Daily Sub News:
2025-07-24@03:12:03 GMT

مُودی کا ”نیو نارمل”  اور  راکھ ہوتا سیندور!

اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT

مُودی کا ”نیو نارمل”  اور  راکھ ہوتا سیندور!

مُودی کا ”نیو نارمل”  اور  راکھ ہوتا سیندور! WhatsAppFacebookTwitter 0 2 June, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

                ”آپریشن سیندور” کی لاش،  دَس مئی سے بے گوروکفن پڑی ہے۔ اَب  تو اُس سے تعّفن بھی اُٹھنے لگا ہے۔ کھال ہڈّیاں چھوڑ رہی ہے۔ مُودی، بہار کے انتخابات جیتنے کے لئے گلی گلی محلّے محلّے جھوٹ کے سرکس سجا  رہا ہے۔ آپریشن سیندور کو  اپنی فتح قرار دیتے ہوئے جَنتاَ کو گمراہ کر  رہا ہے  اور  اُس کی مسلح افواج کھُلے عام اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے مُودی کی راہ کھوٹی کر  رہی ہیں۔

                مُودی کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ چار  روزہ جنگ کے نتیجے  میں ایک ”نیونارمل”  یا ”معمول ِنو”  تو جنم لے چکا ہے۔ دوسرا دعویٰ یہ کہ ”آپریشن سیندور” بدستور جاری ہے۔ مُودی کے دونوں دعوے درست مان لئے جائیں تو بھی اُن کے معنی ومفہوم کو زمینی حقائق کی آنکھ سے دیکھنا ہوگا۔ دَرودِیوار پر لکھا سچ یہ ہے کہ اپنی پسند کا وقت،  محاذ  اور طریقِ جنگ چننے کے باوجود بھارت یہ جنگ ہار گیا۔ بُری طرح ہار گیا۔ ساری دنیا نے اس ہار پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ ابتدائی مرحلے میں بھرپور تحمل کے ساتھ پاکستان نے خود کو  اپنے دفاع تک محدود  رکھا۔ اور جب ”بنیانُ المرصوص” کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دی گئیں تو صرف تین گھنٹے پینتیس منٹ میں مُودی کا سرِ پُرغرور، رزقِ خاک ہوگیا۔ اُس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ بارگاۂِ قِصرِ سفید پر دستک دیتا  اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حضور جنگ بندی کی عرضی گذارتا۔

                بقول مُودی، اگر ”آپریشن سیندور” جاری ہے، تو صرف اس قدر ہے کہ سوالات اُٹھ رہے ہیں اور میڈیا کا آتشکدہ دہک رہا ہے۔ فنِّ دروغ گوئی میں کمال مہارت کے باوجود مُودی کے لئے حقائق چھپانا مشکل ہو رہا ہے۔ پاکستان نے جنگ کے پہلے مرحلے میں ہی واضح اعلان کردیا تھا کہ  رافیل سمیت بھارت کے پانچ طیارے تباہ کردیے گئے ہیں۔ بھارت نے ایک بار بھی اس دعوے کی واضح تردید نہیں کی  البتہ حیلے بہانے سے ”چُنری” پہ لگا یہ داغ چھپانے کی کوشش کرتا رہا۔ 9 مئی کو جب بھارتی فضائیہ کے ڈی۔جی۔آپریشنز اے۔کے بھارتی سے طیاروں کی تباہی کے بارے میں سوال کیاگیا تو اُس نے الفاظ چباتے ہوئے کہا __ ”نقصانات لڑائی کا حصّہ ہوتے ہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتا۔ ایسا کرنے سے فریقِ مخالف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔” عالمی میڈیا، آزاد اور غیرجانبدار ذرائع سے پاکستانی دعوے کی تصدیق کرتا رہا۔ پھر مُودی کی جماعت بی۔جے۔پی کے سینئر راہنما اور سابق وزیر قانون سبرامینین سوامی نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ ”جنگ میں پاکستان نے بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے ہیں۔ مُودی کو چاہیے کہ وہ قوم کو سچائی سے آگاہ کریں۔” آخری اور حتمی اعتراف، چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان کی طرف سے آیا۔ ‘  بُلوم برگ’ سے انٹرویو کے دوران، نشانہ بننے والے بھارتی طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے انیل چوہان نے یہ کہہ کر بھانڈا پھوڑ دیا کہ ”طیارے گرنا زیادہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ طیارے کیوں گرے؟”  کیا بیانیہ ہے؟

