کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے، اُس کے بارے میں یہ افواہ بھی ہے کہ اُسے حرام جانور کے مادّہ منویہ سے حاملہ کرایا جاتا ہے تاکہ اس سے دودھ کی زیادہ مقدار حاصل ہو، ایسی گائیوں کا شرعی حکم کیا ہے ؟
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے، فقہی رائے کا مدار اَفواہوں یاسنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، صرف اُن باتوں پر ہوتا ہے جو قطعی ثبوت یا مشاہدے سے ثابت ہوں، چنانچہ مُسلّمہ اصول ہے :’’ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘۔
تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو ، تب بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پیناجائز ہے، اس لیے کہ جانورکی نسل کا مَدار ماں(یعنی مادہ) پر ہوتا ہے۔
علامہ برہان الدین المرغینانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور پالتو (Pet)اور جنگلی(Wild) جانورکے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ ماں (مادہ)کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، یہاں تک کہ اگر بھیڑیے نے بکری پر جفتی کی، تو اس ملاپ سے جو بچہ پیداہوگا، اس کی قربانی جائز ہے ‘‘۔
اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود ’’عنایہ شرحِ ہدایہ ‘‘ میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ کیونکہ بچہ ماں کاجزء ہوتا ہے اور اسی لئے آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ اُس دور کی بات ہے جب غلامی کا رواج تھا)۔
یہ اس لیے کہ نَر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتا ہے اوروہ قربانی کا محل نہیں ہے اور ماں کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اُسی کا اعتبار کیا گیا ہے، (فتح القدیر ،جلد9،ص:532)‘‘۔
علامہ علاؤالدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: قربانی پالتو جانوروں کی تین جنسوں میں سے کسی ایک جنس سے ہوسکتی ہے اور وہ یہ ہیں: بکری، اونٹ اور گائے، بیل، اس میں ہر نوع کا نَر اور مادہ، خصی اور آنڈو سب شامل ہیں، کیونکہ اُس جنس کا اطلاق اِن سب پر ہوتا ہے اور وجوبِ زکوٰۃ کے حوالے سے بھیڑ بکری اور بھینس گائے کی جنس میں شامل ہے، وحشی جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے کیونکہ قربانی کا وجوب شریعت سے معلوم ہوا اور شریعت مانوس چیز کی قربانی واجب کرتی ہے۔
اگر جانور وحشی اور پالتو کے ملاپ سے پیدا ہو تو اعتبار ماں یعنی مادہ کا ہے، سو اگر ماں پالتو ہے تو قربانی جائز ہے، ورنہ نہیں ، یہاں تک کہ اگر پالتو گائے پر وحشی بیل جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کی قربانی جائز ہے اور اس کے برعکس اگر جنگلی گائے پر پالتو بیل جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کی قربانی جائز نہیں ہے، کیونکہ جانوروں کی نسل میں ماں کا اعتبار ہے، کیونکہ وہ ماں کے وجود سے جدا ہوتا ہے اور وہ قیمت رکھنے والا حیوان ہے، جس کے ساتھ احکام متعلق ہوتے ہیں اور نَر سے صرف نطفہ خارج ہوتا ہے اور اس کے ساتھ احکام متعلق نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ غلامی اور آزادی میں بچہ ماں کے تابع ہوتاہے ، سوائے اس کے کہ بنی آدم میں بچے کی شرافت اور ضائع ہونے سے بچانے کے لیے وہ باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے، ورنہ اصل یہی ہے کہ وہ ماں کی طرف منسوب ہو، اور کہا گیا: جب نَر ہرن پالتو بکری پر جفتی کرے اور اس سے بکری پیدا ہو تو اُس کی قربانی جائز ہے اور اگر ہرن پیدا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، اگر گھوڑی پر وحشی گدھا جفتی کرے اور گدھا پیدا ہو تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اور اگر گھوڑا پیدا ہو تو اس کا حکم گھوڑے کے گوشت کا ہوگا۔
