسلی وریاستی دہشت گردی کا کھلااعلان ہے۔اقوامِ متحدہ کے چارٹرکی شق2 اور 4 ہرملک کواس بات سے روکتی ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی دے۔اسی طرح انسانی حقوق کاعالمی اعلامیہ اورجنیواکنونشنزبھی اس قسم کے بیانات کونسل کشی،اشتعال انگیزی اورجنگی جرائم کے زمرے میں شمارکرتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے:کیااقوام عالم ایسے بیانات پرکوئی عملی قدم اٹھائیں گی؟ماضی کاتجربہ بتاتاہے کہ جب ایسے جارحانہ بیانات کسی بڑے تجارتی یادفاعی اتحادی ملک کی جانب سے آتے ہیںجیسے بھارت امریکا، اسرائیل اوریورپی طاقتوں کے ساتھ ہے تو ’’عالمی ضمیر‘‘ اکثر مصلحت کاشکارہوجاتاہے۔اس کے باوجوداقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اس معاملے کو اٹھایا جاسکتاہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پررپورٹس جاری کرسکتی ہیں۔یورپی پارلیمنٹ میں قراردادپیش کی جاسکتی ہے۔عالمی عدالتِ انصاف میں اسے جنگی نفرت انگیزی قراردیا جاسکتاہے لیکن اس سب کے لئے پاکستانی سفارتکاری، میڈیا،اور سول سوسائٹی کو فوری، متحداورسنجیدہ کوشش کرنی ہوگی تاکہ عالمی رائے عامہ کو مودی کے جنگی جنون سے آگاہ کیاجاسکے۔عالمی میڈیامیں مودی کے بیانات کوجنگی اشتعال انگیزی کے طورپرپیش کرے اور سب سے بڑھ کر،قوم کے اندر سیاسی استحکام، یکجہتی، اورداخلی ہم آہنگی کوفروغ دے تاکہ ہردھمکی،ہروار،ہرحملہصرف قوم کی یکجہتی سے ہی پسپاہو۔
مودی کے حالیہ بیانات محض انتخابی جلسوں کی لفاظی نہیں بلکہ خطے کے امن کوتہہ وبالا کرنے والاذہنی ونظریاتی خاکہ ہے۔اقوامِ عالم کواگرواقعی خطے میں امن عزیزہے،توانہیں اس اشتعال انگیزی کانوٹس لیناہوگا، ورنہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دوممالک اگر جنگ کی جانب بڑھتے ہیں تواس کا ایندھن صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ ساری دنیابن سکتی ہے۔
پاکستان کوچاہیےکہ سفارتی سطح پرمودی کے بیانات کواقوامِ متحدہ،اوآئی سی،یورپی یونین اورعالمی میڈیاکے سامنے بھرپورانداز میں اٹھائے۔اسی طرح امریکا،اسرائیل اوربھارت کے درپردہ گٹھ جوڑکوبے نقاب کرکے دنیاکوبتایاجائے کہ یہ’’امن کی ثالثی‘‘نہیں بلکہ ’’جنگی جرائم پرپردہ ڈالنے‘‘کی کوشش ہے۔مستقبل کی راہ میں جارحیت اورنفرت کی بجائے حکمت ،تحمل اورسفارتی آداب کواپنانا ضروری ہے۔سیاسی قائدانہ صلاحیت اسی میں ہے کہ کشیدگی کوکم کیاجائے،بات چیت کے دروازےکھلےرکھےجائیں اورخطے کی بھلائی کے لئے مشترکہ حل تلاش کیے جائیں۔ مودی کے دھمکی آمیزالفاظ شایدعارضی طورپرقومی جذبے کوجلابخشیں،مگرتاریخ انہیں یادرکھے گی یاتوطاقت کی علامت کے طورپریاایک ایسی دھنک کے طورپرجوطوفان کے بعد غائب ہوجاتی ہے۔خاموشی تب ہی سنہری ہوتی ہے جب وہ طاقت کی علامت ہو،ورنہ وہ زوال کی پیشگی خبرہوتی ہےاورکسی بھی ملک کی خودداری یاسلامتی کے لئے نقصان دہ ہے۔بین الاقوامی برادری کوچاہیےکہ وہ بھارت کوسفارتی اور اخلاقی طورپرجوابدہ بنائے۔اقوام متحدہ اوردیگرعالمی فورمزپرایسے بیانات کی مذمت اور امن کے فروغ کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔اب اقوام عالم کی ذمہ داری اورایک بڑاامتحان ہے کہ وہ بھارتی قیادت کوخبردارکرے کہ:آئندہ وہ ایسے متنازعہ بیانات سے گریز کرے اورخطے میں امن قائم رکھنے کی کوشش کرے۔