                مودی کے ”نیو نارمل”  یا  ‘معمولِ نو’  کا ایک پہلو یہ ہے کہ بات چھ طیاروں کے زمین بوس ہونے تک محدود  نہیں رہی ۔ اس نے دنیا بھر کے دفاعی اور جنگی حکمت کاروں کے چوپالوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ اس سوال کی گونج بڑھتی جا رہی ہے کہ کیا چین نے، سائبر اور  اے۔آئی (مصنوعی ذہانت) کے بل پر نئی اختراعات کے ذریعے اپنے طیاروں کی ضرب اور دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کردینے میں مغربی ٹیکنالوجی پر برتری حاصل کرلی ہے؟  اس سوال میں خطے ہی نہیں،  پوری دنیا کے نظامِ دفاع وجنگ میں، نئے مضمرات کے امکانات انگڑائی لے  رہے ہیں۔

                مُودی کے  ‘نیونارمل’ کا دوسرا  اہم پہلو یہ ہے کہ  وہ اس چار  روزہ جنگ میں شدید نوعیت کی عالمی تنہائی کا شکار نظر آیا۔ اُس کے پرانے اتحادیوں  یا  دوستوں سمیت،  کوئی ایک ملک بھی سینہ تان کر اُس کے پہلو بہ پہلو کھڑا  دکھائی نہیں دیا۔ پاکستان کے دوست ڈٹ کر  اس کے ساتھ کھڑے  رہے۔ عسکری میدان کے بعد سفارتی میدان میں یہ شکست،  بھارت میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے بعد مُودی کو نہ پارلیمنٹ کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہے نہ دنیا کو منہ دکھانے کا یارا۔ پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف اور آرمی چیف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ابھی ابھی ایران، ترکیہ، آذربائیجان اور تاجکستان کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے،  پاکستان کی فتحِ مبین کا بانکپن میزبانوں کے چہروں پر بھی شفق بکھیرتا نظر آیا۔ اِس ماہ  وہ سعودی عرب  اور چین کے دوروں پر جا  رہے ہیں۔ اس سے قبل نائب وزیراعظم  اور  وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے چین کا نہایت اہم دورہ کیا جہاں افغانستان کے وزیر خارجہ کو  بھی خصوصی دعوت پر بلایا گیا۔ چین کے توسط سے پاک افغان تعلقات میں جمود  ٹوٹنے لگا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے ناظم الامور کا درجہ، سفیر تک بڑھا  دیا ہے۔ مستقبل قریب میں سفارتی رابطوں میں تیزی آنے والی ہے۔

                ‘معمولِ نو’ کا تیسرا  زوایہ،  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نپاتُلا اور متوازن روّیہ ہے جو بھارت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بھارت کو اس جنگ کے دوران امریکی حمایت کا  کامل یقین تھا۔ ایسا نہ ہوا۔ ٹرمپ کوئی ایک درجن بار بطور فخر  اپنے ”مدبرانہ کردار” کا ذکر کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ  ”میں نے دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ ٹالی۔”  اس تاثر کی نفی بھی نہیں ہو پا  رہی کہ ”بنیان المرصوص” کے برق رفتار  ردّعمل کے بعدبھارت کے ہاتھ پائوں پھول گئے  اور اس نے امریکہ سے جنگ بندی کی التماس کی۔بھارت کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہو  رہی کہ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں مسئلہ کشمیر کے حل کا ذکر کیوں کیا؟ تجارتی اور ٹیرف معاملات پر پاک امریکہ مذاکرات کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔

                ‘معمولِ نو’ نے بھارت میں ایک اور بڑے قضیے کو جنم دیا ہے۔ اس قضیے کا نام ہے بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت میں بڑھتی ہوئی خلیج  اور  متضاد بیانیے۔ دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان پر ہیں۔ دونوں راکھ بن جانے والا سیندور،  ایک دوسرے پہ پھینک رہے ہیں۔ مُودی، بہار کے انتخابات کے پیشِ نظر ڈگر ڈگر  ‘فتح’ کی ڈگڈگی بجا رہا ہے  اور اس کی اپنی مسلح افواج کے اعلی عہدیدار، پانچ طیارے گرائے جانے کا اعتراف کرتے ہوئے، بھارتی شکست کا نوحہ پڑ ھ رہے ہیں۔

                ”معمولِ نو” کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ  اگر ‘آپریشن سیندور’ جاری  ہے  تو  اَب  اِس کا رُخ پاکستان کی طرف نہیں، خود  مُودی کی طرف مُڑ گیا ہے۔ جوں جوں،  مُودی اور  اُسکے دروغ گو میڈیا کی کہانیوں کا پول کھُل رہا ہے،  توں توں جَنتاَ کا اشتعال بڑھ رہا ہے۔ گیارہ برس بعد مُودی کے چہرے کے حقیقی خدوخال نمایاں ہو رہے ہیں۔ وہ کھلی شکست سے فتح کشید کرنے کے جتن کر  رہا ہے اور  اُس کی اپنی سپاہ، اُس کے بیانیے کی دھجّیاں اُڑا  رہی ہے۔ جنرل انیل چوہان کا یہ انکشاف کوئی عام سی بات نہیں کہ دو  دِن تک بھارتی فضائیہ معطل ومفلوج ہوکر رہ گئی۔ اُدھر کانگرس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت اور مسلح افواج دونوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ بلاشبہ شکست ہمیشہ بانجھ اور لاوارث رہتی ہے لیکن بھارتی فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان شرمناک ہزیمت کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سَر تھوپنے کی جنگ وہ ”معمولِ نو” ہے جو کسی بھی حادثے کو جنم دے سکتا ہے۔

                یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

                پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران میں انسانی اسمگلرز کے شکنجے سے 10 پاکستانی شہری بازیاب اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دن سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقے ارتھنگ: فطرت کے لمس میں شفا جوہری بازدارندگی اور قومی وقار،28 مئی کی میراث سات مئی : جنوبی ایشیا کے لیے سچائی کی گھڑی پی۔ٹی۔آئی  اور ‘معمولِ نو ‘  (NEW NORMAL) TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: م ودی کا

پڑھیں:

’لارڈز ٹیسٹ میں انگریز اوپنرز 90 سیکنڈ لیٹ آئے‘، بھارتی کپتان نے چالاکی پر سوال اٹھادیا

بھارت اور انگلینڈ کے درمیان لارڈز ٹیسٹ میں ایک دلچسپ اور متنازع لمحے نے جنم لیا جب بھارتی کپتان شبھمن گل نے انگلش اوپنرز کی تاخیر پر سخت سوال اٹھایا۔ ان کے مطابق تیسرے دن جب صرف 7 منٹ کا کھیل باقی تھا، انگلینڈ کے اوپنرز 90 سیکنڈ تاخیر سے میدان میں آئے، جس کی وجہ سے بھارت صرف ایک اوور کرا سکا۔ گل کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ زیک کراؤلی کو طبی امداد ملنے پر نہیں، بلکہ جان بوجھ کر دیر سے کریز پر پہنچنے پر ہے، جو کھیل کی روح کے خلاف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کا ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں تیز ترین نصف سنچری کا نیا عالمی ریکارڈ

شبھمن گل نے اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ سے قبل پریس کانفرنس میں کہا کہ ’کافی لوگ اس پر بات کر رہے ہیں، تو میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ اس دن انگلش بلے بازوں کو 7 منٹ کا کھیل کھیلنا تھا، لیکن وہ 90 سیکنڈ تاخیر سے آئے۔ یہ کوئی 10 یا 20 سیکنڈ نہیں، پورے 90 سیکنڈ تھے۔‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ بعض اوقات ٹیمیں اوورز کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن اس کے کرنے کا ایک طریقہ ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق اگر کسی کھلاڑی کو گیند لگتی ہے اور فزیو آتا ہے تو وہ تو جائز ہے، لیکن دانستہ تاخیر کرنا قابل اعتراض ہے۔

