اسلام آباد:

قازقستان کے سفری یرزہان کستافن نے وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان سے ملاقات کے دوران بھارت سے جنگ میں پاکستان کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا اور دونوں رہنماؤں نے باہمی تعاون اور اشتراک کا عزم کیا۔

وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان سے قازقستان کے سفیر یرزہان کستافن نے ملاقات کی اور ملاقات میں باہمی دلچسپی کے مختلف امور اور دو طرفہ تعاون پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔

وفاقی وزیرعبدالعلیم خان نے کہا کہ ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مختلف شعبوں میں پیش رفت ہو رہی ہے، ریل اور روڈ کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی گیم چینجر ہے، اکنامک گروتھ کے لیے ذرائع مواصلات میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔

قازقستان کے سفیر اور وفاقی وزیر مواصلات کے مابین ای سی او اجلاس پر بھی گفتگو ہوئی اور وفاقی وزیر نے کہا کہ اہم ممالک کے مابین باہمی شراکت سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان ہر عالمی فورم پر متحرک کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔

اس موقع پر قازقستان کے سفیر یرزہان کستافن نے پاکستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا، انہوں نے عبدالعلیم خان اور پاکستانی عوام کو عیدالاضحٰی کی مبارک باد دی۔

قازقستان کے سفیر نے بھارت سے جنگ میں کامیابی پر پاکستان کے لیے اظہار مسرت کیا اور کہا کہ سب دعا گو ہیں، پاکستان کو عالم اسلام میں نمایاں مقام حاصل ہے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان قازقستان کے سفیر وفاقی وزیر

پڑھیں:

ملائیشیا سے شراکت داری، ترقی وخوشحالی کی ضامن

پاکستان اور ملائیشیا نے تعلیم، حلال سرٹیفکیشن، سیاحت، انسدادِ بدعنوانی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے مفاہمت کی 6یاد داشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے تقریب میں شرکت کی۔

فریقین نے پاکستان سے ملائیشیا کو حلال گوشت کی برآمدات کا کوٹہ 200 ملین امریکی ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کو فروغ دینے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور دونوں فریق اس حوالے سے مؤثر اقدامات کر رہے ہیں۔

 وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ان کے ملائیشیائی ہم منصب انور ابراہیم کی حالیہ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کی تجدید اور وسعت کے لیے جو عزم ظاہر ہوا ہے، وہ خوش آیند ہے۔ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطح ملاقات نے خطے کی جغرافیائی و اقتصادی سیاست میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے معاشی مسائل، غیر یقینی پالیسیوں اور انتظامی ناکامیوں کا شکار رہا ہے۔ ان حالات میں جب ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور تجارتی مواقعے کی اشد ضرورت ہے، تو ایسی شراکت داریاں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتی ہیں۔

ملائیشیا میں مقیم پاکستانیوں کے مطابق ان کے لیے وہاں با عزت روزگار کے مواقعے زیادہ ہیں۔ وہ وہاں اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مناسب پیسے کما رہے ہیں جو ان کے لیے پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ محنت کشوں اور مزدوں کے علاوہ بھی بہت سے پاکستانی روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں ملائیشیا میں مقیم ہیں۔

ملائیشیا کی مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پاکستانی انجینئرز، آئی ٹی ماہرین اور دیگر پیشہ ور افراد کام کر رہے ہیں۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1971 سے 2025 تک تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ملائیشیا روزگار کے لیے منتقل ہو چکے ہیں۔ 2023 میں بیس ہزار افراد پاکستان سے ملائیشیا گئے تھے۔ ملائیشیا میں پاکستانی طالب علموں کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ علاوہ ازیں، ان لوگوں کے گھروالے بھی وہاں موجود ہیں جس کے باعث ملائیشیا میں پاکستانیوں کی تعداد اس تخمینے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

ملائیشیا میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں۔ ملائیشیا کی معیشت مستحکم ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں وہاں روزگارکے زیادہ مواقع موجود ہیں اور وہاں معیارِ زندگی بھی بہتر ہے۔ ملائیشیا کی پاکستانیوں کے لیے ویزہ پالیسی بھی آسان ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں کے لیے وہاں جانا بہت مشکل نہیں۔ ملائیشیا اپنے مقامی افراد اور غیر ملکیوں کو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی زندگی فراہم کرتا ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی بہت سے پاکستانی موقع ملنے پر ملائیشیا منتقل ہونا پسند کرتے ہیں۔