اگر وحشی ہرن کو مانوس کیا یا جنگلی بیل کو مانوس کیا اور ان کی قربانی دی، تو جائز نہیں ہوگی، کیونکہ یہ اصل اور جوہر کے اعتبار سے وحشی ہیں اور کسی نادر عارض کی وجہ سے اصل کا حکم باطل نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمانے والا ہے ،(بدائع الصنائع، جلد 5،ص:103-104)‘‘۔
آج کل مغرب میں انسانوں کو اسی حیوانی درجے میں پہنچا دیاگیا ہے، اِسی لیے پاسپورٹ، تعلیمی اَسناد اور دیگر دستاویزات میں باپ کے بجائے ماں کا نام پوچھا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو اپنے باپ کا پتاہی نہیں ہوتا، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے انسانوں میں نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے، میں نے ایک آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ ڈنمارک میں ہوٹل میں مہمانوں کے نام ہدایت نامے میں یہ درج ہوتا ہے کہ آپ عملے کے کسی فرد سے باپ یا شوہر کا نام نہیں پوچھیں گے۔
قربانی کیلئے زیادہ تعداد میں جانور لینے چاہئیں یا بہت قیمتی جانور ؟ کیا افضل ہے؟
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کی قربانی جائز ہے پیدا ہو تو ا ہوتا ہے اور سے پیدا ہو جائز نہیں نہیں ہوتا جفتی کرے ر پالتو کے تابع گائے کی ماں کے اور اس
پڑھیں:
گلوبل وارمنگ سنجیدہ مسئلہ، اس سے بچنا ہوگا، ڈاکٹر حاجی حنیف طیب
سابق وفاقی وزیر ماحولیات نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کیلئے ماحولیاتی ماہرین کے ساتھ مل کر فوری اقدامات اٹھانا چاہیئے، درختوں کی کٹائی کو بھی روکنا ضروری ہے، اسکول، کالج، یونیورسٹیز کی سطح پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور شجرکاری کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نظام مصطفی پارٹی کے چیئرمین سابق وفاقی وزیر ماحولیات ڈاکٹر حاجی محمد حنیف طیب نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گلوبل وارمنگ ایک قدرتی اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے، لیکن انسان کی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے اس میں مسلسل تیزی آرہی ہے، پاکستان اُن ممالک میں شامل ہیں جوسب زیادہ متاثر ہورہا ہے گرمیوں میں سخت گرمی، سردیوں میں دھند و سموگ، غیر متوقع معمول سے زیادہ بارشیں، قدرتی آفات جیسے سیلاب و گلیشیئر کا پگھلنا، خشک سالی جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ انسانوں اور جانوروں میں مختلف قسم کی بیماریاں بھی پیدا کررہی ہے اور زراعت کے شعبے کو شدید خطرات لاحق ہیں، موسمیاتی تبدیلی کی اہم وجہ درختوں کا بے دریغ کاٹنا، صنعتی فضلات کی نکاسی کے مناسب انتظامات سے غفلت، آلودگی پیدا کرنے والے ایندھن کا بےدریغ استعمال اس طرح کے مختلف اسباب کی وجہ سے ماحولیات میں عدم توازن پیدا ہوتا جارہا ہے اس سے بچنا اور ضروری اقدامات کرنا جو انسان کے بس میں ہو کیا جانا چاہیئے مگر بدقسمتی سے ان حالات سے بچاؤ کیلئے ہماری موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔
حاجی محمد حنیف طیب نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کیلئے ماحولیاتی ماہرین کے ساتھ مل کر فوری اقدامات اٹھانا چاہیئے، درختوں کی کٹائی کو بھی روکنا ضروری ہے، اسکول، کالج، یونیورسٹیز کی سطح پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور شجرکاری کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔علماء و مشائخ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شجرکاری مہم ضرورت اور درخت لگانے پر اجروثواب کی اہمیت پر عوام میں شعور بیدار کریں۔