عیدالاضحیٰ کے اجتماعی اور معاشرتی پہلو اور پاکستانی معاشرے میں اسکی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عیدالاضحیٰ کا یہ مقدس موقع ہمیں متعدد اخلاقی اقدار اپنانے کی ترغیب دیتا ہے، جن میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی صفت ہے، جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اللہ کے حکم پر فوری رضامندی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تہوار ہمیں اپنی خواہشات اور مفادات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا جذبہ سکھاتا ہے، جبکہ دوسروں کی ضروریات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دینے کا درس دیتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ دن ہمیں معاشرتی امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی محبت، بھائی چارے اور اجتماعیت کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے، جس سے ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ تحریر: سید امتیاز علی رضوی
عیدالاضحیٰ محض ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ ایک جامع سماجی نظام کی عکاس ہے، جو تربیت نفس، معاشی ترقی اور معاشرتی اصلاح کے بے شمار پہلوؤں پر محیط ہے۔ عیدالاضحیٰ درحقیقت ایک جامع نظام زندگی ہے، جو ہمیں فردی تربیت سے لے کر اجتماعی ترقی تک کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اگر ہم اس کے حقیقی مقاصد کو سمجھ کر اس سے استفادہ کریں تو ہم نہ صرف اپنی انفرادی زندگیوں میں بلکہ پورے معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے مختلف پہلوؤں کا ایک جائزہ لینا ہوگا۔
عیدالاضحیٰ کا تاریخی اور روحانی پس منظر
عیدالاضحی کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی سے ہے، جسے قرآن کریم میں "ذبح عظیم" کا خطاب دیا گیا ہے (سورہ الصافات (37:107)۔ یہ واقعہ تقریباً چار ہزار سال پرانا ہے اور یہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی قربانی کی داستان ہے۔ اس دن کی اہمیت کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا، وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا" ترجمہ: "ابن آدم نے قربانی کے دن کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب نہیں کیا۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقبول ہو جاتا ہے۔ پس تم خوش دلی سے قربانی کرو۔” (مسند احمد:حدیث نمبر 24784، الکافی باب:فضیلت الأضحی وآدابہ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ قربانی درحقیقت اللہ کے حکم پر اپنی سب سے عزیز چیز کو قربان کر دینے کا عملی مظاہرہ تھی۔ علامہ اقبال نے اس واقعے کی اہمیت کو یوں بیان کیا ہے:
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی (بالِ جبریل)
عیدالاضحی کے سماجی پہلو
1۔ معاشرتی یکجہتی اور اخوت کا فروغ
عیدالاضحیٰ کا تہوار مسلمانوں میں باہمی الفت و محبت اور اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس موقع پر دوست احباب اور عزیز رشتہ دار مل کر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتے ہیں، مل جل کر جانوروں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، ایک دوسرے کو گوشت ہدیہ کیا جاتا ہے۔ دعوت پارٹیز کا سلسلہ ہوتا ہے۔ حج کے موقع پر مختلف رنگ و نسل اور ملکوں کے باشندے ایک ہی لباس میں مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں، جہاں تمام فروق و امتیازات مٹ جاتے ہیں۔ نہ مرتبوں کا فرق باقی رہتا ہے اور نہ ہی دولت و غربت کا۔ یہی روح پاکستانی معاشرے میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں امیر و غریب ایک ہی جگہ نماز ادا کرتے اور قربانی کرتے نظر آتے ہیں۔
2۔ غریبوں اور محتاجوں کی مدد
قربانی کا ایک اہم سماجی پہلو غریبوں اور محتاجوں کی مدد ہے، قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاتے ہیں، جن میں سے ایک حصہ غریبوں کے لیے مختص ہوتا ہے، بہت سے لوگ غریبوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ایسے غریب لوگوں کے گھروں میں بھی گوشت پکتا ہے، جو سارا سال گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ قربانی کی کھالیں فلاحی اداروں، دینی مدارس اور غریبوں کو دی جاتی ہیں، جنہیں بیچ کر کئی مہینے کے اخراجات جمع ہو جاتے ہیں۔
3۔ معاشی سرگرمیوں کا فروغ
عیدالاضحیٰ پاکستانی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا محرک ہے۔ قربانی کے لیے جانور پالنے والوں، چرواہوں اور کاشت کاروں کو فائدہ ہوتا ہے، جن کے پاس کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہوتا۔ مویشی منڈیوں میں ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین رکھے جاتے ہیں۔ جانوروں کو منڈی تک پہنچانے کے لیے گاڑیاں کرائے پر لی جاتی ہیں۔ منڈیوں میں جانوروں کے چارے اور مالکوں کے کھانے پینے کے لیے اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ جانور بیمار ہونے پر ویٹرنری ڈاکٹروں کو بلایا جاتا ہے۔ عید کے دن ہزاروں قصائی جانور ذبح کرتے ہیں، اس طرح عید الاضحیٰ کا پاکستان کی معیشت چلانے میں اہم کردار ہے، جسے مزید بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی چمڑے کی صنعت جو ملک کے جی ڈی پی کا 1 فیصد اور مینوفیکچرنگ جی ڈی پی کا 6 فیصد ہے، تقریباً اڑھائی لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر بڑی تعداد میں کھالیں جمع ہوتی ہیں، جو چمڑے کی صنعت کے لیے خام مال کا کام کرتی ہیں۔
عیدالاضحیٰ میں تربیت نفس کے پہلو