 تعلیم کا شعبہ وہ بنیاد ہے جس پر کسی بھی ملک کا مستقبل استوار ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے میدان میں تعاون کے جو امکانات پیدا ہوئے ہیں، وہ خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے خوش آیند ہیں۔

پاکستان کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو ملائیشیا کی تعلیمی پالیسیوں، نصاب اور تحقیقی نظام سے سیکھنے کا موقع ملے گا، جو عالمی سطح پر اپنی پہچان بنا چکا ہے۔ پاکستانی طلبہ کے لیے ملائیشیا میں تعلیم کے مواقع نہ صرف تعلیمی معیار کو بلند کریں گے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیں گے۔

 ٹیکنالوجی، خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی، ای کامرس، فِن ٹیک اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبے جدید معیشتوں کی ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکنالوجی کے میدان میں موجود انسانی وسائل کو اگر ملائیشیا جیسے ترقی یافتہ ملک کے تجربے اور سرمائے کے ساتھ جوڑا جائے، تو یہ ایک ایسی انقلابی تبدیلی کا آغاز ہو سکتا ہے جو نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے بلکہ پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت کی دوڑ میں ایک قابلِ ذکر مقام دلوا سکے۔

پاکستان کی نوجوان نسل آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرچکی ہے، لیکن انھیں وہ پلیٹ فارم اور عالمی رسائی میسر نہیں جو ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ملائیشیا کے تعاون سے اگر پاکستان میں سافٹ ویئر پارکس، انکیوبیشن سینٹرز اور ہائی ٹیک انڈسٹریز قائم کی جائیں، تو پاکستان اس شعبے میں عالمی سطح پر اپنی ساکھ قائم کر سکتا ہے۔

حلال انڈسٹری ایک اور وہ شعبہ ہے جس میں پاکستان کو بے پناہ مواقع میسر ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں حلال گوشت، دودھ اور اس سے بنی مصنوعات، مصالحہ جات اور دیگر زرعی اجناس کی پیداوار عالمی معیار کے مطابق ممکن ہے۔ اس وقت دنیا میں حلال مارکیٹ کا حجم تقریباً تین ٹریلین ڈالر سے تجاوزکرچکا ہے۔

ملائیشیا اس میدان میں عالمی لیڈر ہے، جس نے نہ صرف اپنی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں جگہ دلائی بلکہ حلال سرٹیفکیشن اور ریگولیٹری فریم ورک میں بھی اپنی پہچان بنائی، اگر پاکستان اس شعبے میں ملائیشیا کے تجربے سے استفادہ کرے، اپنے پروڈکشن سسٹمز کو جدید بنائے اور حلال سرٹیفکیشن کو بین الاقوامی معیارکے مطابق کرے، تو صرف گوشت ہی نہیں بلکہ دیگر حلال مصنوعات کی برآمدات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ملائیشیا کے ساتھ 200 ملین ڈالر تک کے حلال گوشت برآمدی کوٹہ کا معاہدہ اس سمت میں پہلا قدم ہے، لیکن اسے صرف آغاز سمجھنا چاہیے۔

سیاحت کے شعبے میں پاکستان کے پاس بے مثال قدرتی حسن، تاریخی مقامات، اور ثقافتی تنوع موجود ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ شعبہ ہمیشہ نظرانداز رہا ہے۔ ملائیشیا نے سیاحت میں اپنی شناخت قائم کی ہے اور کروڑوں سیاح ہر سال اس کی معیشت کو مستحکم کرتے ہیں، اگر پاکستان ملائیشیا سے سیکھ کر اپنی سیاحتی پالیسی کو جدید خطوط پر استوارکرے، انفرا اسٹرکچرکو بہتر بنائے اور سیکیورٹی کو یقینی بنائے، تو نہ صرف غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوگا بلکہ مقامی سطح پر بھی روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔

