Express News:
2025-07-23@05:01:24 GMT

عید الاضحی کا اہم پیغام

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے دعا کروائی کہ ’’ اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرمائے اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والے ظالموں کو برباد کردے اور ان کے قدم اکھیڑ دے، انھوں نے مزید کہا کہ والدین سے صلہ رحمی، نرمی اور وعدوں کی تکمیل بھی دین کا حصہ اور حیا ایمان کی شاخ ہے ۔ ہمسایوں کا خیال رکھیں، یتیموں، بیواؤں اورکمزور طبقات سے ہمدردی اور شفقت کا برتاؤ کریں۔

 بلاشبہ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید نے حجاج اور امت مسلمہ کو نہایت اہم اور جامع پیغام دیا ہے۔ حج اور عید الاضحیٰ صرف انفرادی عبادات نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے عظیم پیغامات کے حامل مواقع ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مادیت، مفاد پرستی اور مطلق العنانیت غالب ہے، عید الاضحی اور حج ایثار، قربانی، اتحاد اور انسانی فلاح و بہبود کے کئی سبق لے کر آتے ہیں۔

درحقیقت عید الاضحی صرف جانور کی قربانی کا نام نہیں، بلکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت، ایثار اور قربانی کی وہ روشن یاد ہے جس نے ہمیں یہ سبق دیا کہ اللہ کی رضا کے لیے ہر قسم کی قربانی پیش کی جا سکتی ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ یہ دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ قربانی کا اصل مقصد صرف رسمی عبادت ادا کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا انسانی، معاشرتی اور روحانی پیغام ہے۔

اسلامی فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو خالق و مالک کے حکم اور مرضی و منشاء پر قربان کر دے۔ عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لیے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔فلسطینی عوام کے لیے یہ دن خوشیوں کے بجائے آنسوؤں، ملبوں، شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد کے گراف میں اضافے کا پیغام لے کر آیا ہے۔ غزہ کی گلیاں خون سے رنگین ہیں، بچے عید کی نئی پوشاکوں کے بجائے کفن میں لپیٹے جا رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے مینار ایک بار پھر صہیونی جارحیت کی گواہی دے رہے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس انسانی المیے پر عالم اسلام کا کیا رویہ ہے؟ فلسطینیوں کے لیے ہر عید ایک نیا امتحان لے کر آتی ہے۔ رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں حتیٰ کہ عبادت گاہوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ مگر عالم اسلام کا اجتماعی ردِ عمل صرف زبانی بیانات اور چند علامتی احتجاجی جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، جو مسلمانوں کے اجتماعی فیصلوں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے، اپنی موجودگی کو ثابت کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ جب امت کا ایک حصہ بدترین نسل کشی کا شکار ہو، تو او آئی سی کا خاموش رہنا یا رسمی بیانات جاری کرنا نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ اس کی افادیت پر بھی ایک بڑا سا سوالیہ نشان ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے جہاں معصوم فلسطینیوں کے لیے قیامتِ صغریٰ برپا کر دی ہے، وہیں عالمی سطح پر امن اور انصاف کے اداروں کی مکمل ناکامی کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔

یہ صورت حال نہ صرف فلسطینیوں کے لیے المیہ ہے بلکہ بحیثیت مجموعی پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ بن چکی ہے۔ معصوم بچوں کے خون سے سرخ ہوتی گلیاں اور زخمی خواتین کی درد ناک چیخیں عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی ادارے، مسلم ممالک اور دیگر بڑی قوتیں اسرائیل کو غزہ کے بے قصور و بے بس عوام پر ظلم سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

 اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کی حالت بدترین ہو چکی ہے۔ بھوک و افلاس سے مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی نسل پرستی کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اپنی تہذیب و ثقافت کو کمزور اقوام پر تھوپا جا رہا ہے۔ آج جو لوگ انسانیت کا راگ الاپتے ہیں، وہ درحقیقت انسانیت سے عاری ہیں۔ نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصبات نے انسان کو انسان ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

