Daily Ausaf:
2025-11-03@11:52:34 GMT

مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
بھارتی سیاسی نظریہ اورحکمت عملی میں جہاں قدیم سیاسی مصلحتوں کارنگ غالب نظرآتاہے وہاں چانکیہ کے اصولوں کی جھلک نمایاں ہے،جہاں طاقتورکی فوری تعظیم اوراس کوفوراً خدامان کرسجدہ کیاجاتاہے اورکمزورکی بےدریغ تنقیدشامل ہے،اوراس کو بلاتوقف توڑاجاتاہے۔اس اصول پرچلتے ہوئے بھارت اپنے خدائوں کی تعدادمیں بےشمار دیوتا رکھتا ہے ، جن میں چوہے اورسانپ بھی شامل ہیں،مگرجب یہ دیوتا کمزورپڑتے ہیں توان کے پجاری انہیں بےدردی سے توڑپھوڑنے میں دیرنہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کامذہبی و سیاسی منظرنامہ بظاہرمتضاداورالجھاہواہےجہاں خداؤں کی تعدادکروڑوں میں ہے، مگر ہر وقت اپنے ہی دیوتاؤں کے پجاری ان کے خلاف بھی نکلنے کوتیاررہتے ہیں۔
مودی کی طرف سے رافیل طیاروں کی ناکامی کے باوجود ان کے دفاع میں مذہبی رسومات اورپوجا کاسہارالینااس مصلحت کی عکاسی کرتاہے، جوطاقت کے خداؤں کے سامنے جھکاؤ اور اندرونی کمزوری کی داستان سناتاہے۔مودی کے زیراستعمال رافیل جنگی طیاروں کی پوجااوران کےجنگی ناکامیوں کے باوجوداس رسومات کوعالمی میڈیاپردکھایاجانا،اس داخلی تضادکا عکاس ہےجوبھارتی معاشرے میں طاقت اور کمزوری، عقل اورجہالت کے بیچ جھول رہاہے۔
مودی کے متعصبانہ جارحانہ بیانات نہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کوزہرآلود کرتے ہیں بلکہ پورے خطے اورجنوبی ایشیاء میں عدم استحکام کے اندیشے کو بڑھادیتے ہیں۔ پاکستان اورچین کی جانب سے دکھائی جانے والی صبرو تحمل اورحکمت عملی بھارت کی جارحیت کے مقابلے میں ایک پختہ حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے، جومشرقی ایشیا میں طاقت کے توازن کوبدل رہی ہےاوردوسری طرف وہ خطے میں طاقت کے توازن کوتبدیل کررہی ہے، اوربھارت کوسیاسی اورسفارتی محاذوں پرتنہاکررہی ہے۔ مودی کی دھمکیوں کے نتیجے میں بھارت عالمی سطح پربھی خودکوتنہاکررہاہے،جہاں امن وتعاون کے تقاضے بڑھتے جارہے ہیں۔مودی کی دھمکیوں نے عالمی برادری میں بھارت کی ساکھ کونقصان پہنچایاہے، جہاں اب امن،تعاون اورمعاشی ترقی کے لئے تعاون کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔
مودی کاپاکستان کے شہریوں کوگولیوں سے اڑانے کی دھمکی دینانہ صرف اخلاقی،قانونی اورسفارتی اصولوں اورآداب کی سنگین خلاف ورزی اورپامالی ہے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کی تشویشناک صورت حال کی بھی نمائندگی کرتاہے۔اس قسم کے بیانات دنیا کے امن پسندطبقات میں گہرے خدشات کاباعث ہیں،اوراس سے خطے میں انسانی المیہ کے امکانات مزیدبڑھ جاتے ہیں۔مودی کی تقریرنے بھارت کی حکمت عملی پرسوالیہ نشان لگادیاہے۔کیایہ جارحیت واقعی حکمت کی علامت ہے یاحماقت کی؟یاپھریہ محض ایک غصے اورکمزوری کا اظہارہے؟تاریخ بتاتی ہے کہ حکمت وہی ہوتی ہے جونہ صرف زبانی ہوبلکہ عملی طور پر مسائل کاحل نکالے اوردیرپاامن کی بنیادرکھے۔پاکستان اورچین نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جوخاموشی میں طاقتور ہے، جہاں صرف توپوں کی گڑگڑاہٹ نہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اورنفسیاتی محاذوں پربھی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔اسی حکمت کی وجہ سے پاک چین تعلقات آج خطے کے امن اور استحکام کے لئے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس ساری کشیدگی میں اسرائیل کاکردارایک نیااورنہایت نازک موڑہے۔معتبراطلاعات کے مطابق،بھارت میں موجوداسرائیلی عسکری ماہرین نے ہاروپ ڈرونزکوآپریٹ کیا،اور پاکستانی میزائل حملے میں وہ نشانہ بنے۔یہ پہلواس جنگ کوصرف پاک-بھارت تنازعہ نہیں رہنے دیتا بلکہ اسے بین الاقوامی عسکری شطرنج کاحصہ بنادیتاہے،جس میں امریکا، اسرائیل ،اور بھارت ایک طرف ہیں اورپاکستان،چین،اورخطے کے مقتدرامن پسند عوام دوسری طرف۔ اسرائیلی آپریٹرزکی موجودگی اورحملے کی حقیقت آشکارہونے کے بعد کیااسرائیل بھی اس جنگ کافریق بن چکاہے؟یہ نکتہ اس پوری کشیدگی کاسب سے اہم اورحساس پہلو ہے۔ معتبرذرائع کے مطابق،بھارت نےاسرائیل سے ’’ہاروپ‘‘خودکش ڈرون حاصل کیے جنہیں کنٹرول کرنےکےلئے درجنوں اسرائیلی عسکری ماہرین بھارتی بیسز پرموجود تھے۔پاکستان کی جوابی کارروائی میں ایک ایسابیس نشانہ بناجس میں ان اسرائیلی آپریٹرزکی موجودگی رپورٹ ہوئی اوراسی حملے میں ان کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئیں۔
