’نوجوان ٹک ٹاکرثناء یوسف کو ‘ناں’ کہنے کی سزا دی گئی، مردانہ برتری کی سوچ کے تحت تشدد نیا نہیں’
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
خاتون اول اور قومی اسمبلی کی رکن، بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں 16 سالہ طالبہ ثناء یوسف کے بہیمانہ قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ثناء یوسف کو اُس کے 17ویں جنم دن کی شام کو قتل کیا گیا، بی بی آصفہ نے اس واقعے کو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صرف اپنے حقوق کا اظہار کرنے پر ہونے والے تشدد کی ایک دردناک یاد قرار دیا۔
انہوں نے ثناء کے ورثاء، برادری اور اس الم ناک سانحے پر غمزدہ تمام افراد سے دلی تعزیت کا اظہار کیا۔
بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ “ثناء یوسف کو خواب دیکھنے، ترقی کرنے اور ایک روشن مستقبل کا حق حاصل تھا، اسے آزاد اور محفوظ زندگی جینے کا پورا حق تھا۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا، وہ محض ایک پرتشدد واقعہ نہیں بلکہ ‘ناں’ کہنے کی سزا تھی اور یہ ہم سب کے لیے باعثِ شرم ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی کہ مردانہ برتری کی سوچ سے جنم لینے والا تشدد کوئی نیا یا غیر معمولی مسئلہ نہیں، لیکن اب اسے ثقافت یا روایت کے نام پر مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا اور یہ سوچ کہ عورت کی ناں کو توہین سمجھا جائے، کہ اس کی مرضی کو قابو میں رکھا جائے—یہ دقیانوسی ہے، ظالمانہ ہے، اور ہماری بیٹیوں کو قتل کر رہی ہے۔
میری والدہ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے جبر کی ان دیواروں کو اپنی طاقت سے توڑا۔ وہ صرف لیڈر نہیں تھیں بلکہ انہوں نے بطور سماجی مدبر لاکھوں عورتوں کے لیے راستے کھولے۔ آج ہم پر لازم ہے کہ اُن کے ورثے اور ثناء یوسف جیسی بیٹیوں کی خاطر یہ دروازے کھلے رکھیں۔”
ثناء یوسف کے جاں بحق ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کے خلاف کی جانے والی کردار کشی پر بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے شدید افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے یہ مؤقف رد کیا کہ کسی بھی لڑکی کی سوشل میڈیا موجودگی کو اس کے قتل کا جواز بنایا جا سکتا ہے، “کوئی موبائل فون ایپلی کیشن، کوئی تصویر، کوئی ویڈیو—کبھی بھی کسی قتل کا جواز نہیں بن سکتی۔ یہ پریشان کن ہے کہ کچھ لوگ ثناء کے ٹک ٹاک کے استعمال کو اس کے قتل کی توجیہہ بنا کر پیش کررہے ہیں۔
اگر یہ دلیل مان لی جائے تو کیا پاکستان کی کروڑوں لڑکیاں خطرے میں ہیں؟ یہ سوچ صرف خطرناک نہیں بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔” بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے ملک بھر کی نوجوان لڑکیوں کو حوصلہ دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ “ہر اس لڑکی کے لیے جو یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے—خود کو خاموش مت ہونے دے۔
پاکستان کی ہر لڑکی کو خواب دیکھنے، بات کرنے، اور بے خوف زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔ میری بہنوں، آپ ثنایوسف کے واقعے سے خوف زدہ نہ ہوں بلکہ اگر ڈر کر آپ پیچھے ہٹیں گی تو نفرت کی سوچ والے جیت جائیں گے لیکن اگر ہم اکٹھے آگے بڑھتے رہے، تو ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں بیٹیوں کو اُن کی موت پر نہیں بلکہ اُن کی زندگی پر سراہا جائے گا۔
First Lady and Member of the National Assembly, Bibi @AseefaBZ strongly condemns the brutal murder of 16-year-old Sana Yousuf in Islamabad.
