لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 جون2025ء) وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کے مشیر خرم شہزاد نے دنیا بھر کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ معاشی ترقی ہونے کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3 سال میں دنیا بھر میں گروتھ نیچے گئی لیکن پاکستان میں گروتھ بڑھی ہے۔ ایک انٹرویومیں وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے کہا کہ ہمارے پاس مہنگائی میں کمی آئی ہے جب کہ کئی ممالک میں مہنگائی جوں کی توں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہیں نا کہیں کچھ نا کچھ بہتری آئی ہے۔
خرم شہزاد نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں گراوٹ پر کی کئی وجوہات ہیں جن میں پانی اور بارش کی کمی بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پا چکی ہے جب کہ ملکی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔
(جاری ہے)
قومی اقتصادی سروے 25-2024 پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار کی شرح کم ہوئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی کا نمو 2.
8 فی صد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں
اضافہ ہوا ہے، جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشی بحالی کو عالمی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ دو سال قبل (2023ء میں) ہماری مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فی صد سے بلند ہو چکی تھی، جس کے بعد حکومت نے بڑے فیصلے کیے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اب بتدریج بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح کم ہوکر اب 4.6 فی صد پر آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہ رہے ہیں، جس کے لیے کچھ اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں۔ ٹیکس اصلاحات سب کے سامنے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ہے، میں ان کی تعریف کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ انرجی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔
ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں، اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ 1.27ٹریلن روپے کے گردشی قرضے کے حل کے لیے بینکوں سے معاہدہ بھی ہوا ہے۔ نگران حکومت میں ہونے والے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پالیسی ریٹ 22
فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگیا ہے۔ 24 ایس او ایزکو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا ہے۔ پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی۔
پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جاچکے ہیں ۔ لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 43 وزارتیں اور 400 اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے۔ بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے۔ اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں۔ ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلات زر میں اصافہ ہوا ہے۔ 37 سے38 ارب ڈالر اس سال ترسیلات زر رہنے کا امکان ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ مسلسل گروٹ کا شکار رہی ہے، ہماری جی ڈی پی دو ہزار تیس میں منفی میں تھی، رواں سال جی ڈی پی کی گروتھ 2.7 فیصد ہے، عالمی مہنگائی میں اضافے کے باوجود ہماری مہنگائی میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری ملک میں مہنگائی 4.6 فیصد تک گرچکی ہے، رواں سال تک شرح سود میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے نگران سے پہلے ایس بی اے کے ذریعے اچھے فیصلے کیے۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے معاشی میدان میں اچھے اقدامات لیے گئے، جولائی سے مئی کے دوران چھبیس فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے، چوہتر فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب قرضے مزید نہیں لینے چاہتے اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، صنعتوں کی گروتھ میں چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں دو فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبے محض 0.6 فیصد تک بڑا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اصلاحات کی ہیں۔
ہر ٹرانسفارمیشن کے لیے 2 سے 3 سال درکار ہوتے ہیں۔ پاور سیکٹر اصلاحات میں ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بہتری آئی ہے۔ رواں مالی سال امپورٹس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشینری کی امپورٹ 16.5 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مشینری کی امپورٹ میں اضافہ معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔جون کے آخر تک 37 یا 38 ارب ڈالر تک ریکارڈ ہوں گی۔