غیرسرکاری اطلاعات کےمطابق اسرائیلی آپریٹرزکی لاشیں خفیہ طورپرتابوتوں میں بھارت سے اسرائیل منتقل کی گئیں۔اسرائیل اور بھارت دونوں نے اس خبرکودبانے کی کوشش کی ۔ جب پاکستان کی طرف سے اسرائیل کی براہ راست مداخلت کوحملے کاجوازبناکر جوابی کارروائی کافیصلہ کرلیاگیاجوکہ عالمی قوانین کے مطابق پاکستان کاجائزجوابی حق ہے۔یہی وہ نکتہ تھاجس پرامریکا،جوابتدا میں اس جنگ سے’’لاتعلق‘‘نظرآرہا تھا، اچانک سیزفائرکے لئےمتحرک ہوگیا۔اس ساری صورتحال نے اس جنگ کوصرف بھارت اورپاکستان کے درمیان تنازع نہیں رہنے دیا،بلکہ اسے عالمی جنگی طاقتوں کے درمیان(پراکسی)نیابتی جنگ کاآغاز قرار دیاجانے لگاجس کوروکناامریکاکی اپنی بقاء کے لئے ضروری ہوگیاتھا۔
ٹرمپ نےپہلے سیزفائرکی کوششوں کے تحت ایک’’بظاہرغیرجانبدار‘‘کرداراداکرنے کی کوشش کی۔تاہم ان کی خاموشی بلکہ بےنیازی مودی کےحالیہ جارحانہ بیانات پرجہاں کئی اہم سوالات کوجنم دیتی ہے وہاں ٹرمپ کی ثالثی اوراس پرسوالیہ نشان مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ اگرامریکاواقعی امن کاخواہاں ہے توکیاوہ مودی کی اس دھمکی کی مذمت کرے گا؟ اگر وہ خاموش رہتاہے توکیایہ اس بات کاثبوت نہیں کہ امریکادرپردہ بھارت کوتحفظ دےرہاہے؟کیایہ سچ ہےکہ سیزفائرکی آڑمیں امریکانے بھارت اوراسرائیل کوعسکری شکست سے بچانے کی کوشش کی تھی؟سفارتی ذرائع اورکچھ عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق،سیزفائرسے قبل بھارتی فضائیہ اوراسرائیلی ٹیکنالوجی کوبدترین نقصان کاسامناکرناپڑا اوریہ اندیشہ بڑھ گیاتھاکہ پاکستان،بھارت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جارحیت کابھی جواب دے گا۔ایسے میں امریکی مداخلت کامقصدنہ امن تھانہ مصالحت بلکہ بھارت اوراسرائیل کو مزید رسوائی سے بچاناتھا۔اگرٹرمپ انتظامیہ واقعی غیرجانبدارہوتی تومودی کے بیانات پرنہ صرف ناراضی کااظہارکرتی بلکہ دفاعی وسفارتی سطح پر کارروائی بھی کرتی۔مگراس کی خاموشی عالمی برادری میں امریکی پالیسی پرعدم اعتمادکوجنم دے رہی ہے،اورمسلمان ممالک میں یہ تاثرگہرا ہوتا جارہاہے کہ امریکا ’’امن‘‘کے نام پرصرف اپنے اتحادیوں کوبچانے کی حکمت عملی پرگامزن ہےاوریہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیزفائرکی اصل نیت بھارت اوراسرائیل کی عسکری ہزیمت پرپردہ ڈالناتھا۔
اب جبکہ مودی ایک بارپھردھمکیوں پراترآیا ہے، یہ سوال شدت سے ابھررہاہے کہ کیاخطے میں ایک نئی جنگ چھڑنے والی ہے؟کیا اسرائیل ایک بارپھر بھارت کے ذریعے جنوبی ایشیامیں دخل اندازی کرے گا؟اورکیاامریکادوبارہ کسی’’نام نہادثالثی‘‘کے پردے میں اسرائیل اور بھارت کوبچانے کی کوشش کرے گا؟مودی کی دھمکی کے بعداگرامریکانے اب بھی خاموشی اختیارکی تویہ شک نہیں، بلکہ یقین میں بدل جائے گاکہ امن کی ثالثی محض سفارتی چال تھی جس کامقصدبھارت کومزید رسوائی سے بچاناتھا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حکمت عملی کے مطابق کی کوشش مودی کی مودی کے

پڑھیں:

پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251102-09-4

 

محمد مطاہر خان

پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔

اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔

وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔

بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • آپریشن سندور کی بدترین ناکامی پر مودی سرکار شرمندہ، اپوزیشن نے بزدلی قرار دیدیا
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • کینیڈا اور فلپائن کا دفاعی معاہدہ، چین کو روکنے کی نئی حکمتِ عملی
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • افغان طالبان کے جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے، دہشتگردی کیخلاف اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • مشرقی محاذ پر بھارت کو جوتے پڑے تو مودی کو چپ لگ گئی: خواجہ آصف
  • مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام  انتہائی غربت سے بے حال