Read More: https://t.co/spQlRbtHnl pic.twitter.com/SRNCq1UR5N — PPP (@MediaCellPPP) June 10, 2025
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے ثناء یوسف انہوں نے
پڑھیں:
سیلاب کی روک تھام، حکمت عملی کیا ہے؟
ملک کے مختلف علاقوں میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 250 افراد سے زائد ہوچکی ہے۔ تاحال کئی مقامی سیاح لاپتہ ہیں، مری، گلیات،کشمیر اورگلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ اور ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے۔ ساڑھے چار لاکھ کیوسک کا بڑا سیلابی ریلا تونسہ سے گزر رہا ہے، انتظامیہ نے آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے اعلانات کروائے ہیں۔
وطن عزیز ان دنوں ایک ایسی آزمائش سے گزر رہا ہے جو صرف فطری آفات کی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی بھی غماز ہے۔ شدید بارشوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اس کے نتیجے میں جو تباہی ہمارے دیہی و شہری علاقوں میں برپا ہوئی ہے، وہ کسی بھی ذی شعور دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع، مال و متاع کی بربادی، کھڑی فصلوں کی تباہی، مکانات کا گرنا اور مواصلاتی نظام کی درہم برہم صورتِ حالیہ سب کچھ ہمیں صرف قدرت کے قہر کا نہیں، بلکہ اپنی کوتاہیوں کا بھی آئینہ دکھاتا ہے۔
بارشوں کے تسلسل سے دریاؤں کا جوبن خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ خاص طور پر دریائے سندھ، جو ماضی میں بارہا اپنی بے قابو موجوں سے سندھ کو اجاڑ چکا ہے، ایک بار پھر غضبناک صورت اختیار کرسکتا ہے، سیلاب محض پانی کی زیادتی نہیں، بلکہ یہ معیشت کی بربادی، غربت کی شدت، اور انسانی المیے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ کسان جو پہلے ہی مہنگائی، پانی کی قلت اور زرعی مداخل کی قیمتوں سے نڈھال ہیں، وہ اب کھیت کھلیان پانی میں ڈوبتے دیکھ رہے ہیں۔
شہروں میں چھتیں گر رہی ہیں، سڑکیں نالوں میں بدل گئی ہیں اور کاروبار زندگی مفلوج ہو چکا ہے۔ موسم کی یہ سختی محض فطرت کا فیصلہ نہیں، بلکہ اس میں انسان کے خود ساختہ اعمال کا بھی عمل دخل ہے۔ قدرتی نظام میں خلل ڈال کر ہم نے خود اپنے لیے مصیبتوں کا بازار گرم کیا ہے۔ اربنائزیشن کی دوڑ میں دریاؤں کے قدرتی راستے بند کردیے گئے، جنگلات کاٹ دیے گئے، پہاڑ کھود دیے گئے اور آبی ذخائر کو نظر انداز کیا گیا، نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
دریاؤں کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر دریائے سندھ، جو پاکستان کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے، اب غضبناک موجوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ جب سندھ پر سیلاب کا قہر ٹوٹتا ہے تو اس کی تباہ کاری صرف مقامی نہیں رہتی، بلکہ اس کے اثرات پورے ملک کی معیشت، فوڈ سیکیورٹی اور سیاسی ماحول تک پھیل جاتے ہیں۔
یہ المیہ صرف سندھ کا نہیں، بلکہ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں بارشیں کہیں زمین کی زرخیزی بن کر برستی ہیں، وہیں جب ان کی شدت حد سے تجاوز کرتی ہے، تو زمین بھی انسان کی طرح بغاوت پر اُتر آتی ہے۔ مٹی کٹنے لگتی ہے، پہاڑ کھسکنے لگتے ہیں، درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں اور بستیاں ملیامیٹ ہو جاتی ہیں۔
ندی نالوں اور برساتی راستوں کی مستقل صفائی اور نگرانی کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ شہروں کے اندر نکاسی آب کے نظام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، خاص طور پر کراچی، لاہور، ملتان، اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں چند گھنٹوں کی بارش پورے شہر کو پانی میں ڈوبا ہوا دکھاتی ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ حادثہ نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی، کرپشن، اور غفلت کی داستان ہے، جس کا انجام عوام بھگت رہے ہیں۔
