ویرات کوہلی کے ریسٹورنٹ پر قانون کا وار! ایف آئی آر درج
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
بھارتی کرکٹ اسٹار ویرات کوہلی کے مشہور ریسٹورنٹ One8 Commune کی بنگلور برانچ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے، اور اس بار وجہ محض کھانے یا سلیبریٹی مالکانہ حیثیت نہیں، بلکہ ایک باقاعدہ پولیس ایف آئی آر ہے، جو پبلک ہیلتھ اور انسدادِ تمباکو نوشی قوانین کی سنگین خلاف ورزی پر درج کی گئی ہے۔
بنگلور پولیس نے 29 مئی کو معمول کی نگرانی کے دوران ریسٹورنٹ پر چھاپہ مارا، جس کے دوران انکشاف ہوا کہ یہاں تمباکو نوشی کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہاں ’اسموکنگ زون‘ سرے سے موجود ہی نہیں تھا، جو کہ COTPA (Cigarettes and Other Tobacco Products Act) کے تحت ایک واضح قانونی تقاضا ہے۔
ابتدائی طور پر نان-کگنیزیبل رپورٹ (NCR) درج کی گئی، لیکن بعدازاں عدالت سے اجازت حاصل کرنے کے بعد مکمل ایف آئی آر درج کی گئی جس میں ریسٹورنٹ کے منیجر اور عملے کو نامزد کیا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر، ویرات کوہلی کا نام اس ایف آئی آر میں شامل نہیں کیا گیا، تاہم عوام اور میڈیا اب بھی ان کے ردعمل کے شدت سے منتظر ہیں۔
اب تک نہ ویرات کوہلی اور نہ ہی ان کی ٹیم کی جانب سے کوئی سرکاری بیان جاری کیا گیا ہے، جس سے قیاس آرائیاں مزید زور پکڑ رہی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بنگلور میں واقع یہ آؤٹ لیٹ تنازعات کا شکار ہوا ہو۔ جولائی 2024 میں بھی ریسٹورنٹ کو رات کے مقررہ اوقات سے زیادہ دیر تک کھلے رکھنے پر نوٹس ملا تھا۔ مقامی رہائشیوں کی شکایات پر، شور و غل اور نیند میں خلل کے باعث پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔ دسمبر 2024 میں برہت بنگلورو مہانگر پالیکے (BBMP) نے بھی آگ سے تحفظ کے ضوابط کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیا، جس میں الزام تھا کہ ریسٹورنٹ کے پاس آگ بجھانے کا ضروری اجازت نامہ (NOC) موجود نہیں۔
یہ تنازعات صرف بنگلور تک محدود نہیں رہے۔ 2023 میں One8 Commune کی ممبئی برانچ اس وقت تنقید کی زد میں آئی جب ایک تمل ناڈو کے شہری نے الزام لگایا کہ اسے روایتی لباس ویشٹی پہننے کی وجہ سے داخلے سے روک دیا گیا۔ اس واقعے نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ویرات کوہلی درج کی
پڑھیں:
شادی کی عمر کی تحدید کا نیا قانون: چند اہم سوالات
پچھلے ہفتے صدرِ مملکت نے قانون کے اس مسودے پر دستخط کرلیے ہیں جس کی رو سے شادی کے لیے 18 سال کی عمر کی تحدید کر دی گئی ہے اور اس کی خلاف ورزی پر کڑی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ صدر کے دستخطوں کے بعد اسے قانون کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس قانون کے متعلق بعض اہم سوالات پر بحث ضروری ہے۔
اس قانون کا اطلاقیہ قانون صرف اسلام آباد کی حد تک نافذ العمل ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد ویسے بھی بہت سارے امور میں وفاق کے پاس یہ اختیار باقی نہیں رہا کہ وہ صوبوں کے لیے قانون سازی کرے۔ اسلام آباد میں چونکہ صوبائی حکومت موجود نہیں ہے، اس لیے یہاں کے لیے وفاق ہی قانون سازی کرتا ہے۔ چنانچہ سندھ سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی رکن قومی اسمبلی محترمہ شرمیلا فاروقی نے قانون کا یہ مسودہ پیش کیا جسے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری اور صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد اسلام آباد کی حد تک قانون کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ سندھ اسمبلی اس موضوع پر پہلے ہی ملتا جلتا قانون منظور کرچکی ہے تاہم اسلام آباد کا قانون سندھ کے قانون سے بھی زیادہ سخت ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلام آباد سے اگر کسی بچے/ بچی کو شادی کے لیے اسلام آباد سے باہر لے جایا جائے، تو اس قانون نے اسے ’چائلڈ ٹریفکنگ‘ قرار دے کر اس پر 5 سے 7 سال تک قید مع جرمانہ کی سزا مقرر کی ہے۔ گویا اس قانون کا اطلاق علاقائی طور پر اسلام آباد میں ہوگا اور اس کے علاوہ اسلام آباد کا ڈومیسائل رکھنے والے تمام افراد پر ہوگا۔
قانون کی اہم دفعات کا خلاصہقانون کی دفعہ 2 (اے) کے مطابق ’بچے‘ سے مراد 18 سال سے کم عمر کا فرد (خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) ہے۔ دفعہ 2 (بی) کی رو سے ’بچے کے ساتھ بدسلوکی‘ میں یہ امر بھی شامل ہے کہ اس کی شادی 18 سال سے زائد یا کم عمر رکھنے والے کسی شخص کے ساتھ کی جائے۔ دفعہ 5 کی رو سے ’بچے کے ساتھ بدسلوکی‘ پر کم سے کم 5 سال اور زیادہ سے زیادہ 7 سال تک قید کی سزا مقرر کی گئی ہے اور اس کے علاوہ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔ دفعہ 2 (ای) کے تحت ’بچے کی شادی‘ سے مراد ایسی شادی ہے جس میں دونوں فریقوں یا ایک فریق کی عمر 18 سال سے کم ہو۔ دفعہ 3 نے بچے کی شادی رجسٹر کرنے والے نکاح رجسٹرار کے لیے 1 سال تک قید اور 1 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا مقرر کی ہے۔ دفعہ 7 کی رو سے بچے کی شادی کی اجازت دینے والے، یا اسے روکنے میں ناکام رہنے والے، والد/ والدہ/ سرپرست کے لیے 2 سے 3 سال تک قید کی سزا مقرر کی گئی ہے اور اس کے علاوہ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس دفعہ میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ بچے کی شادی کی صورت میں مفروضہ یہ ہوگا کہ اس کے والد/ والدہ/ سرپرست اسے روکنے میں ناکام رہنے کے لیے ذمہ دار ہیں اور اس مفروضے کو غلط ثابت کرنے کا بارِ ثبوت اس والد/ والدہ/ سرپرست پر ہوگا۔
کیا ایسا نکاح قانوناً درست ہوگا؟ایک سوال یہ ہے کہ اس قانون نے 18 سال سے کم عمر بچے/ بچی کی شادی پر تو متعدد افراد کے لیے سزائیں مقرر کی ہیں، لیکن کیا یہ اس نکاح کو بھی ناجائز قرار دیتا ہے یا وہ نکاح تو درست اور نافذ ہوگا لیکن اس فعل پر تعزیری سزا مقرر کی گئی ہے؟
یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ 1929ء سے جو قانون بعض جزوی تبدیلیوں کے ساتھ 3 صوبوں میں رائج ہے، اور جو اس قانون سے قبل اسلام آباد میں بھی رائج رہا ہے، اس کے تحت 18 سال سے کم لڑکے یا 16 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی پر سزا تو مقرر کی گئی تھی، لیکن اس قانون نے نکاح کو ناجائز نہیں قرار دیا تھا۔ اس بات کی تصریح 1970ء میں سپریم کورٹ کے ایک لارجر بینچ نے بھی کی تھی (’بخشی بنام بشیر احمد‘)۔ تاہم 2022ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے نہ صرف ایسی شادی کو ناجائز قرار دیا بلکہ اس پر ’ریپ‘ کی دفعات کا بھی اطلاق کیا (’ممتاز بی بی بنام قاسم‘)۔ مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس 1961ء کی دفعہ 6 کے تحت مذکور شرائط کی خلاف ورزی پر دوسری/ تیسری/ چوتھی شادی پر بھی تعزیری سزا مقرر کی گئی ہے، لیکن ایسا نکاح قانوناً درست اور نافذ ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا اب اس نئے قانون کی رو سے بھی ایسا نکاح ناجائز قرار پائے گا اور اس پر بعض صورتوں میں ’ریپ‘ کا اطلاق کیا جائے گا؟ قانون کا متن بظاہر اس سوال پر خاموش ہے اور یہ معاملہ عدالتی تعبیر پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے ایک پہلو پر آگے ہم مزید بحث کریں گے۔
