غزہ: جنگ، جبر اور انصاف کی شکست
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
اسرائیل کی غزہ پرمکمل قبضے کی کوشش بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کےسنگین نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کوحماس کی شکست اوریرغمالیوں کی واپسی میں توازن پیداکرنا ہوگاکیونکہ دونوں اہداف بیک وقت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اسرائیل کی موجودہ پالیسی نہ صرف سیاسی طورپرمتنازع ہے بلکہ قانونی اوراخلاقی لحاظ سے بھی خطرناک ہے۔حماس کوکمزور کرنےکی آڑمیں اگرعام شہریوں کونشانہ بنایاجائے،تویہ عالمی سطح پرناقابل قبول ہوگا۔
اقوام متحدہ،یورپی یونین،اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوچاہیے کہ وہ صرف مذمت پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں جیسے اسلحے کی فراہمی پر پابندی،تحقیقات کیلئے خصوصی کمیشن ، آئی سی سی میں مقدمات کی شروعات سے آغاز ہونا چاہئے۔ عالمی برادری،خاص طورپرمغربی ممالک کو چاہیےکہ وہ صرف زبانی مذمت کی بجائے ٹھوس سفارتی دبائو ڈالیں۔انسانی امدادکی فراہمی فوری طورپربڑھائی جانی چاہیے تاکہ قحط اورطبی بحران سے بچاجاسکے۔
اقوام متحدہ کے چارٹرآرٹیکل2(4)کسی ریاست کو دوسرے علاقے میں طاقت کے استعمال یاقبضے کااختیارنہیں دیتا۔اسرائیل2005 ء میں غزہ سے فوجی انخلاکرچکاہے،اس لئے اب وہاں دوبارہ قبضہ ایک جارحانہ عمل شمارہوگا۔اگرغزہ پرقبضہ طویل مدتی رہاتویہ استعمارکے زمرےمیں آئے گا۔خوراک،پانی،اورطبی امدادپربندش عالمی قانون کے مطابق انسانیت کے خلاف جرم ہوسکتاہے۔غزہ میں قحط جیسی صورتحال اسرائیلی ناکہ بندی کانتیجہ ہے۔نیتن یاہو کی ظالمانہ حکمت عملی ایک طرف داخلی سیاسی بقااورعسکری فتح کے خواب سے جڑی ہے،جبکہ دوسری طرف یہ بین الاقوامی قانون،انسانی حقوق اورعالمی برادری کے اصولوں سے متصادم ہے۔غزہ پرفوجی قبضہ اورانسانی امدادکی بندش نہ صرف قانونی طور پرناقابلِ قبول ہےبلکہ اخلاقی وانسانی لحاظ سے بھی شدید تنقید کے لائق ہے۔اگرعالمی ادارے اور طاقتورریاستیں فوری اقدامات نہ کریں،تواس بحران کے اثرات علاقائی امن،عالمی ضمیراورقانونی نظام پردیرپانقوش چھوڑسکتے ہیں۔
یورپی ممالک کی جانب سے دبائو بڑھنے سے اسرائیل پربین الاقوامی تنقیدکادائرہ وسیع ہوا ہے، جس میں جرمنی جیسے قریبی اتحادی بھی شامل ہیں۔ برطانیہ،فرانس،اورکینیڈاکامشترکہ موقف اسرائیل کیلئےایک واضح پیغام ہےکہ وہ غزہ میں فوجی توسیع اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرعالمی حمایت کھورہاہے۔تاہم،امریکاکی حمایت اورنیتن یاہوکی سختی کے پیشِ نظرفوری جنگ بندی کا امکان کم ہے۔اگراسرائیل امدادکی راہ میں رکاوٹیں ختم نہیں کرتاتو بین الاقوامی تنہائی اورمعاشی پابندیاں بڑھ سکتی ہیں۔تینوں ممالک کاجنگ بندی کامطالبہ اس لیےبھی اہم ہےکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اب تک اس معاملے پر مؤثر اقدامات نہیں کرسکی، جس کی بڑی وجہ امریکا ہے۔ برطانیہ، فرانس،اورکینیڈاجیسے ممالک اگرچاہیں توبین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیلی اقدامات کے خلاف مقدمہ دائر کر سکتےہیں۔عالمی عدالت انصاف پہلے ہی فلسطین میں ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش کر رہا ہے،اوراسرائیلی رہنماؤں کے خلاف وارنٹ جاری کرنے کااختیاررکھتاہے۔اگروہ ایسا نہیں کرتے تو یقینا ان کے اپنے عوام آئندہ انتخابات میں ان کامحاسبہ کرکے ان سے جان چھڑا سکتے ہیں۔
