اسلام ٹائمز: عیدالاضحیٰ کا یہ مقدس موقع ہمیں متعدد اخلاقی اقدار اپنانے کی ترغیب دیتا ہے، جن میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی صفت ہے، جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اللہ کے حکم پر فوری رضامندی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تہوار ہمیں اپنی خواہشات اور مفادات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا جذبہ سکھاتا ہے، جبکہ دوسروں کی ضروریات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دینے کا درس دیتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ دن ہمیں معاشرتی امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی محبت، بھائی چارے اور اجتماعیت کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے، جس سے ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ تحریر: سید امتیاز علی رضوی

عیدالاضحیٰ محض ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ ایک جامع سماجی نظام کی عکاس ہے، جو تربیت نفس، معاشی ترقی اور معاشرتی اصلاح کے بے شمار پہلوؤں پر محیط ہے۔ عیدالاضحیٰ درحقیقت ایک جامع نظام زندگی ہے، جو ہمیں فردی تربیت سے لے کر اجتماعی ترقی تک کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اگر ہم اس کے حقیقی مقاصد کو سمجھ کر اس سے استفادہ کریں تو ہم نہ صرف اپنی انفرادی زندگیوں میں بلکہ پورے معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے مختلف پہلوؤں کا ایک جائزہ لینا ہوگا۔

عیدالاضحیٰ کا تاریخی اور روحانی پس منظر
عیدالاضحی کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی سے ہے، جسے قرآن کریم میں "ذبح عظیم" کا خطاب دیا گیا ہے (سورہ الصافات (37:107)۔ یہ واقعہ تقریباً چار ہزار سال پرانا ہے اور یہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی قربانی کی داستان ہے۔ اس دن کی اہمیت کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا، وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا" ترجمہ: "ابن آدم نے قربانی کے دن کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب نہیں کیا۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقبول ہو جاتا ہے۔ پس تم خوش دلی سے قربانی کرو۔” (مسند احمد:حدیث نمبر  24784، الکافی باب:فضیلت الأضحی وآدابہ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ قربانی درحقیقت اللہ کے حکم پر اپنی سب سے عزیز چیز کو قربان کر دینے کا عملی مظاہرہ تھی۔ علامہ اقبال نے اس واقعے کی اہمیت کو یوں بیان کیا ہے:
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی       (بالِ جبریل)

عیدالاضحی کے سماجی پہلو
1۔ معاشرتی یکجہتی اور اخوت کا فروغ
عیدالاضحیٰ کا تہوار مسلمانوں میں باہمی الفت و محبت اور اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس موقع پر دوست احباب اور عزیز رشتہ دار مل کر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتے ہیں، مل جل کر جانوروں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، ایک دوسرے کو گوشت ہدیہ کیا جاتا ہے۔ دعوت پارٹیز کا سلسلہ ہوتا ہے۔ حج کے موقع پر مختلف رنگ و نسل اور ملکوں کے باشندے ایک ہی لباس میں مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں، جہاں تمام فروق و امتیازات مٹ جاتے ہیں۔ نہ مرتبوں کا فرق باقی رہتا ہے اور نہ ہی دولت و غربت کا۔ یہی روح پاکستانی معاشرے میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں امیر و غریب ایک ہی جگہ نماز ادا کرتے اور قربانی کرتے نظر آتے ہیں۔

2۔ غریبوں اور محتاجوں کی مدد
قربانی کا ایک اہم سماجی پہلو غریبوں اور محتاجوں کی مدد ہے، قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاتے ہیں، جن میں سے ایک حصہ غریبوں کے لیے مختص ہوتا ہے، بہت سے لوگ غریبوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ایسے غریب لوگوں کے گھروں میں بھی گوشت پکتا ہے، جو سارا سال گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ قربانی کی کھالیں فلاحی اداروں، دینی مدارس اور غریبوں کو دی جاتی ہیں، جنہیں بیچ کر کئی مہینے کے اخراجات جمع ہو جاتے ہیں۔