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ اس پر کئی دیگر قانونی امور کا انحصار ہے۔ مثلاً ایسے بندھن میں بندھی لڑکی اس بندھن سے طلاق یا فسخ کے بغیر کیسے نجات حاصل کرے گی؟ اس بندھن کے خاتمے پر اس لڑکی پر عدت کے احکام کا اطلاق ہوگا یا نہیں؟ اس بندھن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حمل یا جنم لینے والے بچے کے قانونی حقوق کیا ہوں گے؟ وغیرہ۔
شادی کی عمر اور رضامندی کی عمر میں فرق کا نتیجہلبرل خیالات رکھنے والے بعض ارکانِ پارلیمان اور ججوں کی کوششوں سے ہمارے قانون میں بعض لبرل اصول داخل کردیے گئے ہیں۔ ان میں ایک اصول شادی کی عمر اور رضامندی کی عمر میں فرق کے متعلق ہے۔ اس فرق کو ماننے کا نتیجہ یہ ہے کہ اگرچہ کئی مغربی ممالک شادی کے لیے 18 سال کی عمر مقرر کی گئی ہے، لیکن جنسی عمل کے لیے رضامندی کی عمر کئی ممالک میں 16 سال، اور کئی ممالک میں اس سے بھی کم رکھی گئی ہے۔ چنانچہ 16 سال کی عمر میں لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے جنسی تعلق تو قائم کرسکتا ہے، لیکن شادی نہیں کرسکتا۔
ہمارے ہاں بھی مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375 کی رو سے یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر 16 سال سے کم عمر کا کسی فرد جنسی عمل کے لیے راضی بھی ہو، تو قانوناً اس رضامندی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کے ساتھ جنسی عمل کرنے والا فرد ریپ کا مرتکب ہوگا۔ نئے قانون کی دفعہ 4 میں طے کیا گیا ہے کہ اگر نکاح کے وقت مرد کی عمر 18 سال سے زائد اور عورت کی عمر 18 سال سے کم ہو، تو اس مرد کو 2 سے 3 سال تک قید مع جرمانے کی سزا دی جاسکے گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر عورت کی عمر 18 سال سے زائد اور مرد کی عمر 18 سال سے کم ہو، تو اس عورت کو یہ سزا کیوں نہیں دی جاسکے گی؟ جب آپ نے ریپ کے قانون کو gender-neutral کردیا ہے اور اب مرد کی طرح عورت کو بھی ریپ کی سزا دی جاسکتی ہے، تو اس نئے قانون میں مردوں کے خلاف امتیازی سلوک کیوں برتا گیا ہے؟ اس سے زیادہ اہم سوال ایک اور ہے۔
زنا پر کم، اور نکاح پر زیادہ سزا؟جن ممالک میں شادی کی عمر سے قبل اور رضامندی کی عمر کے بعد نکاح کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت ہے، ان کا معاملہ اور ہے، لیکن ’اسلامی جمہوریۂ پاکستان‘ میں (تا حال) نکاح کے بغیر جنسی تعلق کی اجازت قانون میں نہیں ہے۔ ایسے تعلق پر ایک طرف جرمِ زنا آرڈی نینس 1979ء کے تحت زنا کی حد (سو کوڑے یا رجم) کی سزا کا اطلاق ہوتا ہے۔ دوسری طرف، جنرل پرویز مشرف نے 2006ء میں تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 496-بی کا اضافہ کرکے fornication کا جرم تخلیق کیا جو اپنی تعریف کے لحاظ سے عین زنا ہے، لیکن اس پر سزا زنا کی سزا سے بہت کم ہے، 5 سال تک قید اور 10 ہزار روپے تک جرمانہ۔ زنا اور fornication میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ زنا کے ثبوت کے لیے 4 گواہ، جبکہ fornication کےلیے 2 گواہ درکار ہوتے ہیں؛ نیز زنا کے گواہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے، اگر ملزم مسلمان ہو، جبکہ fornication کے جرم کے لیے یہ ضروری نہیں ہے۔ ایک ہی فعل کو 2 نام دے کر اس پر 2 الگ قسم کے قانونی نتائج مقرر کرنے کا کام کوئی ’روشن خیال اعتدال پسند لبرل آمر‘ ہی کرسکتا تھا!