موسمیاتی تبدیلی اورگرین انرجی بھی ان معاہدوں کا اہم جزو تھے۔ پاکستان ایک ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے جہاں پانی کی قلت،گلوبل وارمنگ اور قدرتی آفات جیسے مسائل نے زندگی کے ہر پہلوکو متاثر کیا ہے۔ ملائیشیا نے گرین انرجی، سولر پاور اور پائیدار ترقی کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان تجربات سے سیکھ کر پاکستان بھی ایک ماحول دوست ترقی کی راہ اختیار کر سکتا ہے، جوکہ عالمی سطح پر ایک مثبت پیغام دے گا اورکلائمیٹ فنڈز تک رسائی میں مددگار ہوگا۔

 زراعت کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ملائیشیا کے ساتھ زرعی تعاون اور مشترکہ تحقیقی منصوبے پاکستان کی زرعی پیداوار کو جدید بنانے، کسانوں کو بہتر ٹیکنالوجی فراہم کرنے اور فوڈ سیکیورٹی کو بہترکرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر ان معاہدوں کے تحت ملائیشیا کی زرعی ٹیکنالوجی، ریموٹ سینسنگ، ڈرون فارمنگ اور بہتر بیجوں کی اقسام پاکستان میں متعارف کروائی جائیں، تو یہ انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

 یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان اور ملائیشیا نے باہمی اعتماد، بھائی چارہ، اور ترقی کے مشترکہ خواب کو حقیقت میں بدلنے کا عزم کیا ہے۔ تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ معاہدے کاغذ پر ہوتے ہیں، حقیقت میں تبدیلی تب آتی ہے جب نیت، کوشش اور تسلسل کا مظاہرہ کیا جائے، اگر ان معاہدوں کو سنجیدگی سے نافذ کیا جائے، ان کی نگرانی کے لیے مشترکہ فورمز بنائے جائیں اور شفافیت کو ہر سطح پر یقینی بنایا جائے، تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور ملائیشیا کی شراکت داری نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک رول ماڈل بن سکتی ہے۔

پاکستان کو اب آگے بڑھنا ہے، ماضی کی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر، حال کے مواقعے سے فائدہ اٹھا کر اور مستقبل کی تعمیر کے لیے پائیدار بنیادیں رکھ کر۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان اپنی معیشت، ٹیکنالوجی، تعلیم، سیاحت، زراعت اور ماحولیاتی تحفظ جیسے شعبوں میں ایک نئی روح پھونکے اور ملائیشیا جیسے مخلص شراکت دار کے ساتھ مل کر ترقی، خوشحالی اور وقار کی راہ پر گامزن ہو۔ یہ نہ صرف دونوں ممالک کے لیے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک روشن مثال ثابت ہو سکتی ہے۔

 ملائیشیا کے ساتھ جو معاہدے ہوئے ہیں، وہ صرف رسمی ملاقاتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ دونوں ممالک کی باہمی ضرورتوں اور امکانات کا مظہر ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان معاہدوں کوکاغذی سطح سے اٹھا کر عملی میدان میں لایا جائے، تاکہ ان کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • خیرپور اکنامک زون ایشیا پیسیفک کے نمایاں صنعتی زونز میں شامل، وزیراعلی کا اظہار مسرت
  • وفاقی کابینہ نے سعودی عرب کے ساتھ باہمی اسٹریٹجک دفاعی معاہدے کی توثیق کردی
  • بھارت اور برطانیہ کی شراکت عالمی استحکام کی بنیاد، مودی
  • ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار کی کامیابی کیخلاف پی ٹی آئی امیدوار کی درخواست مسترد
  • این اے 247: خواجہ اظہار الحسن کی کامیابی کیخلاف دائر پٹیشن خارج
  • پاک  سعودی عرب دفاعی معاہدے کی بنیاد باہمی بھائی چارہ ہے، مل کر کام کریں تو عالمی برادری میں مضبوط مقام پیدا کر سکتے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف
  • وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی وفد کی ملاقات، باہمی تعلقات مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ
  • بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فوری، فیصلہ کن اور بھرپور جواب دیا جائے گا، کور کمانڈرز کا عزم
  • وزیر مملکت خزانہ سے امریکی سفیر کی ملاقات،قریبی رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق
  • ملائیشیا سے شراکت داری، ترقی وخوشحالی کی ضامن