گزشتہ روز افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی اور پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے درمیان ٹیلفونک گفتگو ہوئی جس میں افغان قائم مقام وزیر خارجہ نے پاکستان کی جانب سے ناظم الاُمور کو اپ گریڈ کر کے سفیر مقرر کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مثبت سمت میں خوش آئند قدم قرار دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تعلقات کی یہ بہتری پاکستان میں دہشتگردی کی روک تھام کے لیے کتنی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے؟

15 اگست 2021 کے بعد جب طالبان نے افغانستان میں زمام اقتدار سنبھالی تو توقعات کے برعکس دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ رہے جس میں پاکستان کی جانب سے مسلسل یہ الزام عائد کیا گیا کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور کئی مواقع پر پاکستان نے دہشتگردی کے بڑے واقعات کی افغانستان میں منصوبہ بندی اور افغانستان سے پاکستان میں دہشتگرد حملوں کے ثبوت افغان حکام اور عالمی پلیٹ فارمز پر بھی پیش کیے جن میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھی شامل تھا۔

یہ بھی پڑھیے دہشتگردی کے مقابلے کے لیے بیرونی ہاتھوں سے ہوشیار رہیں گے، پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان اتفاق

اس کے علاوہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کئی سرحدی تنازعات بھی ہوئے جس سے دونوں اطراف قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، اورافغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی پشت پناہی اور دراندازی نہ روکنے کے متواتر واقعات کے بعد پاکستان نے اگست/ ستمبر 2023 میں افغان پناہ گزینوں کی ملک سے بیدخلی کا فیصلہ کیا۔

لیکن 19 اپریل 2025 کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔ 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کابل کا دورہ کرنے والے پہلے اہم پاکستانی حکومتی عہدیدار تھے۔ اُن سے قبل فروری 2023 میں وزیردفاع خواجہ آصف نے سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کے لیے کابل کا دورہ کیا تھا۔

لیکن اسحاق ڈار کے دورے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی جس کا اظہار ہمیں دونوں ممالک کی جانب سے استعمال کی جانے والی سفارتی زبان میں صاف نظر آتا ہے۔ اس کے بعد 19 سے 21 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان چین کی میزبانی میں سہ فریقی مذاکرات کے بعد سے ماحول میں مزید بدلاؤ آیا۔ بیجنگ مذاکرات میں دیگر اقدامات کے علاوہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ کریں گے اور دہشتگردی کے روک تھام کے لیے کام کریں گے۔

22 مئی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دفترِ خارجہ میں صحافیوں کو اپنے دورۂ چین کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ افغانستان کے ساتھ معاملات بہتری کی طرف گامزن ہیں اور پاکستان کے بارے میں جو اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے حوالے سے سست ہیں، لیکن 19 اپریل کو افغان قائم مقام وزیرخارجہ کے ساتھ جن اُمور پر بات چیت ہوئی اور وہاں کابل ملاقات میں جو فیصلے کئے گئے اُن پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔

افغانستان سے اچھے تعلقات کے بعد کیا دہشتگرد حملے رک گئے؟

اس سوال کا جواب ہے نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو 19 اپریل مذاکرات کے بعد سے پاکستان میں فتنۃ الخوارج کی جانب سے کئی دہشتگرد حملے کیے گئے جن میں کئی سکیورٹی اہلکار اور عام شہری شہید ہوئے۔

پاکستان کا مسلسل مؤقف ہے کہ فتنۃ الخوارج تحریک طالبان پاکستان اور فتنۃ الہندوستان یعنی بی ایل اے کو بھی کچھ مدد افغانستان سے ملتی ہے۔ اور 21 مئی جس دن اسحاق ڈار چین سے اپنا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچے اُسی دن پاکستان میں خضدار میں فتنۃ الہندوستان کی جانب سے ایک اسکول بس پر خوفناک دہشتگرد حملہ کیا گیا جس میں اسکول کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشتگرد حملے کیے گئے۔

فروری 2025 میں اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشتگرد حملوں کی وجہ فتنۃ الخوارج کو افغان حکومت کی جانب سے ملنے والی مدد ہے۔

اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات پاکستان میں فتنۃ الخوارج کی کارروائیوں میں کمی لا سکیں گے؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان انسداد دہشتگردی پر اتفاقِ رائے موجود ہے: آصف درّانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کا عمل جاری تھا جس کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔اب یہ پراسیس جوں جوں آگے چلے گا تو تعلقات میں مزید بہتری اور مزید مضبوطی آئے گی۔ اُنہوں نے چینی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان اور چین کے درمیان جو ایک بڑا، طاقتور اور متاثر کُن سہ فریقی فورم تشکیل پایا ہے یہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے اور پھر 21 مئی کو بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کہ تینوں ممالک اپنی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور انسدادِ دہشتگرد کارروائیوں پر اتفاق ایک بڑی پیش رفت ہے۔

یہ بھی پڑھیے پاکستان کا افغانستان کے لیے ناظم الامور کو سفیر کے عہدے پر اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ

داعش، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی تنظیموں کی جانب سے دہشتگردی کے واقعات میں ملوّث ہونے کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے آصف درّانی نے کہا کہ یہ تنظمیں انڈر گراؤنڈ ہیں، یہ معصوم شہریوں کو ہلاک کر کے حکومتوں یا ملکوں کے لیے مشکلات تو پیدا کر سکتی ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ایسا علاقہ موجود نہیں جہاں ان کی حکومت ہو۔ ریاستی ڈھانچہ ان دہشتگرد تنظیموں سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ تنظیمیں آج وجود میں نہیں آئیں بلکہ یہ دہائیوں سے کام کر رہی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان کی بیخ کنی کا طریقہ کار وضع ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سہ فریقی فورم کے ذریعے پاک افغان باہمی تنازعات کے حل کا طریقہ کار بھی وضع ہو رہا ہے اور جس طرح سے افغانستان کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی گئی تو یہ چیزیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ باہمی مسائل کے حل میں تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔

پراکسیز پر قابو پانے میں وقت لگے گا: فخر کاکاخیل

ماہر افغان اُمور اور نامور صحافی فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں مثبت پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ایک حکومت جسے ایک وقت دنیا میں کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا اب روس، چین، پاکستان، اُزبکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ممالک اُسے تسلیم کر چُکے ہیں جو ایک اہم تبدیلی ہے۔

ایک سوال کے جواب کہ آیا پاک افغان تعلقات کی بہتری افغان مہاجرین، ویزا پالیسی اور تجارت پر مثبت طریقے سے اثرانداز ہو گی، فخر کاکاخیل نے کہا کہ سفارتی تعلقات کی بہتری ایک علامتی چیز ہے جبکہ ان مخصوص مذکورہ اُمور کے ضِمن میں پالیسیاں کبھی سخت اور کبھی نرم ہو جاتی ہیں اور اُن کا تعلق مخصوص حالات کے ساتھ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے سی پیک ٹو کی افغانستان تک توسیع، ثمرات سے بھرپور لیکن خدشات سے گھرا ہوا منصوبہ

بہتر تعلقات اور دہشتگردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فخر کاکاخیل نے بتایا کہ چاہے وہ فتنۃ الخوارج تحریک طالبان پاکستان ہو، داعش، فتنۃ الہندوستان بی ایل اے یا ای ٹی آئی ایم، یہ سب پراکسیز ہیں یعنی مختلف ممالک سے پیسے لے کر دہشتگرد کارروائیاں کرتی ہیں۔ اس وقت تمام علاقائی ممالک خواہ پاکستان، ایران، افغانستان، چین یا وسط ایشیائی ریاستیں ہوں، تمام ممالک پراکسیز کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ ان پراکسیز کی کارروائیوں کو روکنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان پراکسیز پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن علاقائی ممالک ان پراکسیز پر قابو پانے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان فتنۃ الخوارج پاکستان میں دہشتگردی کے دونوں ممالک تعلقات میں کی جانب سے اسحاق ڈار پاکستان ا کرتے ہوئے کے بعد سے پر اتفاق ممالک ا کے ساتھ بہتری ا پیش رفت کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

پاکستان کے سفارتی وفد کی اقوام متحدہ میں چین، روس سمیت مختلف ممالک کے نمائندوں سے ملاقاتیں، مؤقف پیش کیا