دولت کی ہوس اور عالمی نظام نے ہمدردی، محبت اور انسان شناسی کے جذبات کو ختم کر دیا ہے۔ طاقتور قوموں کی توسیع پسندانہ پالیسیاں سمندروں کو خون سے رنگین کر رہی ہیں۔ عالمی امن کے علم بردار ادارے سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونے بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک صورت حال عورتوں کی ہے۔ آزادی اور مساوات کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سب سے زیادہ ظلم و تشدد کی شکار خواتین ہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک اگر اپنے ہی بنائے ہوئے عالمی منشور پر صدقِ دل اور دیانت داری سے عمل کرتے تو کسی حد تک دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی تھی۔ ظلم و ستم کے بازار بند ہو جاتے، صنفِ نازک کے استحصال کا سلسلہ تھم جاتا اور سامراجی و استعماری قوتیں خود بخود مٹ جاتیں۔ لیکن افسوس کہ جن قوتوں نے اس منشور کے نفاذ کی ذمے داری لی، ان کی نیت صاف نہ تھی، اور وہ اس منشور کی آڑ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل چاہتے تھے۔آج افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اہم فریضے کو محض ایک دنیاوی تہوار سمجھ کر ایسے کام شروع کردیے ہیں، جس سے اس اہم فریضے کے ادائیگی کا مقصد پورا نہیں ہوتا، روحِ عبادت پر نمود و نمائش غالب آگئی ہے۔

ہرکوئی قربانی کے نام پر اپنی حیثیت اور استطاعت کی شیخی بگاڑتا نظر آتا ہے۔ اور قربانی کا گوشت جس پر سب سے پہلا حق مستحقین کا ہوتا ہے انھیں اُن کا حق اول تو ملتا ہی نہیں اور جو ملتا ہے تو وہ جو بچ جاتاہے رشتے داروں، ہمسائیوں وغیرہ سے وہ اُن کے حصے میں آتا ہے جسے بڑے حقیرانہ انداز میں، عجیب سے تیور دکھا کر انھیں دیا جاتا ہے جیسے کوئی بہت احسان کر رہے ہوں اور جو سفید پوش ہیں انھیں یہ دن بھی ایسے ہی فاقے میں گزارنا پڑتا ہے، کیونکہ ہاتھ وہ نہیں پھیلا سکتے۔ جو نعمتیں خدا نے ہمیں عطا کی ہیں وہ خدا کے دیے ہوئے میں سے بے بس، لاچار، مستحقین اور خاص کرکے سفید پوش لوگوں پر خرچ کرنا ہمارا فرض ہے۔ بہت سے والدین ایسے مواقعوں پر اپنے بچوں کی حسرتوں کو پورا نہیں کرسکتے اُن کی معصومیت کا خاص خیال رکھیں۔ گوشت دیتے ہوئے کوئی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جن سے اُن کی دل آزاری ہو۔

کسی کے دیے ہوئے گوشت میں سے اُن کو حصہ نہ دیں بلکہ اپنے حصے میں سے اُنکا حق انھیں دیں۔ ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انھیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔ آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کر کے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں۔ اسی روش کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ معاشرہ کے مستحق افراد کی فکر بڑی حد تک مفقود ہے۔ جب ہم قریب ترین عزیزوں کے علاوہ کسی کو جانتے ہی نہ ہونگے تو اُس کے مشکل وقت کا علم کیسے ہوگا اور استطاعت کے باوجود اُس کی مشکل آسان کرنے کی ہمیں توفیق کیسے ہوگی؟ ہمارے اسلاف کا طریقہ یہ تھا کہ دوسرے وقت کے لیے کچھ بچا کر نہیں رکھتے تھے۔

بعض افراد سب کچھ تو کیا تھوڑا بہت بھی ضرورتمندوں کو دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ جو لوگ فراخدل واقع ہوئے ہیں اُن کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہے کہ دست تعاون اُس کی جانب دراز کرتے ہیں جو دست سوال دراز کرتا ہے، اُن لوگوں کی کیفیت جاننے کی کوشش نہیں کرتے جنھیں، ضرورتمند ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرنے کی عادت نہیں یا وہ اشارے کنائے میں اپنی بات کہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا مذہب ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی اور تقسیم ِ دولت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اگر ہم ضرورتمندوں کی اُس طرح مدد کریں جس طرح مدد کرنے کا حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس قوم کی مالی حالت دگرگوں رہے، اس کے نوجوان تعلیم سے بے بہرہ رہیں اور اس کی مجموعی شبیہ پر سوال اُٹھے۔ آج انسانیت درد سے کراہ رہی ہے۔

ایک طرف کچھ لوگ زندگی کی بلند ترین سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں انسان بھوک، پیاس، غربت، جہالت، بے شعوری، بے روزگاری، غلامی اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ طاقتور اقوام آج بھی غریب ملکوں کو زیر نگیں رکھنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔اگر آج کی دنیا 1400 سال قبل حجۃ الوداع کے موقع پر محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کے دیے گئے پیغام جس میں انسانیت، بقائے باہمی اور حقوقِ انسانی پر زور دیا گیا تھا، پر عمل کرے تو جنگ و تباہی سے بچ سکتی ہے اور امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عید الاضحی کی قربانی یہ ہے کہ لے کر ا ہی ہیں کے لیے دیا ہے

