تنخواہ دار طبقے کیلئے بڑا ریلیف: آئی ایم ایف انکم ٹیکس کی شرح میں کمی پر آمادہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس میں ریلیف دینے کے حوالے سے بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف انکم ٹیکس کی شرح میں کمی پر آمادہ ہو گیا ہے۔
تمام سلیبز پر انکم ٹیکس کی شرح میں نرمی کا امکان ہے جبکہ انکم ٹیکس ایکٹ کی شق 129 میں ترمیم پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق سالانہ ٹیکس فری آمدن کی حد موجودہ 6 لاکھ روپے سے بڑھائی جا سکتی ہے اور ماہانہ 83 ہزار روپے تنخواہ تک ٹیکس فری کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
ممکنہ نئی شرح کے مطابق ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس 2.
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بجٹ مذاکرات میں دفاعی ضروریات مؤخر نہ کرنے کا دو ٹوک مؤقف اپنایا ہے، جس پر آئی ایم ایف نے دفاعی بجٹ میں ضروری اضافے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ بجٹ مذاکرات کے دوران پاکستان کی دفاعی ترجیحات کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
غزہ میں امداد لیتے افراد پر اسرائیل کی بمباری، مزید 40 فلسطینی شہید
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انکم ٹیکس ہزار روپے تنخواہ پر
پڑھیں:
تنخوا ہ داروں کو ریلیف کیلئے بچت سکیموں اور بینک ڈیپازٹ پر ٹیکس میں 2 فیصد اضافے پر غور
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )کی رضامندی سے تنخواہ دار اور دیگر شعبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش میں ایف بی آر کمرشل بینکوں اور بچت سکیموں میں رکھے گئے ڈیپازٹس پر حاصل ہونے والی سود کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2فیصد اضافے پر غور کر رہا ہے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کے لئے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
ایک اعلیٰ عہدیدارکے مطابق آئی ایم ایف نے ابھی اس تجویز کی حتمی منظوری نہیں دی ہے ‘ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے اور دیگر شعبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لئے مختلف ٹیکس تجاویز کی تفصیلات طلب کی ہیں، جہاں رسمی شعبوں کا حجم سکڑ رہا ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت گزشتہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں عائد کی گئی بھاری شرحوں کے بعد ٹیکس ریونیو کی وصولی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال کے مطابق اگر اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو اس سے ا±ن لوگوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی جو بینکوں اور سیونگز سکیموں میں اپنی جمع شدہ رقم سے حاصل ہونے والی سودی آمدن پر منحصر ہیں‘ اسی طرح کمرشل بینکوں کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ان کی جمع شدہ رقوم میں کمی آسکتی ہے۔
ایک اعلیٰ عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ غیر فعال آمدنی پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے طریقوں میں سے ایک ہے کیونکہ افراد کے ساتھ ساتھ کمپنیاں بھی کمرشل بینکوں اور بچت سکیموں میں پیسہ لگاتی ہیں۔ فائلرز کے لئے سود کی آمدنی پر موجودہ ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی جبکہ نان فائلرز کے لئے یہ بڑھا کر 35 فیصد کر دی گئی تھی۔ آئندہ بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کی غیر فعال ا?مدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد اضافہ زیر غور ہے۔ رابطہ کرنے پر ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ سود کی آمدنی پر 15 فیصد کی شرح پہلے ہی کافی زیادہ تھی کیونکہ بینک ڈیپازٹس جن پر بینکوں سے آمدنی حاصل ہوتی تھی وہ بھی ایسی آمدنی سے پیدا ہوتی تھی جو کمانے کے وقت پہلے ہی ٹیکس کے تابع تھی۔
مزید برآں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ 15 فیصد کی یہ شرح صرف ا±ن افراد پر لاگو ہوتی ہے جن کی سالانہ سودی آمدن 50 لاکھ روپے تک محدود ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگر سودی آمدن 50 لاکھ روپے سالانہ سے تجاوز کر جائے تو پھر مجموعی آمدن (بشمول سودی آمدن) پر معمول کے مطابق قابل اطلاق ٹیکس شرح لاگو ہوتی ہے، اور پوری آمدن پر وہی عمومی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ کمپنیوں کی جانب سے حاصل کی جانے والی سودی آمدن پر بھی کمپنیوں کے معمول کے ٹیکس کی شرح کے تحت ٹیکس عائد ہوتا ہے، جو کہ 29 فیصد کے علاوہ سرچارج اور سپر ٹیکس پر مشتمل ہوتا ہے۔
اگر اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو اس سے ا±ن لوگوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی جو بینکوں اور سیونگز سکیموں میں اپنی جمع شدہ رقم سے حاصل ہونے والی سودی آمدن پر منحصر ہیں۔ وہ پہلے ہی پالیسی ریٹ میں کمی کی وجہ سے بینکوں سے ملنے والے منافع میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی طرح کمرشل بینکوں کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ان کی جمع شدہ رقوم میں کمی آسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیویڈنڈ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی تو حکومت ایک اور بگاڑ پیدا کرنے پر کیوں غور کر رہی ہے؟۔
بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے نئے کرنسی نوٹوں پر شیخ مجیب کی تصویر ہٹا کر کس کی لگا دی ؟ حسینہ واجد کو ایک اور جھٹکا
مزید :