حکومت کا 2029 تک ملکی ترقی کی شرح 6 فیصد تک پہنچانے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت نے 5 سالہ منصوبے کے تحت 2029 تک ملکی ترقی کی شرح 6 فیصد تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے 13 ویں پانچ سالہ منصوبہ اور ماہانہ ترقیاتی اپ ڈیٹ کی تقریب میں چیف اکنامسٹ ڈاکٹر امتیاز احمد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے 5 سالہ منصوبے کے تحت 2029 تک ملکی ترقی کی شرح 6 فیصد تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق اگلے 5 برسوں میں ملکی معیشت کا حجم 600 ارب ڈالر تک لے جائیں گے، 2029 تک وفاق کا ترقیاتی بجٹ 1700 ارب روپے جبکہ صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 2338 ارب روپے تک لے جائیں گے۔
احسن اقبال نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی خورد برد کی گئی 190 ملین پاؤنڈ کی رقم سے اسلام آباد میں دانش یونیورسٹی بنائیں گے۔
دوران پریس کانفرنس احسن اقبال نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے وصول ہونے والے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم سے دانش یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔
بھارت میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اسے جنگ سمجھا جاتا ہے: بلاول
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: احسن اقبال
پڑھیں:
پاکستان نے گزشتہ مالی سال 26.7 ارب ڈالرکا ریکارڈ غیر ملکی قرضہ لیا
اسلام آباد:پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے دوران ریکارڈ 26.7 ارب ڈالرکے غیر ملکی قرضے حاصل کیے، جن میں سے تقریباً نصف حصہ پرانے قرضوں کی مدت میں توسیع (رول اوور) پر مشتمل ہے۔
وزارتِ اقتصادی امور، وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ قرضے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 3.4 ارب ڈالر (یعنی کل قرضوں کا 13 فیصد) ترقیاتی منصوبوں کیلیے وصول ہوئے جبکہ باقی قرضے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلیے لیے گئے۔
یہ صورتحال قرضوں کی واپسی کو مزید مشکل بنا رہی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر قرضے آمدنی پیدا نہیں کرتے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جون کے اختتام پر 14.5 ارب ڈالر تھے، جو کہ بنیادی طور پر انہی قرضوں کے رول اوور اور نئی ادائیگیوں کا نتیجہ ہیں، جو ملک کی بیرونی مالیاتی خودمختاری کو مزیدکمزورکرتے ہیں۔
حکومت کو 11.9 ارب ڈالر براہِ راست قرض کی صورت میں ملے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.2 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 2.1 ارب ڈالر اداکیے گئے جبکہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور کویت کی جانب سے مجموعی طور پر 12.7 ارب ڈالر کے رول اوور کیے گئے۔
سعودی عرب نے 5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس 4 فیصد شرح سود پر دیے جبکہ چین نے 6 فیصد سے زائد شرح سود پر 4 ارب ڈالر رکھوائے۔ یو اے ای نے بھی 3 ارب ڈالر کے ذخائر اسٹیٹ بینک میں رکھوائے۔
چین نے 484 ملین ڈالر کی گارنٹی شدہ رقم اثاثے خریدنے کیلیے دی جبکہ حکومت 1 ارب ڈالر کے یوروبانڈز اور پانڈا بانڈز جاری کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت نے مہنگے تجارتی قرضے حاصل کرکے اس کمی کو پورا کیا، جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی گارنٹی بھی شامل تھی۔
اے ڈی بی نے 2.1 ارب ڈالر، آئی ایم ایف نے 2.1 ارب، ورلڈ بینک نے 1.7 ارب اور اسلامی ترقیاتی بینک نے 716 ملین ڈالر کے قرضے دیے۔ سعودی عرب نے 6 فیصد سود پر 200 ملین ڈالر کا تیل فنانسنگ معاہدہ بھی دیا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان کا قرضہ برائے جی ڈی پی تناسب اور مجموعی مالیاتی ضروریات اب ناقابل برداشت سطح سے تجاوز کر چکی ہیں۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ تین مالی سالوں (2026-2028) کے دوران پاکستان کو 70.5 ارب ڈالر کی بیرونی مالیاتی ضرورت ہوگی جبکہ قرض واپسی کی صلاحیت پر مسلسل خطرات منڈلا رہے ہیں۔