3۔ معاشی سرگرمیوں کا فروغ
عیدالاضحیٰ پاکستانی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا محرک ہے۔ قربانی کے لیے جانور پالنے والوں، چرواہوں اور کاشت کاروں کو فائدہ ہوتا ہے، جن کے پاس کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہوتا۔ مویشی منڈیوں میں ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین رکھے جاتے ہیں۔ جانوروں کو منڈی تک پہنچانے کے لیے گاڑیاں کرائے پر لی جاتی ہیں۔ منڈیوں میں جانوروں کے چارے اور مالکوں کے کھانے پینے کے لیے اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ جانور بیمار ہونے پر ویٹرنری ڈاکٹروں کو بلایا جاتا ہے۔ عید کے دن ہزاروں قصائی جانور ذبح کرتے ہیں، اس طرح عید الاضحیٰ کا پاکستان کی معیشت چلانے میں اہم کردار ہے، جسے مزید بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی چمڑے کی صنعت جو ملک کے جی ڈی پی کا 1 فیصد اور مینوفیکچرنگ جی ڈی پی کا 6 فیصد ہے، تقریباً اڑھائی لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر بڑی تعداد میں کھالیں جمع ہوتی ہیں، جو چمڑے کی صنعت کے لیے خام مال کا کام کرتی ہیں۔

عیدالاضحیٰ میں تربیت نفس کے پہلو
عیدالاضحی درحقیقت اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے اور اللہ کی رضا کے لیے قربانی دینے کی تربیت ہے۔ کسی عالم دین نے اس پہلو کو یوں بیان کیا: "عیدالاضحیٰ کے روز تو دراصل اپنی حیوانیت اور بہیمیت پر جانور کو ذبح کرتے ہوئے چھری پھیرنا ہے۔" قربانی کا اصل مقصد مال کی قربانی نہیں بلکہ اپنے اندر کی مادہ پرستی، لالچ اور نفسانی خواہشات کی قربانی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: "لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ" ترجمہ: "اللہ کو نہ تو ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا خون، بلکہ اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح اس نے انہیں تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے، تاکہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔" (الحج:37)۔ قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت ہمیں یہ احساس ہونا چاہیئے کہ ہم درحقیقت اپنے اندر کی حیوانیت کو قربان کر رہے ہیں۔ حلال جانوروں کو ذبح کرکے ہم اپنے اندر کی حیوانی صفات کو ختم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔

ملکی ترقی و خوشحالی میں عیدالاضحی کا کردار
1۔ معیشت کو مضبوط بنانے میں کردار
عیدالاضحیٰ پاکستانی معیشت کو درپیش کئی مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر زر کی زبردست گردش ہوتی ہے، جو ارتکاز دولت پر ضرب لگاتی ہے۔ مویشی منڈی سے لے کر قربانی کرنے تک لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ پاکستان سے چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات سے قیمتی زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ گوشت اور کھالوں کی تقسیم سے غریب طبقے کی مدد ہوتی ہے۔

2۔ صنعتی ترقی میں معاونت
قربانی کرنے سے چمڑے اور اس سے منسلک صنعتوں کو ترقی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 750 ٹینریز، 761 لیدر گارمنٹس کے صنعتی یونٹس، 524 فٹ ویئر بنانے والے، 348 دستانے بنانے والے اور 160 چمڑے سے کھیلوں کا سامان تیار کرنے والے رجسٹرڈ صنعتی یونٹس ہیں۔ پاکستان کی ٹینریز 90 ملین مربع میٹر چمڑا صاف کرتی ہیں۔ پاکستانی ادارے 70 لاکھ لیدر گارمنٹس، دستانوں کے ایک کروڑ جوڑے اور فٹ ویئرز کے 20 کروڑ جوڑے تیار کرتے ہیں، جو پاکستان کے لئے زرمبادلہ لاتا ہے۔ اس صنعت کو تھوڑی توجہ دے کر مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اصلاح معاشرہ میں عیدالاضحیٰ کا کردار
1۔ اخلاقی اقدار کی بحالی
عیدالاضحیٰ کا یہ مقدس موقع ہمیں متعدد اخلاقی اقدار اپنانے کی ترغیب دیتا ہے، جن میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی صفت ہے، جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اللہ کے حکم پر فوری رضامندی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تہوار ہمیں اپنی خواہشات اور مفادات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا جذبہ سکھاتا ہے، جبکہ دوسروں کی ضروریات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دینے کا درس دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دن ہمیں معاشرتی امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی محبت، بھائی چارے اور اجتماعیت کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے، جس سے ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