عیدالاضحی درحقیقت اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے اور اللہ کی رضا کے لیے قربانی دینے کی تربیت ہے۔ کسی عالم دین نے اس پہلو کو یوں بیان کیا: "عیدالاضحیٰ کے روز تو دراصل اپنی حیوانیت اور بہیمیت پر جانور کو ذبح کرتے ہوئے چھری پھیرنا ہے۔" قربانی کا اصل مقصد مال کی قربانی نہیں بلکہ اپنے اندر کی مادہ پرستی، لالچ اور نفسانی خواہشات کی قربانی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: "لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ" ترجمہ: "اللہ کو نہ تو ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا خون، بلکہ اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح اس نے انہیں تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے، تاکہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔" (الحج:37)۔ قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت ہمیں یہ احساس ہونا چاہیئے کہ ہم درحقیقت اپنے اندر کی حیوانیت کو قربان کر رہے ہیں۔ حلال جانوروں کو ذبح کرکے ہم اپنے اندر کی حیوانی صفات کو ختم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
ملکی ترقی و خوشحالی میں عیدالاضحی کا کردار
1۔ معیشت کو مضبوط بنانے میں کردار
عیدالاضحیٰ پاکستانی معیشت کو درپیش کئی مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر زر کی زبردست گردش ہوتی ہے، جو ارتکاز دولت پر ضرب لگاتی ہے۔ مویشی منڈی سے لے کر قربانی کرنے تک لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ پاکستان سے چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات سے قیمتی زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ گوشت اور کھالوں کی تقسیم سے غریب طبقے کی مدد ہوتی ہے۔
2۔ صنعتی ترقی میں معاونت
قربانی کرنے سے چمڑے اور اس سے منسلک صنعتوں کو ترقی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 750 ٹینریز، 761 لیدر گارمنٹس کے صنعتی یونٹس، 524 فٹ ویئر بنانے والے، 348 دستانے بنانے والے اور 160 چمڑے سے کھیلوں کا سامان تیار کرنے والے رجسٹرڈ صنعتی یونٹس ہیں۔ پاکستان کی ٹینریز 90 ملین مربع میٹر چمڑا صاف کرتی ہیں۔ پاکستانی ادارے 70 لاکھ لیدر گارمنٹس، دستانوں کے ایک کروڑ جوڑے اور فٹ ویئرز کے 20 کروڑ جوڑے تیار کرتے ہیں، جو پاکستان کے لئے زرمبادلہ لاتا ہے۔ اس صنعت کو تھوڑی توجہ دے کر مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اصلاح معاشرہ میں عیدالاضحیٰ کا کردار
1۔ اخلاقی اقدار کی بحالی
عیدالاضحیٰ کا یہ مقدس موقع ہمیں متعدد اخلاقی اقدار اپنانے کی ترغیب دیتا ہے، جن میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی صفت ہے، جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اللہ کے حکم پر فوری رضامندی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تہوار ہمیں اپنی خواہشات اور مفادات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا جذبہ سکھاتا ہے، جبکہ دوسروں کی ضروریات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دینے کا درس دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دن ہمیں معاشرتی امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی محبت، بھائی چارے اور اجتماعیت کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے، جس سے ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
2۔ خاندانی نظام کی مضبوطی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقدس خاندان ہمارے لیے ایک مثالی نمونہ پیش کرتا ہے، جس سے ہم خاندانی زندگی کے گہرے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک باپ کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں سکھایا کہ حق کی راہ میں ہر عزیز ترین محبت کو قربان کر دینا چاہیئے، جبکہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے بیوی کے روپ میں مکمل فرمانبرداری اور حق کے معاملے میں کسی قسم کے سمجھوتے سے گریز کا عملی نمونہ پیش کیا۔ ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اولاد کی تربیت کا بہترین پیمانہ قائم کیا، جنہوں نے والد کے حکم پر بلا چوں چرا سرتسلیم خم کر دیا۔ اگر آج ہم اپنے خاندانوں میں یہی قیمتی اقدار۔۔۔ باپ کی ذمہ داری شناسی، بیوی کی فرمانبرداری اور اولاد کی اطاعت شعاری۔۔۔۔ پروان چڑھائیں تو نہ صرف ہمارے گھروں میں امن و سکون کی فضاء قائم ہوگی، بلکہ پورے معاشرے کے بے شمار مسائل بھی خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے، کیونکہ مضبوط خاندان ہی صحتمند معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔
تجاویز برائے بہتر استفادہ
عیدالاضحیٰ سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے:
1۔ قربانی کی روح کو سمجھیں: قربانی محض رسم نہیں بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی ہے۔
2۔ اجتماعی قربانی کو فروغ دیں: دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر قربانی کریں، تاکہ معاشرتی رشتے مضبوط ہوں۔
3۔ غریبوں کا خیال رکھیں: گوشت کے تین حصے کرکے ایک حصہ ضرورت مندوں کو دیں۔
4۔ کھالوں کا بہترین استعمال: کھالیں دینی مدارس یا مستحقین کو دیں، جو معاشرتی فلاح کے کام آسکیں۔
5۔ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیں: مقامی سطح پر مویشی منڈیوں اور چمڑے کی صنعت کو سپورٹ کریں۔
6۔ اخلاقی اقدار کی تعلیم دیں: اولاد کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے واقعے سے سبق سکھائیں۔ اللہ پاک ہمیں عیدالاضحیٰ کی برکتوں سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے۔ (آمین یا رب العالمین)
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستانی معاشرے میں علیہ السلام نے اپنی خواہشات اخلاقی اقدار قربانی کا قربانی کے کے حکم پر کرتے ہیں جاتے ہیں کے سامنے کی اہمیت اللہ کی دیتا ہے ہوتا ہے کرنے کا اللہ کے کے ساتھ چمڑے کی کے لیے
پڑھیں:
فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔
دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔
یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔
خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