پاکستان و افغانستان کے سفارتی تعلقات میں مثبت پیشرفت لیکن دہشتگرد تنظیموں پر قابو پانا مشکل کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
گزشتہ روز افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی اور پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے درمیان ٹیلفونک گفتگو ہوئی جس میں افغان قائم مقام وزیر خارجہ نے پاکستان کی جانب سے ناظم الاُمور کو اپ گریڈ کر کے سفیر مقرر کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مثبت سمت میں خوش آئند قدم قرار دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تعلقات کی یہ بہتری پاکستان میں دہشتگردی کی روک تھام کے لیے کتنی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے؟
15 اگست 2021 کے بعد جب طالبان نے افغانستان میں زمام اقتدار سنبھالی تو توقعات کے برعکس دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ رہے جس میں پاکستان کی جانب سے مسلسل یہ الزام عائد کیا گیا کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور کئی مواقع پر پاکستان نے دہشتگردی کے بڑے واقعات کی افغانستان میں منصوبہ بندی اور افغانستان سے پاکستان میں دہشتگرد حملوں کے ثبوت افغان حکام اور عالمی پلیٹ فارمز پر بھی پیش کیے جن میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھی شامل تھا۔
یہ بھی پڑھیے دہشتگردی کے مقابلے کے لیے بیرونی ہاتھوں سے ہوشیار رہیں گے، پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان اتفاق
اس کے علاوہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کئی سرحدی تنازعات بھی ہوئے جس سے دونوں اطراف قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، اورافغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی پشت پناہی اور دراندازی نہ روکنے کے متواتر واقعات کے بعد پاکستان نے اگست/ ستمبر 2023 میں افغان پناہ گزینوں کی ملک سے بیدخلی کا فیصلہ کیا۔
لیکن 19 اپریل 2025 کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔ 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کابل کا دورہ کرنے والے پہلے اہم پاکستانی حکومتی عہدیدار تھے۔ اُن سے قبل فروری 2023 میں وزیردفاع خواجہ آصف نے سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کے لیے کابل کا دورہ کیا تھا۔
لیکن اسحاق ڈار کے دورے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی جس کا اظہار ہمیں دونوں ممالک کی جانب سے استعمال کی جانے والی سفارتی زبان میں صاف نظر آتا ہے۔ اس کے بعد 19 سے 21 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان چین کی میزبانی میں سہ فریقی مذاکرات کے بعد سے ماحول میں مزید بدلاؤ آیا۔ بیجنگ مذاکرات میں دیگر اقدامات کے علاوہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ کریں گے اور دہشتگردی کے روک تھام کے لیے کام کریں گے۔
22 مئی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دفترِ خارجہ میں صحافیوں کو اپنے دورۂ چین کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ افغانستان کے ساتھ معاملات بہتری کی طرف گامزن ہیں اور پاکستان کے بارے میں جو اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے حوالے سے سست ہیں، لیکن 19 اپریل کو افغان قائم مقام وزیرخارجہ کے ساتھ جن اُمور پر بات چیت ہوئی اور وہاں کابل ملاقات میں جو فیصلے کئے گئے اُن پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔
افغانستان سے اچھے تعلقات کے بعد کیا دہشتگرد حملے رک گئے؟
اس سوال کا جواب ہے نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو 19 اپریل مذاکرات کے بعد سے پاکستان میں فتنۃ الخوارج کی جانب سے کئی دہشتگرد حملے کیے گئے جن میں کئی سکیورٹی اہلکار اور عام شہری شہید ہوئے۔
پاکستان کا مسلسل مؤقف ہے کہ فتنۃ الخوارج تحریک طالبان پاکستان اور فتنۃ الہندوستان یعنی بی ایل اے کو بھی کچھ مدد افغانستان سے ملتی ہے۔ اور 21 مئی جس دن اسحاق ڈار چین سے اپنا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچے اُسی دن پاکستان میں خضدار میں فتنۃ الہندوستان کی جانب سے ایک اسکول بس پر خوفناک دہشتگرد حملہ کیا گیا جس میں اسکول کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشتگرد حملے کیے گئے۔
فروری 2025 میں اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشتگرد حملوں کی وجہ فتنۃ الخوارج کو افغان حکومت کی جانب سے ملنے والی مدد ہے۔
اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات پاکستان میں فتنۃ الخوارج کی کارروائیوں میں کمی لا سکیں گے؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان انسداد دہشتگردی پر اتفاقِ رائے موجود ہے: آصف درّانیافغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کا عمل جاری تھا جس کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔اب یہ پراسیس جوں جوں آگے چلے گا تو تعلقات میں مزید بہتری اور مزید مضبوطی آئے گی۔ اُنہوں نے چینی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان اور چین کے درمیان جو ایک بڑا، طاقتور اور متاثر کُن سہ فریقی فورم تشکیل پایا ہے یہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے اور پھر 21 مئی کو بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کہ تینوں ممالک اپنی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور انسدادِ دہشتگرد کارروائیوں پر اتفاق ایک بڑی پیش رفت ہے۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان کا افغانستان کے لیے ناظم الامور کو سفیر کے عہدے پر اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ
داعش، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی تنظیموں کی جانب سے دہشتگردی کے واقعات میں ملوّث ہونے کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے آصف درّانی نے کہا کہ یہ تنظمیں انڈر گراؤنڈ ہیں، یہ معصوم شہریوں کو ہلاک کر کے حکومتوں یا ملکوں کے لیے مشکلات تو پیدا کر سکتی ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ایسا علاقہ موجود نہیں جہاں ان کی حکومت ہو۔ ریاستی ڈھانچہ ان دہشتگرد تنظیموں سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ تنظیمیں آج وجود میں نہیں آئیں بلکہ یہ دہائیوں سے کام کر رہی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان کی بیخ کنی کا طریقہ کار وضع ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سہ فریقی فورم کے ذریعے پاک افغان باہمی تنازعات کے حل کا طریقہ کار بھی وضع ہو رہا ہے اور جس طرح سے افغانستان کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی گئی تو یہ چیزیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ باہمی مسائل کے حل میں تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔
پراکسیز پر قابو پانے میں وقت لگے گا: فخر کاکاخیلماہر افغان اُمور اور نامور صحافی فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں مثبت پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ایک حکومت جسے ایک وقت دنیا میں کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا اب روس، چین، پاکستان، اُزبکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ممالک اُسے تسلیم کر چُکے ہیں جو ایک اہم تبدیلی ہے۔
ایک سوال کے جواب کہ آیا پاک افغان تعلقات کی بہتری افغان مہاجرین، ویزا پالیسی اور تجارت پر مثبت طریقے سے اثرانداز ہو گی، فخر کاکاخیل نے کہا کہ سفارتی تعلقات کی بہتری ایک علامتی چیز ہے جبکہ ان مخصوص مذکورہ اُمور کے ضِمن میں پالیسیاں کبھی سخت اور کبھی نرم ہو جاتی ہیں اور اُن کا تعلق مخصوص حالات کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے سی پیک ٹو کی افغانستان تک توسیع، ثمرات سے بھرپور لیکن خدشات سے گھرا ہوا منصوبہ
بہتر تعلقات اور دہشتگردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فخر کاکاخیل نے بتایا کہ چاہے وہ فتنۃ الخوارج تحریک طالبان پاکستان ہو، داعش، فتنۃ الہندوستان بی ایل اے یا ای ٹی آئی ایم، یہ سب پراکسیز ہیں یعنی مختلف ممالک سے پیسے لے کر دہشتگرد کارروائیاں کرتی ہیں۔ اس وقت تمام علاقائی ممالک خواہ پاکستان، ایران، افغانستان، چین یا وسط ایشیائی ریاستیں ہوں، تمام ممالک پراکسیز کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ ان پراکسیز کی کارروائیوں کو روکنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان پراکسیز پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن علاقائی ممالک ان پراکسیز پر قابو پانے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان فتنۃ الخوارج پاکستان میں دہشتگردی کے دونوں ممالک تعلقات میں کی جانب سے اسحاق ڈار پاکستان ا کرتے ہوئے کے بعد سے پر اتفاق ممالک ا کے ساتھ بہتری ا پیش رفت کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