2۔ خاندانی نظام کی مضبوطی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقدس خاندان ہمارے لیے ایک مثالی نمونہ پیش کرتا ہے، جس سے ہم خاندانی زندگی کے گہرے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک باپ کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں سکھایا کہ حق کی راہ میں ہر عزیز ترین محبت کو قربان کر دینا چاہیئے، جبکہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے بیوی کے روپ میں مکمل فرمانبرداری اور حق کے معاملے میں کسی قسم کے سمجھوتے سے گریز کا عملی نمونہ پیش کیا۔ ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اولاد کی تربیت کا بہترین پیمانہ قائم کیا، جنہوں نے والد کے حکم پر بلا چوں چرا سرتسلیم خم کر دیا۔ اگر آج ہم اپنے خاندانوں میں یہی قیمتی اقدار۔۔۔ باپ کی ذمہ داری شناسی، بیوی کی فرمانبرداری اور اولاد کی اطاعت شعاری۔۔۔۔ پروان چڑھائیں تو نہ صرف ہمارے گھروں میں امن و سکون کی فضاء قائم ہوگی، بلکہ پورے معاشرے کے بے شمار مسائل بھی خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے، کیونکہ مضبوط خاندان ہی صحتمند معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔

تجاویز برائے بہتر استفادہ
عیدالاضحیٰ سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے:
1۔ قربانی کی روح کو سمجھیں: قربانی محض رسم نہیں بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی ہے۔
2۔ اجتماعی قربانی کو فروغ دیں: دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر قربانی کریں، تاکہ معاشرتی رشتے مضبوط ہوں۔
3۔ غریبوں کا خیال رکھیں: گوشت کے تین حصے کرکے ایک حصہ ضرورت مندوں کو دیں۔
4۔ کھالوں کا بہترین استعمال: کھالیں دینی مدارس یا مستحقین کو دیں، جو معاشرتی فلاح کے کام آسکیں۔
5۔ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیں: مقامی سطح پر مویشی منڈیوں اور چمڑے کی صنعت کو سپورٹ کریں۔
6۔ اخلاقی اقدار کی تعلیم دیں: اولاد کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے واقعے سے سبق سکھائیں۔ اللہ پاک ہمیں عیدالاضحیٰ کی برکتوں سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے۔ (آمین یا رب العالمین)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاکستانی معاشرے میں علیہ السلام نے اپنی خواہشات اخلاقی اقدار قربانی کا قربانی کے کے حکم پر کرتے ہیں جاتے ہیں کے سامنے کی اہمیت اللہ کی دیتا ہے ہوتا ہے کرنے کا اللہ کے کے ساتھ چمڑے کی کے لیے

پڑھیں:

آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا ۔۔۔!

تصور کیجیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا! کیسی آزمائش کی گھڑی رہی ہوگی حضرت ابراہیمؑ کے لیے جب نمرود نے دہکتی ہوئی آگ تیار کرائی تھی، ایک طرف نارِ نمرود اور اس کے وہ چیلے چپاٹے ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کے آگ میں جلنے کا تماشا دیکھنے کے لیے بے تاب تھے، اور دوسری طرف حضرت ابراہیمؑ کا عشقِ حقیقی تھا جو بار بار آگ میں کودنے کے لیے بے تاب تھا۔

 بالآخر ابراہیمؑ خلیل اﷲ بے دھڑک آگ میں کود پڑے، اور خدائی فرمان: ’’اے آگ! تُو ٹھنڈی اور سلامتی بن جا حضرت ابراہیمؑ پر۔‘‘ کے آگے آگ اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی، اور دنیا نے دیکھا کہ آتشِ نمرود میں عشقِ حقیقی کس طرح پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔

پھر تصور میں لائیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا کہ حکم ہوتا ہے اپنی بیوی اور بچے کو اُس سنسان وادی میں چھوڑ کر آئیے جہاں آدم نہ آدم زاد، ایسا ویرانہ جہاں صرف چلچلاتی دھوپ ہے، کھانا ہے نہ پانی، نہ کوئی قریب اور عزیز، نہ کوئی خبر گیری کرنے والا اور نہ کوئی راہ گیر، جہاں نہ اپنوں کا معلوم اور نہ بیگانوں کی خیر خبر، حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کا حکم پاتے ہی بیوی اور بچے کو اُس جھلسی ہوئی پہاڑیوں اور کھانے پانی سے خالی وادی میں چھوڑ کر آگئے۔