اس واقعے کے بعد میدان میں بھارتی کھلاڑیوں کا مزاج کافی جارحانہ ہو گیا، جس کا جواب انگلینڈ نے چوتھی اننگز میں دیا۔ انگلش کوچ برینڈن میکولم کو لارڈز کی بالکونی میں اپنے کھلاڑیوں کو سلیجنگ بڑھانے کا اشارہ کرتے ہوئے دیکھا گیا، خاص طور پر جب واشنگٹن سندر بیٹنگ کے لیے آئے۔ یاد رہے، واشنگٹن نے ایک دن پہلے کہا تھا کہ بھارت آسانی سے میچ جیت جائے گا۔

انگلینڈ کا دعویٰ ہے کہ سلیجنگ بھارت نے شروع کی، لیکن شبھمن گل اس تاثر سے متفق نہیں۔

انہوں نے کہا ’میں نہیں کہتا کہ جو کچھ ہوا وہ باعثِ فخر تھا، لیکن یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس سے پہلے کئی واقعات ہوئے جو نہیں ہونے چاہیئے تھے۔ جذبات کا بہاؤ تھا اور ہم جیتنے کے لیے کھیل رہے تھے، تو بعض اوقات احساسات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔‘

ادھر انگلینڈ کے کپتان بین اسٹوکس نے بھی مانا کہ سلیجنگ کوئی باقاعدہ حکمت عملی نہیں بلکہ ماحول کا اثر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شبھمن گل کا عظیم کارنامہ: ویرات، سچن، گواسکر اور دیگر کے ریکارڈز توڑ دیے

انہوں نے کہا ’یہ ایسا نہیں ہے کہ ہم میدان میں جا کر اس کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑی سیریز ہے، دونوں ٹیموں پر دباؤ ہے، تو کبھی کبھار ماحول گرم ہو جاتا ہے۔‘

بین اسٹوکس نے مزید کہا کہ جب زیک کراؤلی اور بین ڈکیٹ کریز پر آئے، تو انگلینڈ کے پاس چوتھی اننگز میں بولنگ کا ایج تھا اور انہوں نے صرف مہارت ہی نہیں بلکہ توانائی سے بھی بھارت پر دباؤ ڈالا۔

ایک سوال کے جواب میں کہ آیا کوچ میک کلم نے ٹیم کو زیادہ نرم ہونے پر تنقید کی، اسٹوکس نے کہا ’ممکن ہے، لیکن جب ہم نے یہ بات کی تو ٹیم نے اس پر مکمل اتفاق کیا۔ ہم جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے، لیکن اگر کوئی ہمیں دبانے کی کوشش کرے گا تو ہم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news انگلینڈ برینڈن میکولم بھارت بین اسٹوکس سلیجنگ شبھمن گل لارڈ ٹیسٹ

متعلقہ مضامین

  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • ہیپاٹائٹس سے بچاؤ
  • ٹرمپ کے پاک بھارت سیز فائر کے مسلسل بیانات، راہول گاندھی مودی پر برس پڑے
  • بھارت میں خود ساختہ ریاست کا جعلی سفارتخانہ بے نقاب، ملزم گرفتار
  • اگلے 10 برسوں تک بھی جوان” نظر آنے کیلیے انجلینا جولی کیا تیاری کر رہی ہیں
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • شاہ محمود قریشی شیر پاؤ پل کیس میں بری، مقدمے کے دوران کب کیا ہوتا رہا؟
  • ’لارڈز ٹیسٹ میں انگریز اوپنرز 90 سیکنڈ لیٹ آئے‘، بھارتی کپتان نے چالاکی پر سوال اٹھادیا
  • پنجاب اسمبلی کے 26 معطل ارکان کی بحالی، کب کیا ہوتا رہا؟
  • رنگوں کی کاریگری: صحت اور سکون کے لیے کون سا رنگ بہترین ثابت ہوتا ہے؟