پاک بھارت جنگ کے بعد پیدا شدہ صورت حال پر اپنا مؤقف پیش دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے پاکستانی سفارتی وفد نیویارک میں موجود ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے اقوام متحدہ میں چین، روس کے مندوبین اور دیگر کئی ممالک کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرکے پاکستان کا مؤقف سامنے رکھا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بلاول بھٹو اور دیگر وفد کے اراکین نے چین اور روس کے مندوبین کے علاوہ ڈنمارک، یونان، پاناما، صومالیہ، الجزائر، گھانا، جاپان، جنوبی کوریا، سیرا لیون اور سلووینیا کے نمائندوں سے ملاقات کرکے بھارت کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا۔

یہ بھی پڑھیں پاکستان کی ایک اور سفارتی کامیابی، امریکا کی بھارت کو اشتعال انگیزی سے گریز کی ہدایت

سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہاکہ بھارت کی جانب سے بغیر شواہد پاکستان پر الزام تراشی کی جارہی ہے جو قابل قبول نہیں۔ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے شہری علاقوں پر حملے اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی خطے میں امن کے لیے خطرہ ہے۔ عالمی برادری جنوبی ایشیا میں کسی بھی تنازع سے قبل اس کا حل تلاش کرے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب اراکین کی جانب سے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو سراہا گیا۔

چینی مندوب سے پاکستانی وفد کی ملاقات

پاکستان کے وفد نے چین کے مستقل مندوب فو کانگ سے ملاقات کی، اور اپنے مؤقف سے آگاہ کیا۔

پاکستان مشن نیویارک میں ہونے والی اس ملاقات میں بھارت کی حالیہ جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور خطے میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں پر پر بات چیت کی گئی۔

چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے بھارتی جارحیت کے دوران چین کی غیرمتزلزل حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے جارحانہ رویے سے چینی مندوب کو آگاہ کیا۔

بلاول بھٹو نے کہاکہ پاکستان نے بھارت کو پہلگام واقعہ کی شفاف تحقیقات کی پیشکش کی تھی، جسے قبول نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہوگا۔ چین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہاکہ عالمی برادری جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

ملاقات کے دوران پاکستانی وفد اور چینی مندوب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جارحانہ اقدامات اور یکطرفہ فیصلے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں اور ان کی سختی سے مخالفت کی جانی چاہیے۔

پاکستانی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہاکہ پاکستان جنگ بندی اور علاقائی استحکام کے عزم پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مسئلہ کشمیر کا پرامن حل نکالا جائے۔

یہ بھی پڑھیں پی ٹی آئی کا ذاتی خرچ پر سفارتی مشن بیرون ممالک بھیجنے کا اعلان

دوسری جانب دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کا سفارتی وفد واشنگٹن، لندن اور برسلز کے دورے بھی کرےگا، جہاں پاکستان کا مؤقف دنیا کے سامنے رکھا جائےگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اقوام متحدہ بلاول بھٹو بھارتی جارحیت پاکستان پاکستان کا مؤقف دورہ سفارتی سفارتی وفد مسئلہ کشمیر ملاقاتیں وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے فروغ میں مدد کیلیے تیار ہیں، چین
  •  پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور ترقی کیلئے تیار ہیں، چین
  • پاکستان اور امریکا کے تعلقات نئے دور میں داخل ہورہے ہیں، وزیراعظم
  • پاکستان کا افغان پرابلم ہمارا مائنڈ سیٹ ہے
  • وزیرریلوے کی ازبکستان کے سفیر کے درمیان ملاقات ،ازبکستان-افغانستان۔ پاکستان ریلوے ٹرانزٹ راہ داری کے منصوبے پر تفصیلی تبادلہ خیال
  • پاکستان کے سفارتی وفد کی اقوام متحدہ میں چین، روس سمیت مختلف ممالک کے نمائندوں سے ملاقاتیں، مؤقف پیش کیا
  • ماسکو کے لیے افغانستان کے سفیر کی نامزدگی منظور
  • پاکستان اور اٹلی کے درمیان سفارتی تعلقات کی ایک بھرپور اور قابل فخر تاریخ ہے،عطاء تارڑ
  • وزیراعظم کے دورے، دوست ممالک کیساتھ تعلقات مضبوط ہوئے: حمزہ شہباز