 یہ بالکل نہ سوچا کہ اُس تپتی ہوئی وادی میں ممتا کی ماری ایک ماں اور شیرخوار بچے کا کیا ہوگا۔ بس خدا کا حکم ملتے ہی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہوگئے اور حکم کو تجسیمی شکل دینے میں ذرّہ برابر بھی تاخیر نہ کی۔ حضرت ہاجرہؓ اور ان کے ننھے منے بچے پر اس وحشت ناک وادی میں کیا گذری؟ یہ بھی تاریخ کا ایک باب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی فدائیت کا مظہر ہے۔

اُس تپتی ہوئی وادی میں وہ شیرخوار بچہ جب دیوارِ کعبہ سے ایڑیاں رگڑتا تو ماں تڑپ تڑپ کر کبھی صفاء کی طرف دیکھتی کہ شاید کوئی قافلہ نظر آجائے اور پانی مل جائے، اور کبھی دوڑتی ہوئی مروہ پر چڑھتی کہ شاید ادھر کوئی قافلہ گذرتا ہوا دکھائی دے، پھر بھاگی بھاگی بچے کو دیکھنے آتی کہ کس حال میں ہے۔

 اس معصوم کو دیکھ کر پھر پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کا چکر لگاتی، اور جب امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی تو بے قرار ہوجاتی، کلیجہ منہ کو آنے لگتا، تاآں کہ اﷲ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لاڈلے کی ایڑیوں کی رگڑ سے پانی کا چشمہ جاری فرما دیا جو ’’زم زم‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اور اُس وقت سے اب تک اسی طرح جاری ہے اور ان شاء اﷲ تاقیامت جاری رہے گا۔

اﷲ اکبر! فدائیت کا یہ نمونہ اب کون پیش کرسکتا ہے کہ ابھی ایک امتحان ختم نہیں ہُوا کہ دوسرا شروع ہوگیا، جب بچہ بڑا ہوگیا اور بوڑھے باپ کو کچھ سہارا دینے کے لائق ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے لاڈلے کو اﷲ کی راہ میں قربان کررہے ہیں، چوں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اِس لیے صبح اٹھتے ہی اس خواب کا تذکرہ اپنے بیٹے سے کیا، اِس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی ہچکچاہٹ اور سراسیمگی نہیں ہوئی، اور نہ ہی کوئی قلق ہُوا، کیوں کہ ان کا قلب حُبّ خدا سے سرشار تھا اور بہ طورِ امتحان بیٹے سے سوال کیا: تمہاری رائے اِس کے بارے میں کیا ہے۔۔۔ ؟

یہاں کسی شخص کے دل میں یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدائی حکم کی تعمیل کرنا بیٹے کے اتباعی جواب پر منحصر تھا ؟ ایسی کوئی بات نہیں، بل کہ ان سے صلاح و مشورے میں بہت سارے اسرار و حکمتیں پنہاں ہیں۔ پہلی حکمت یہ تھی کہ ان میں اطاعتِ خداوندی کا جذبہ اور ولولہ کس حد تک ہے یہ بات کھل کر سامنے آجائے، نیز ان کے حوصلے کو بھی پرکھنا اور جانچنا مقصود تھا۔ دوسری حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اسے قبول کریں گے تو مستحق اجر ہوں گے۔ تیسری حکمت یہ تھی کہ عین ذبح کے وقت ممکن تھا کہ محبتِ پدری، محبت طبعی اور تقاضائے انسانی فعل مامور میں آڑے نہ آجائے، اِس وجہ سے جناب ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے مشورہ لیا تھا۔

قرآنِ کریم نے اِس واقعے کو اِس انداز سے بیان فرمایا ہے، مفہوم : ’’سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: برخوردار! میں دیکھتا ہوں کہ تم کو (بہ امرالٰہی) ذبح کررہا ہوں، سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے؟ وہ بولے: ابا جان! آپ کو جو حکم ہُوا ہے آپ کیجیے ان شاء اﷲ آپ مجھ کو صبر کرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔‘‘

یہ امتحان کس قدر سخت تھا اِس کی طرف اشارہ خود اﷲ رب العزت نے اشارہ فرما دیا کہ ارمانوں سے مانگے ہوئے اس بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا جب یہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا، اور پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوتِ بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہو۔ مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی، اور بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ بالغ ہوچکے تھے۔

