وفاقی بجٹ 26-2025: سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی کا کتنا امکان ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
پاکستان کا آئندہ مالی سال 2025-26 کا بجٹ 10 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے، بجٹ ملک کی معاشی سمت کا تعین کرنے اور عوام کے لیے ریلیف فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، جس میں توانائی کا شعبہ، خاص طور پر قابل تجدید توانائی، پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے، اس ضمن میں سولر پینلز کا شعبہ غیرمعمولی اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔
ہر مالی سال کے بجٹ میں عوام کی توجہ ضروریات زندگی کی اشیا پر متوقع ٹیکس کے نفاذ کے امکانات یا پھر انہی ٹیکسز میں متوقع کمی پر ہوتی ہے کیونکہ عوام کے لیے ریلیف یا ان پر مزید بوجھ انہی ٹیکسز میں ردوبدل پر منحصر ہوتے ہیں، رواں مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں سولر پینلز کے حوالے سے کیا متوقع ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:’سولر پینل کی درآمدات پر ٹیکس بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں‘
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے وائس چئیرمین آفاق علی خان نے بتایا کہ انرورٹرز پر تو پہلے ہی جی ایس ٹی نافذ ہے جو تقریبا 21 فیصد ہے۔ اسی طرح بیٹریز پر بھی ٹیکسز اور ڈیوٹیز تقریباً 24 فیصد ہیں۔ ’تو مجھے نہیں لگتا کہ حکومت اس بجٹ میں ان پر کوئی مزید ٹیکسز عائد کرے گی۔‘
لیکن یہ امکان ہے کہ سولر پینلز پر شاید کوئی ٹیکسز لگائے جائیں مگر اس کا بھی کوئی واضح امکان نہیں، اور اس کا کوئی بہت بڑا اثر بھی نہیں پڑے گا کیونکہ 5 سے 6 روپے فی واٹ کا فرق آئے گا۔
مزید پڑھیں:پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینل امپورٹر لیکن ریٹ میں کب کتنی کمی ہوئی؟
’چونکہ سولر پینل کی قیمت پہلے ہی اتنی کم ہو چکی ہے کہ اب اگر جی ایس ٹی لگتا بھی ہے تو اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا حالانکہ اس کے چانسز ابھی بہت کم ہیں کہ ایسا ہوگا۔‘
آفاق علی خان نے مزید بتایا کہ کہ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو قیمتیں برقرار رہنے کے امکانات ہیں، بجٹ میں سولر پینل کے حوالے سے کوئی خاص بوجھ پڑتا ہوا نظر نہیں آرہا اور یہ سولر پینل کی صنعت کے لیے ایک مثبت بات ہے۔ ’دوسری قیمتیں برقرار رہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ سپلائی زیادہ ہے۔‘
مزید پڑھیں:نیٹ میٹرنگ پالیسی میں ترامیم کے بعد سولر پینل کی قیمت میں کتنی کمی ہوئی؟
ڈائریکٹر ’ری نرجی سولیوشنز‘ شرجیل احمد سلہری کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ اس بجٹ میں حکومت سولر پینلز اور متعلقہ آلات جیسے انورٹرز اور بیٹریوں پر عائد امپورٹ ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں مزید کمی کا اعلان کر سکتی ہے یا پھرانہیں برقرار رکھا جائے گا کیونکہ ان پر پہلے سے ہی اچھے خاصے ٹیکسز عائد ہیں۔
’اس کا مقصد سولر سسٹم کی لاگت برقرار رکھنا ہے تاکہ یہ عام صارف کی پہنچ میں رہ سکے، اس سے صارفین پر مزید بوجھ نہیں پڑے گا اور شمسی توانائی کے استعمال میں اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ مقامی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے شاید کچھ مقامی صنعتوں کے لیے ٹیکس ریلیف برقرار رکھا جائے۔‘
مزید پڑھیں: ایس آئی ایف سی کے تعاون سے چینی کمپنی پنجاب میں سولر پینل پلانٹ لگائے گی
شرجیل احمد سلہری کے مطابق حکومت سولر پینلز کی تنصیب کے لیے سبسڈی پروگرامز دوبارہ شروع کر سکتی ہے یا انہیں وسعت دے سکتی ہے اس کے علاوہ، بینکوں کے ذریعے آسان اقساط پر قرضوں کی فراہمی کے نئے فائنانسنگ ماڈلز متعارف کروائے جاسکتے ہیں، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے صارفین کے لیے یہ ایک اہم قدم ہوگا۔
شرجیل احمد سلہری پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے مراعات کا اعلان کیا جاسکتا ہے، جن میں ٹیکس چھوٹ، رعایتی قرضے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے تعاون شامل ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بجٹ سولر پینل مالی سال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سولر پینل مالی سال میں سولر پینل سولر پینل کی سولر پینلز امکان ہے مالی سال کے لیے
پڑھیں:
کوئی شک نہیں، اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا؛ سابق امریکی ترجمان
جوبائیڈن کے دور میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان میتھیو ملر نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ غزہ سے متعلق پالیسی پر بائیڈن کابینہ میں اختلافات تھے خاص طور پر اس بات پر کہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنا جاری رکھا جائے یا نہیں۔
اسکائی نیوز کو انٹرویو میں انہوں نے مزید بتایا کہ 2024 میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی ترسیل اس لیے روک دی تھی کہ یہ ہتھیار غزہ میں نامناسب طریقے سے استعمال ہونے کا خدشہ تھا۔
سابق امریکی ترجمان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مئی 2024 سے جنوری 2025 تک ہزاروں فلسطینی شہری مارے گئے حالانکہ ہم اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے میں مزید کچھ کرسکتے تھے۔
جنگ بندی میں رکاوٹ کون تھا کے سوال پر متھیو ملر نے بتایا کہ ہم نے صرف حماس کو ہی نہیں بلکہ وزیراعظم نیتن یاہو کو بھی مذاکرات میں رکاوٹ ڈالتے دیکھا۔ ہمیں اسرائیل پر مزید سخت موقف اختیار کرنا چاہیے تھا۔
امریکا کے سابق ترجمانِ وزارت خارجہ میتھیوملر نے کہا کہ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے تاہم میرے خیال میں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام درست نہیں۔
میتھیو ملر نے مزید وضاحت کی کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا نسل کشی اسرائیل کی ریاستی پالیسی کے تحت ہوئی یا یہ انفرادی واقعات ہیں۔ ریاستی سطح پر جنگی جرائم کا ارتکاب ایک کھلا سوال ہے، کچھ انفرادی واقعات میں اسرائیلی فوجی نسل کشی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
میتھیو ملر نے کہا کہ دنیا کی ہر بڑی جنگ میں، یہاں تک کہ جمہوری ممالک کی جنگوں میں بھی کچھ فوجی انفرادی طور پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ آیا ان فوجیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے یا نہیں۔ اسرائیل نے ابھی تک کوئی خاطر خواہ احتساب نہیں کیا۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا تھا جس میں 1500 اسرائیلی مارے گئے تھے جب کہ251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
غزہ میں حماس کے پاس ان میں سے اب بھی 58 اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 35 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے دیگر 3 کے بارے میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل کی غزہ پر جاری بمباری میں 55 ہزار کے قریب فلسطینی شہید اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوگئے۔ جن میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کی اعلیٰ قیادت سمیت 20 ہزار جنگجوؤں کو قتل کیا۔