بلوچستان میں بڑے ملٹری آپریشن کی ضرورت نہیں، را فتنہ الہندوستان کی سرپرستی کر رہی ہے: سرفراز بگٹی
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
اسلام آباد(اپنے سٹاف رپورٹر سے)وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ افواج پاکستان نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، بھارت کو جنگ میں منہ کی کھانا پڑی،بھارت شکست کے بعد اب پراکسیز کا سہارا لے رہا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘’فتنہ الہندوستان کی سرپرستی کررہی ہے، خود ساختہ لاپتہ ہونے کی شرح جبری لاپتہ ہونے سے زیادہ ہے،بلوچستان میں کسی بڑیملٹری آپریشن کی ضرورت نہیں۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ فتنہ الہندوستان پاکستان کا امن داؤ پر لگانے کی سازش کررہا ہے، بھارتی میڈیا نے کراچی پورٹ کے حوالے سے جعلی خبر چلائی کہ تباہ ہوگیا، بھارت کو جنگ میں منہ کی کھانا پڑی جس کے بعد بھارت اب پراکسیز کا سہارا لے رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ دشمن ہمارے خلاف پراکسی وار کررہا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘فتنۃ الہندوستان کی سرپرستی کررہی ہے، بھارت کا شیطانی کھیل بے نقاب ہوگیا۔سرفراز بگٹی نے دہشت گردوں کی آڈیو چلاتے ہوئے کہاکہ ریاست کے پاس فتنۃ الہندوستان کیخلاف بہت مضبوط ثبوت ہیں،راہینڈلرزفتنہ الہندوستان کو خفیہ معلومات فراہم کررہے ہیں، ہمارے پاس بہت زیادہ ثبوت ہیں لیکن ان کو مناسب پلیٹ فارم پر شیئر کیا جائے گا۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ فتنہ الہدونستان کے ذریعے خضدار میں بچوں کو شہید کرایا گیا، انہوں نے واضح کیا کہ بلوچستان میں کسی بڑے ملٹری آپریشن کی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے لوگ فیصلہ کرچکے کہ فتنۃ الہندوستان کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں، فتنہ الہندوستان کو بلوچ روایات، کلچر اور تہذیب و تمدن سے نہ جوڑا جائے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: فتنہ الہندوستان الہندوستان کی سرفراز بگٹی
پڑھیں:
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، دوہرے قتل کیخلاف قرارداد پیش
قرارداد میں کوئٹہ کے نواحی علاقے سینجدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر مرد اور خاتون کے قتل کی مذمت کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر اعلان کیا کہ تحقیقات کی نگرانی کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مبنی کمیٹی بنائی جائیگی۔ اسلام ٹائمز۔ خواتین اراکین اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی میں کوئٹہ کے نواحی علاقے میں خاتون اور مرد کے قتل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔ تفصیلات کے مطابق ویمن پارلیمانی کاکس کی ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ اور دیگر خواتین اراکین کی جانب سے بلوچستان اسمبلی میں غیرت کے نام پر دہرے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی گئی۔ جس میں کوئٹہ کے نواحی علاقے سینجدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر مرد اور خاتون کے قتل کی مذمت کی گئی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کسی بھی صوبائی، قومی، سماجی یا مذہبی روایت سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ غیر قانونی انسانی عمل ہے جو قانونی، سماجی اور اخلاقی اصولوں کے منافی ہے۔ کسی فرد کو منصف بننے کا حق نہیں، انصاف دینا صرف ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ اس سفاکانہ عمل میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ صوبے بھر میں ڈیگاری واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی نے کہا کہ یہ واقعہ پورے معاشرے کو جھنجوڑ گیا ہے۔ ہمیں حقائق نہیں معلوم، کمیٹی کی کوئی رپورٹ نہیں ملی ہے اور مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعات ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کی شدت بڑھ گئی ہے۔ عید سے پہلے کا واقعہ ہے اور ویڈیو اب وائرل ہوئی ہے۔ عدالتوں کے بغیر اس مسئلے سے کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو ڈیگاری واقعے کی تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔
اس سے قبل اجلاس کے دوران اسد بلوچ نے کہا کہ 9 جولائی کو سی ٹی ڈی نے ان کے گھر چھاپہ مارا اور چادر و دیوار کو پامال کیا۔ ملک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس ایوان میں آنے والے میڈیٹ لے کر آتے ہیں جو قانون سازی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سی ٹی ڈی کے ساتھ جانے کو تیار تھے اور چھاپے کی وضاحت طلب کی۔ انہوں نے آنکھوں پر پٹی باندھنے کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے پارلیمانی سیاست کا کوئی جرم نہیں کیا۔ انہیں پہاڑوں پر جانے پر مجبور نہ کیا جائے اسد بلوچ واک آوٹ کرکے ایوان سے چلے گئے۔
صوبائی وزیر علی مدد جتک نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر مسلح افراد لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کونسی قبائلیت ہے اور ان دہشت گردوں کا سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ بلوچ اور پشتون روایات میں مہمانوں کو شہید نہیں کیا جاتا۔ مستونگ سے بیلہ تک تمام کاروبار دہشت گردی کی وجہ سے بند ہیں اور لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ اسد بلوچ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ طالب علم مصور کاکڑ کی لاش ملی ہے۔ حکومت تحفظ دینے کے بجائے کہتی ہے کہ شام 5 بجے سے صبح تک لوگ سفر نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دن میں حکومت صرف 4 گھنٹے فعال ہے اور باقی وقت دراندازی ہوتی ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ عوام کو قومی شاہراہوں پر تحفظ فراہم کرے۔ بارڈر بند ہونے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود کوئی سکیورٹی آفیسر معطل نہیں ہوا۔