بہرحال، اسے زنا کہیں یا fornication، پاکستان میں نکاح کے بغیر جنسی تعلق اب بھی جرم ہے، خواہ اس کا ارتکاب باہمی رضامندی سے کیا جائے، اور خواہ اس کا ارتکاب کرنے والے دونوں افراد رضامندی کے عمر سے بڑے ہوں۔ اس لیے اگر 18 سال سے بڑی عمر کا مرد اور 16 سے بڑی عمر کی لڑکی بغیر نکاح کے جنسی تعلق قائم کریں اور ان پر fornication کا مقدمہ قائم کیا جائے، تو ان دونوں کو زیادہ سے زیادہ 5 سال تک قید اور 10 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ تاہم اگر ان دونوں نے نکاح کرکے جنسی تعلق قائم کیا، تو اس نئے قانون کی رو سے جو مقدمہ قائم کیا جائے گا اس میں عورت کو تو کوئی سزا نہیں دی جاسکے گی، لیکن اس کے والد/ والدہ/ سرپرست کو اور اس کے ساتھ شادی کرنے والے مرد کو 2 سے 3 سال قید مع جرمانے کی سزا، اور بعض صورتوں میں 5 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جاسکے گی! اسے طرفہ تماشا نہ کہیں تو کیا کہیں؟
رضا مندی کی عمر کے بعد؟اسی طرح اگر دونوں افراد کی عمر 16 سال سے زائد اور 18 سال سے کم ہو اور انھوں نے نکاح کے بغیر باہمی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کیا، تو اس پر زنا اور fornication کے متعلق دفعات کا اطلاق ہوتا ہے، اگرچہ مقدمہ ’کم عمر افراد‘ (juveniles) کےلیے قائم کی گئی خصوصی عدالتوں میں چلے گا؛ تاہم اگر ان دونوں نے نکاح کرکے جنسی تعلق قائم کیا، تو ان پر زنا یا fornication کا اطلاق تو نہیں ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انھیں اس نئے قانون کے تحت سزا دی جاسکے گی؟
بظاہر اس صورت میں اس نئے قانون کی دفعہ 5 کا اطلاق ہوگا جس کے تحت ’بچے کے ساتھ بدسلوکی‘ کے مرتکب کو 5 سے 7 سال تک قید اور 10 روپے تک جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہاں دونوں ہی ’بچے‘ ہیں، تو کون سا بچہ کس بچے کے ساتھ بدسلوکی کر رہا ہے؟ قانون کا متن اس سلسلے میں خاموش ہے اور مختلف مغربی ممالک میں اس مسئلے پر مختلف قوانین اور مختلف اصول ہیں۔ ایسے ہمارے جج کون سے اصول لیں گے؟
نکاح رجسٹر کیے بغیر شادییہ قانون بنانے والے پتہ نہیں کس دنیا کے باسی ہیں کہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ پاکستان میں اب بھی بہت بڑی تعداد میں نکاح رجسٹر نہیں کرائے جاتے۔ نکاح کی رجسٹری تو دور کی بات ہے، بہت بڑی تعداد میں بچوں کی پیدائش ہی رجسٹر نہیں کی جاتی۔ ایسی صورت میں نکاح کے لیے 18 سال کی عمر کی حد مقرر کرنا اور نکاح خواں پر یہ لازم ٹھہرانا کہ وہ نکاح سے قبل یقینی بنائے کہ نادرا نے مرد و عورت کے قومی شناختی کارڈ جاری کیے ہوئے ہیں، محض حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ (ویسے قانون بنانے والوں کی نظر اس بات پر بھی نہیں پڑی کہ نکاح کے لیے تو نکاح خواں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ مرد و عورت اگر 2 گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیں، تو نکاح ہوجاتا ہے، بالخصوص اگر ان کے ولی بھی موجود ہوں۔)
چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کی وجہ سے نکاح رجسٹر کیے بغیر شادی کے رواج میں اضافہ نہیں ہوگا؟ مغرب میں بھی یہی تو ہوا ہے۔ قانون نے شادی کو اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ اس جھنجھٹ میں پڑے بغیر مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر بغیر کسی قانونی کارروائی کے الگ بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ نکاح کرلیتے ہیں جسے وہاں کا قانون شادی کے طور پر تسلیم نہیں کرتا، نہ ہی اس پر شادی کے قانونی حقوق مرتب کرتا ہے۔ ایسے میں اگر حمل واقع ہو یا بچہ پیدا ہو، اور مرد اسے اور اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا جائے، تو اس بے چاری ماں کے پاس اس کے خلاف کیا قانونی حق باقی رہتا ہے؟ کیا ہمارے لبرل قانون ساز یہی کچھ یہاں بھی دیکھنا چاہتے ہیں؟
اس قانون پر اسلامی نقطۂ نظر سے بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں، ان پر الگ سے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