راولپنڈی: قربانی گوشت دینے کے بہانے آنے والے شخص کی خاتون سے مبینہ زیادتی
اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT
راولپنڈی میں قربانی کا گوشت دینے کے بہانے گھر آنے والے شخص کی خاتون سے مبینہ زیادتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
راولپنڈی پولیس کے مطابق متاثرہ خاتون کی مدعیت میں تھانہ مورگاہ میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
خاتون نے الزام لگایا کہ گزشتہ سہ پہر ساڑھے 3 بجے ملزم گوشت دینے کے بہانے گھر میں داخل ہوا۔
مقدمے کے متن کے مطابق ملزم نے اکیلے دیکھ کر خاتون سے زیادتی کی، 15 پر کال کرنے پر پولیس موقع پر پہنچی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
بلوچستان واقعہ، غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون کی والدہ کا متنازع بیان، مبینہ قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ
کوئٹہ(نیوز ڈیسک)بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں پیش آنے والا غیرت کے نام پر قتل کا افسوسناک واقعہ اس وقت سوشل میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قومی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ڈیگاری غیرت قتل کیس نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا آج کے دور میں بھی رسم و رواج انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں؟
واقعے کی تفصیلات ، ایک المناک کہانی
یہ افسوسناک واقعہ عید الاضحیٰ سے تین روز قبل پیش آیا۔
بانو بی بی اور احسان اللہ کو مبینہ طور پر ایک مقامی قبائلی جرگے کے حکم پر قتل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق پندرہ افراد تین گاڑیوں میں مقتولین کو ایک ویرانے میں لے گئے۔
واردات کے دوران فائرنگ کی گئی اور ویڈیو بھی بنائی گئی، جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
مقتولہ کی ماں کا متنازع بیان
مزید حیرت انگیز پہلو تب سامنے آیا جب مقتولہ بانو بی بی کی والدہ نے ویڈیو بیان میں کہا:
“یہ قتل بلوچی رسم و رواج کے تحت کیا گیا اور یہ سزا تھی۔”
ان کے مطابق بانو کے مبینہ تعلقات ایک لڑکے سے تھے، جس کی ٹک ٹاک ویڈیوز نے گھر والوں کو مشتعل کر دیا تھا۔
انہوں نے سردار شیر باز ساتکزئی سمیت گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ بھی کر دیا۔
یہ بیان سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہے، جہاں لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ماں کو بیٹی کی جان سے زیادہ رسم و رواج عزیز ہو گئے؟
سردار شیر باز کا مؤقف: ’میری سربراہی میں کوئی جرگہ نہیں ہوا‘
سردار شیر باز ساتکزئی، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے جرگے کی صدارت کی، نے بی بی سی اردو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی:
“میری سربراہی میں کوئی جرگہ منعقد نہیں ہوا۔”
“لوگوں نے گاؤں کی سطح پر خود ہی فیصلہ کیا۔”
یہ تضاد کیس کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید قانون سے بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پولیس کی کارروائی اور قانونی پیشرفت
پولیس نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ شامل دفعات:
دفعہ 302 (قتل)
7-ATA (انسداد دہشت گردی ایکٹ)
اب تک کی پیشرفت:
20 افراد گرفتار
11 افراد، جن میں سردار بھی شامل ہیں، ریمانڈ پر ہیں
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
بانو کے قتل پر انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ:
ملزمان کو سخت سزا دی جائے
غیرت کے نام پر قتل کو رسم و رواج سے جوڑنے کا سلسلہ بند کیا جائے
متاثرہ خاندان کو تحفظ اور انصاف فراہم کیا جائے
غیرت کے نام پر قتل: ایک قومی المیہ
پاکستان میں ہر سال درجنوں لڑکیاں اور خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔ ان کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں:
شادی سے انکار
تعلقات کے شبہات
ذاتی دشمنیاں
یہ جرائم اکثر جرگوں یا پنچایتوں کے فیصلوں کی آڑ میں کیے جاتے ہیں، جن کی نہ قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی انسانی بنیادوں پر جواز۔
ہماری ذمہ داری ایک اجتماعی سوچ کی ضرورت
یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں:
قانون کو بالا دستی دیں، نہ کہ قبائلی فیصلوں کو
خواتین کی جان و مال کو تحفظ فراہم کریں
مذہب اور ثقافت کے نام پر ظلم کو جائز نہ ٹھہرائیں
ڈیگاری کیس ایک امتحان ہے – ریاست خاموش نہ رہے
ڈیگاری غیرت قتل کیس صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمارے معاشرتی، قانونی اور اخلاقی رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے آواز نہ اٹھائی تو نہ جانے کتنی “بانو بیبیاں” رسم و رواج کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