یوں تو ذبح کرنے کا یہ حکم بہ راہِ راست کسی فرشتے کے ذریعے بھی نازل کیا جاسکتا تھا، لیکن خواب میں دکھانے کی بہ ظاہر حکمت یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعے دیے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لیے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بہ جائے اﷲ رب العزت کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور اِس امتحان میں سو فی صد کام یاب ہوئے۔

قربانی کا یہ واقعہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا عظیم مظہر ہے وہیں اِس واقعے سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بھی بے مثال جذبۂ جاں نثاری کی شہادت ملتی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں اﷲ رب العزت نے انھیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے سامنے اﷲ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا تھا، بل کہ محض ایک خواب کا تذکرہ فرمایا تھا، لیکن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سمجھ گئے کہ انبیائے علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اور یہ خواب بھی درحقیقت حکمِ الٰہی کی ہی ایک شکل ہے، چناں چہ انہوں نے جواب میں خواب کے بہ جائے حکمِ الٰہی کا ذکر کیا اور والد بزرگوار کو یہ کہہ کر یقین دلایا: ’’ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے کر گزریے، ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘

مفتی محمد شفیعؒ اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اِس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اِس جملے میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی غایتِ ادب اور غایتِ تواضع کو دیکھیے، ایک تو ان شاء اﷲ کہہ کر معاملہ اﷲ کے حوالے کردیا، اور اِس وعدے میں دعوے کی جو ظاہری صورت پیدا ہوسکتی تھی اسے بالکل ختم فرما دیا، دوسرے آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ’’آپ ان شاء اﷲ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔‘‘ لیکن اس کے بہ جائے آپ نے فرمایا ’’ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ جس سے اِس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ صبر و ضبط تنہا میرا کمال نہیں ہے، بل کہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، ان شاء اﷲ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں گا، اِس طرح آپ نے اِس جملے میں فخر و تکبر، خود پسندی اور پندار کے ادنیٰ شائبے کو ختم کرکے اس میں انتہا درجے کی تواضع اور انکسار کا اظہار فرما دیا۔‘‘ (روح المعانی، بہ حوالہ معارف القرآن)

سبحان اﷲ! یہ جذبۂ قربانی اور یہ فدائیت، کہ بیٹے کے گلے پر چُھری چلادی، اور آفرین صد آفرین یہ اِقدامِ فداکاری کہ چُھری تلے گردن رکھ دی اور خلیل و ذبیح دونوں نے اپنا اپنا حق ادا کریا۔ قرآن نے بھی اعلان کردیا، مفہوم: ’’ تم نے خواب سچ کر دکھایا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ یعنی اﷲ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا اس میں تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور آزمائش میں پورے کام یاب رہے، اور یہ ادائے قربانی اﷲ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے یادگار اور قربِ خداوندی کا ذریعہ بنادیا جسے امت مسلمہ ہر سال مناتی ہے اور اِس قربانی میں درحقیقت مسلمانوں کے اِس عقیدے کا اعلان ہوتا ہے کہ انسان کو اﷲ رب العزت کے حکم کے آگے اپنی عزیز سے عزیز ترین چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اﷲ رب العزت پوری امت مسلمہ میں جذبۂ ایثار و قربانی پیدا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • یہ عید حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے اسوہ حسنہ کی تائید و تجدید ہے،ڈاکٹرعشرت العباد
  • عیدالاضحیٰ کے مبارک موقع پر عالم ِاسلام اور پوری پاکستانی قوم کو دلی مبارکباد ، یہ دن ایمان، قربانی، ایثار اور بھائی چارے کے جذبے کو ازسرِنوزندہ کرنے کا دن ہے ،صدر مملکت آصف علی زرداری
  • ڈیجیٹل پردے کی اہمیت اور ضرورت
  • یاد ہے قربانی کا دنبہ، مگر بھول گئے ہم وہ مکالمہ
  • آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا ۔۔۔!
  • گورنر سندھ کا عیدالاضحیٰ پر غریبوں اور مستحقین کیلیے 250 جانور قربان کرنے کا اعلان
  • عمران خان نے پیغام دیا ہے ورکرز قربانی کے لیے تیار رہیں، زرتاج گل
  • تہران میں کتاب کی رونمائی
  • عیدالاضحیٰ، یہودی معاشی نظام پر کاری ضرب