یہ بھی یادرکھیں!جہاں خوراک کادانہ اور دوا کا قطرہ بھی اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث مظلوم فلسطینیوں سے چھین لیاگیا ہو،وہاں مغرب کے عوام کی نیندیں بھی حرام ہوچکی ہیں۔عالمی ادارے چیخ رہے ہیں کہ غزہ کی فضاقحط،پیاس اور بیماری کے اندھیروں سے لبریزہے ،جہاں ہردن، یومِ محشرہے،اورہر رات،لیلہ الاحزان۔
چوتھا جنیواکنونشن،جوشہریوں کے تحفظ کی کتابِ عہدہے،آج اسرائیلی طغیانی کے ہاتھوں تارتارہورہاہے۔اجتماعی سزا، طبی سہولتوں کی بندش،اورخوراک کی قلت، یہ سب وہ جرائم ہیں جن کے خلاف دنیاکی عدالتیں قاصدبن کراٹھ کھڑی ہوئیں ہیں۔جب برطانیہ، فرانس، اور کینیڈا جیسے قدیم اتحادی بھی اسرائیلی جارحیت کی مخالفت پرآمادہ ہوجائیں،تو یہ اس امر کا اعلان ہے کہ اسرائیل،اب سفارتی تنہائی کے اندھے غارمیں قدم رکھ چکاہے۔ان اقوام کامشترکہ اعلامیہ گویا تازیانہ ہےجونیتن یاہو کی پالیسیوں پربرسا ہے۔گویا ان ممالک کی زبانِ حال یہ پکاررہی ہے:
اے ظالم نیتن یاہو!رک جا۔تیرے ہتھیارانسانیت کے سینے میں پیوست ہیں۔ خوراک، دوا،پانی یہ جنگ کاایندھن نہیں،مظلوم کی زندگی کا سہارا ہیں ۔ اگرتونہ رکا،تونہ فقط مظلوم کا خون، بلکہ تاریخ بھی تیراگریبان پکڑے گی۔ایسامعلوم ہوتاہے کہ عالمِ مغرب کی روایتی حمایت،اب صرف ایک غبارہےجوتندآندھی میں اڑچکی ہے اور اقوامِ متحدہ، جن کے ہونٹوں پرامن کانغمہ اور دل میں بےبسی کازخم ہے،جس کوامریکاکی بھڑکتی آگ ویٹو نے راکھ کرکے رکھ دیا ہے۔ لیکن کب تک؟کہیں ایسانہ ہوکہ اس اقوام متحدہ کا انجام بھی لیگ آف نیشنزکی طرح ہوجائے اورپھردنیاکسی پراعتبار کرناچھوڑدے۔
یادرکھیں!اگر ہمارے دل میں رمقِ احساس باقی ہے، توجان لیجئےکہ فلسطین کا ہر معصوم چہرہ،ہریتیم آنکھ، ہرشہید کی ماں زمانے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے،جو اس وقت تک گونجتا رہے گا جب تک عدل کی ساعت نہ آ جائے، اور باطل اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے خلاف ہے اور
پڑھیں:
غزہ میں قحط: اسرائیلی مظاہرین نے اپنی ہی حکومت کے خلاف آواز بلند کردی
غزہ میں بھوک اور قحط کی سنگین صورتحال پر اسرائیل کے اندر سے بھی مخالفت کی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔
تل ابیب میں مظاہرین نے نیتن یاہو حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے آٹے کے تھیلے اور فاقہ کش بچوں کی تصاویر اُٹھا کر اسرائیلی فوج کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کو بھوکا رکھنا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث مصر کی سرحد پر کھڑے امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی، جس کے نتیجے میں غذائی قلت سنگین ہوتی جارہی ہے۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی "اونروا" کے مطابق غزہ میں 10 لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک کا شکار ہیں۔
"سیو دی چلڈرن" نے کہا ہے کہ غزہ میں ہر شخص فاقہ کشی کا شکار ہو چکا ہے، جب کہ صرف گزشتہ تین دنوں میں 21 بچے بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اسی حوالے سے نیویارک اور رام اللہ میں بھی مظاہرے کیے گئے، جن میں اسرائیل کی بھوک پالیسی کو "جنگی جرم" قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