پڑھیں:

ایپل صارفین کے لیے گوگل کا نیا فیچر، اہم سہولت دیدی

گوگل نے ایپل کے صارفین کے لیے اپنے انٹرنیٹ براؤزر میں نیا فیچر متعارف کروایا ہے، جس کی مدد سے وہ اپنے ذاتی اور دفتری اکاؤنٹس کے درمیان آسانی سے تبدیلی کر سکتے ہیں۔

یہ سہولت اُن ملازمین کے لیے خاص طور پر مفید ہے جو ذاتی موبائل یا آلات پر دفتر کے وسائل استعمال کرتے ہیں، اس سے قبل صارفین کو ایک اکاؤنٹ سے باہر نکل کر دوسرے اکاؤنٹ میں داخل ہونا پڑتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اوپن اے آئی کا مصنوعی ذہانت پر مبنی براؤزر جلد متوقع، کیا گوگل کروم کا متبادل بن سکتا ہے؟

اب، جیسے اینڈرائیڈ اور کمپیوٹر پر ہوتا ہے، ویسے ہی ایپل کے صارفین بھی نہ صرف آسانی سے اکاؤنٹس تبدیل کر سکتے ہیں بلکہ ہر اکاؤنٹ کا ڈیٹا بھی الگ رہے گا۔

براؤزر ہر اکاؤنٹ کا الگ الگ ڈیٹا جیسے کھلی ہوئی ٹیبز، تلاش کی تاریخ اور محفوظ کیے گئے پاس ورڈز صرف اسی اکاؤنٹ تک محدود رکھتا ہے، جس سے دفتری معلومات ذاتی سرگرمیوں سے محفوظ رہتی ہیں۔

جب کوئی صارف دفتری اکاؤنٹ میں داخل ہوتا ہے یا اسے منتخب کرتا ہے، تو اُسے ایک تعارفی عمل سے گزارا جاتا ہے، جس میں ذاتی اور دفتری اکاؤنٹس کے فرق اور دفتر کی معلوماتی حکمتِ عملی سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کی صارفین کے لیے بڑی سہولت کیا ہے؟

جیسے ہی صارف دفتری اکاؤنٹ پر منتقل ہوتا ہے، اُسے اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ اب ایک منظم تجربے میں داخل ہو رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ، کمپنی نے اپنے ادارہ جاتی نظام کے لیے سیکیورٹی کی نئی سہولتیں بھی شامل کی ہیں۔

اب دفتر کی تکنیکی ٹیمیں دفتری اکاؤنٹس پر غیر ضروری ویب پتے بند کر سکتی ہیں، اور حفاظتی ٹیمیں مختلف آلات سے نگرانی کے ریکارڈ براہِ راست اپنے نظام میں حاصل کر سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ونڈوز صارفین کی تعداد میں 40 کروڑ کی کمی، سبب کیا ہے؟

یہ تمام سہولتیں فی الحال اُن آلات پر دستیاب ہیں جو ادارے کے زیرِ انتظام ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آئی او ایس ایپل صارفین اینڈرائیڈ گوگل کروم

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • وی ایکسکلیوسیو: علی امین گنڈاپور کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کا پیغام اور ڈیل کی آفر آتی ہے، لطیف کھوسہ
  • شام کی دہلیز سے عرب ممالک کو تقسیم کرنے کا خطرناک اسرائیلی منصوبہ
  • اپنا اسلحہ جولانی رژیم کے قبضے میں نہیں دیں گے، شامی کُرد
  • ایران اپنے میزائل اور جوہری پروگرام سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا، صیہونی اپوزیشن لیڈر
  • ایپل صارفین کے لیے گوگل کا نیا فیچر، اہم سہولت دیدی
  • رجب بٹ نے اپنے گھر پر فائرنگ کا ذمہ دار 333 گروپ کو قرار دے دیا
  • موسمیاتی تبدیلی کوئی مفروضہ نہیں، انسانیت کے لیے خطرناک حقیقت ہے، احسن اقبال
  • ہم نے 5 اگست کے حوالے سے عمران خان کا پیغام پی ٹی آئی لیڈرشپ کو پہنچا دیا تھا، علیمہ خان
  • مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ لوگ موسیٰ کو بشریٰ کا بیٹا کیوں کہہ رہے ہیں وہ خاور مانیکا کا بیٹاہے : مریم ریاض وٹو