2 سال کے دوران ترسیلات زر میں تقریباً 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ رواں مالی سال انفرادی فائلرز کی تعداد میں دگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے آئندہ اپنی شرائط پر قرض لے گی۔ پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر11 فیصد پر آگیا ہے۔
قرضوں کی شرح68فیصد سے کم ہوکر65 فیصد پر آ چکی ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد معاشی استحکام لانا ہے۔ ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکس ٹوجی ڈی پی5 سال کی بلندترین سطح پرپہنچ گیا، ٹیکس اصلاحات میں ٹیکنالوجی کا بہت استعمال ہے۔
اب تک کی کارکردگی بہتر ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے آئی ایم ایف بورڈ میں پاکستان کی شدید مخالفت کی۔ بھارت کی کوشش تھی کہ آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس نہ ہو۔ بھارت کی کوشش تھی آئی ایم ایف بورڈ میں پاکستان کے ایجنڈے کو شامل نہ کیا جائے ، مگر پاکستان نے آئی ایم ایف شرائط پر مکمل عملدرآمد کیا ۔
وزیر خزانہ کے مطابق پاسکو کرپشن کا گڑھ تھا، ہم نے اچھا فیصلہ کیا اور اس سے نکل گئے ہیں۔ درآمدات میں 16 فیصد اضافے کی وجہ زرعی شعبے کی مشینری کی درآمدات میں اضافہ ہے۔ موڈیز کا آؤٹ لک پاکستان سے متعلق بہتر ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی حالیہ قسط نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام ثابت کردیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاک فورسز نے بھارت کو جو شکست دی ہے، اسی طرح معاشی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی۔
بھارت کے اکنامک ڈائریکٹر نے بہت کوشش کی کہ اجلاس نہ ہو اور اگر ہو تو ہمارا معاملہ ایجنڈے پر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس اگست میں ہوگا ۔ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا فارمولا تبدیل کرنے پر غور ہوگا ۔ صوبوں سے مشاورت ہوگی۔ اگر پاکستان کی آبادی 40 کروڑ تک پہنچ گئی تو کیا ہوگا ؟ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ1.9ارب ڈالر سرپلس رہاہے۔
جون تک ترسیلات زر38ارب ڈالرتک جانے کا امکان ہے جب کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس8لاکھ سے تجاوز کرگئے،ان کردار اہم ہے۔ جولائی سے مئی تک ٹیکس ریونیو میں 26فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس فائلرز37لاکھ سے تجاوز کرگئے۔ ہائی ویلیو فائلرزمیں178فیصداضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران سکوک اور طویل مدتی قرضوں کی میچورٹی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ہم قرض بہ لحاظ جی ڈی پی کو 65فیصد سے نیچےلانا چاہتے ہیں، ڈیبٹ منیجمنٹ آفس کو بہتر بنارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال کے دوران انڈسٹری کی گروتھ4.8فیصد رہی، کیمیکلز،آئرن اسٹیل کے شعبے نیچے گئے ہیں۔ سروسز کے شعبے نے2.9فیصد پر گروتھ کی۔ پچھلے سال یہ2.2فیصد تھا، انفارمیشن اور کمیونیکیشن شعبے نے6.5فیصد پر گروتھ کی۔ اسی طرح کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ3.5فیصد،فوڈ سروسز4.1فیصد اضافہ ہوا۔
ٹرانسپورٹ بھی بڑھی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ زراعت نے0.6فیصد گروتھ کی، لائیواسٹاک نے4.7فیصد پر گروتھ کی جب کہ ہدف 3فیصد تھا۔ رواں مالی سال کے دوران چاول، مکئی سمیت بڑی فصلوں میں حکومتی مداخلت ختم کی، زرعی شعبےکےقرضوں میں بھی اضافہ ہوا، زرعی قرضے2 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے بھارت کیخلاف اپنا لوہا منوایا ہے۔
دوسری طرف اقتصادی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی۔ معاشی سکیورٹی قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لوکل سرمایہ کار آئیں گے تو غیرملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ ایس آئی ایف سی پر توجہ ہے،یہ گیم چینجر ثابت ہوگا۔ ہمارامقامی وسائل پر دارومدار ہونا چاہیے۔ اگلےسال ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے منصوبے شروع کریں گے۔
اقتصادی سروے پیش کرنے کے دوران سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ جتنا اخراجات پر کٹ لگایا ہے اس سے زیادہ کٹوتی ممکن نہیں تھی۔ آپ کل بجٹ میں دیکھیں گے۔ مالیاتی خسارہ بھی 2022 کا دیکھیں اور آج کا دیکھیں تو واضح فرق نظر آئے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم پرائمری سرپلس کی بات کرتے ہیں۔ اگر پرائمری سرپلس کا نمبر اتنا زیادہ ہے تو پھر یا ریونیو بہت بڑھ گیا ہے یا اخراجات بہت کم ہوگئے ہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 14 فیصد تک لے کر جانا ہے۔ہمارے ہمسایے ملک بھارت میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 18 فیصد ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ
وزیر خزانہ نے کہا کہ
محمد اورنگزیب نے
انہوں نے کہا کہ
نے کہا کہ ہم
نے بتایا کہ
وفاقی وزیر
ترسیلات زر
میں گروتھ
کی گروتھ
ارب ڈالر
کے دوران
جی ڈی پی
فیصد تک
ہوئی ہے
کے شعبے
فیصد سے
فیصد پر
رہے ہیں
رہی ہے
کے لیے
کی شرح
پڑھیں:
ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