خطے کے ممالک میں اعتمادسازی کی کوششیں تیزکی جائیں۔بات چیت کے ذریعےاختلافات کوکم کرنے اوردیرپاامن قائم کرنے کی کوششوں کو بڑھایاجائے۔ بھارت،پاکستان اورچین کے درمیان اعتماد بڑھانے کے لئے مثبت اقدامات کیے جائیں۔پاکستان اورچین کی حکمت عملی ماڈل سے استفادہ کیاجائے۔حکمت عملی اورتحمل کے ذریعے خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کوممکن بنایا جائے۔عالمی برادری سے تعلقات بہتر بنائےجائیں تاکہ خطے میں استحکام ممکن ہوسکے۔ بھارت کوچاہیے کہ وہ پاکستان اورچین کے ساتھ بات چیت کوترجیح دے تاکہ دیرپاامن کا راستہ کھلے۔عوام میں امن اوررواداری کے فروغ کے لئے تعلیمی اورمیڈیاکی سطح پرپروگرام ترتیب دیے جائیں۔تاکہ نفرت اورجارحیت کی فضاکوکم کیاجاسکے۔
مودی کے حالیہ بیانات محض انتخابی جلسوں کی لفاظی نہیں بلکہ خطے کے امن کوتہہ وبالاکرنے والاذہنی ونظریاتی خاکہ ہے۔اقوامِ عالم کواگرواقعی خطے میں امن عزیزہے،توانہیں اس اشتعال انگیزی کانوٹس لیناہوگا، ورنہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دوممالک اگر جنگ کی جانب بڑھتے ہیں تواس کاایندھن صرف جنوبی ایشیانہیں بلکہ ساری دنیابن سکتی ہے۔ پاکستان کوچاہیے کہ سفارتی سطح پرمودی کے بیانات کواقوامِ متحدہ،اوآئی سی،یورپی یونین اورعالمی میڈیاکے سامنے بھرپورانداز میں اٹھائے۔اس طرح امریکا، اسرائیل اوربھارت کے درپردہ گٹھ جوڑکوبے نقاب کرکے دنیاکوبتایاجائے کہ یہ’’امن کی ثالثی‘‘نہیں بلکہ ’’جنگی جرائم‘‘ پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔اورآخرمیں،ایک حکایتِ دانش وقت جب بولتاہے،توقوموں کوتاریخ بنادیتاہے اورجوقومیں اس کی آوازکونظراندازکریں،وہ عبرت کا افسانہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان اورچین نے اس لمحے کوپہچان لیااورجو لمحے کوپہچان لے،وہ زمانے کابادشاہ ہوتاہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان اورچین مودی کے بیانات اشتعال انگیزی اقوام متحدہ نہیں بلکہ کی جانب کے خلاف کی کوشش
پڑھیں:
پاکستان کے جائز مسائل کا حل پوری دنیا کا حق ہے، اقوام متحدہ کردار ادا کرے ؛ نواز شریف
سٹی 42: سابق وزیراعظم نواز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوست ممالک نے پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے سیاست ، معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ،پنجاب میں مریم نواز کی حکومت عوام دوست اقدامات کر رہی ہے، میری دعا ہےپاکستان اسی طرح ترقی کرتا رہے، 2017 میں پاکستان درست سمت میں ترقی کر رہا تھا،سازشوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا، پاکستان کے جائز مسائل کوسپورٹ کرنا پوری دنیا کا حق ہے، جتنے بھی ٹائم ہو سکتا جو ہے اس کی بات کی اور جو قراردادیں منظور کی وہ امن کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے عمل کرانے کے لیے اقوام متحدہ کو احساس ہونا چاہیے کہ اس کے الفاظ کی قرارداد کو امپلیمنٹ کیا جائےاقوام متحدہ کو بھی اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے ،مسئلہ کشمیر اور فلسطین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔
وفاقی حکومت نے عیدالاضحٰی پر عام تعطیلات کا اعلان کردیا