معاشی لحاظ سے بھی سیلاب ایک بھیانک خواب ہے۔ ایک طرف زرعی زمینیں پانی میں ڈوبتی ہیں، تو دوسری جانب کسان اپنے قرضوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ کھاد، بیج، مشینری اور زرعی ادویات کی پہلے ہی آسمان کو چھوتی قیمتیں، جب فصل کے تباہ ہو جانے کے بعد بھی معاف نہ کی جائیں، تو کسان کو اس ملک میں جینے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ہمیں ایک ایسا زرعی و مالیاتی نظام تشکیل دینا ہوگا جو قدرتی آفات کے متاثرین کو فوری سہارا دے، تاکہ وہ دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہو سکیں۔
2010 اور 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلابوں نے سندھ کو جس معاشی، زرعی، اور سماجی تباہی سے دوچار کیا تھا، اس کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ 2022کے سیلاب میں صرف سندھ میں 800 سے زائد اموات ہوئیں اور 12.3 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔ اُس وقت صوبے کے 23 میں سے 21 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے تھے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں، اور ہزاروں اسکول، اسپتال، سڑکیں اور پل مکمل یا جزوی طور پر برباد ہو چکے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان سانحات سے کچھ سیکھا؟ کیا 2022 کے بعد کوئی جامع منصوبہ بندی کی گئی؟ کیا برساتی نالوں کی صفائی مستقل بنیادوں پر ہوئی؟ کیا سندھ میں موجود قدرتی آبی گزرگاہوں پر تجاوزات ہٹائی گئیں؟ کیا جدید سیلاب پیشگی انتباہی نظام (Early Warning Systems) کو موثر بنایا گیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔
پہلا اور سب سے اہم قدم یہ ہونا چاہیے کہ سندھ کے تمام اضلاع میں ماحولیاتی نقشہ سازی (Environmental Zoning) کی جائے تاکہ یہ طے ہو سکے کہ کون سے علاقے سیلاب کے لیے حساس ہیں۔ ان علاقوں میں مستقل بنیادوں پر آبادی کو روکنا یا مخصوص تعمیراتی ضوابط نافذ کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ نالوں، برساتی راستوں اور دریائی حفاظتی بندوں کی سالانہ صفائی اور مرمت کا عمل صرف کاغذی کارروائی نہ ہو بلکہ شفافیت سے مکمل کیا جائے۔ سندھ کے کئی اضلاع میں برساتی پانی کے لیے مخصوص راستے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات سے بند ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ریور ری کلیمیشن (River Reclamation) پروجیکٹس کی فوری ضرورت ہے۔ تیسرا قدم ڈرینج ماسٹر پلان کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد ہے، خاص طور پر کراچی، حیدرآباد اور سکھر جیسے شہروں میں، جہاں شہری سیلاب (Urban Flooding) ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے، اگر حکومت صرف ان تین شہروں کے نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کر دے، تو آدھے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
چوتھا اہم اقدام یہ ہے کہ سندھ میں چھوٹے ڈیمز اور رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹمز کو فروغ دیا جائے۔ تھرپارکر، عمرکوٹ، جامشورو اور دادو جیسے اضلاع میں اگر بارش کا پانی محفوظ کر لیا جائے تو نہ صرف سیلاب کے خطرات میں کمی آئے گی، بلکہ پینے کے پانی اور زراعت کے لیے بھی انقلابی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں، مساجد، اور کمیونٹی سینٹرز کو سیلاب آگاہی مراکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو تربیت دی جائے کہ بارشوں کے دوران کن احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے، کہاں پناہ لینا ہے، اور کس نمبر پر مدد کے لیے رابطہ کرنا ہے۔ یہ شعور وقتی نہیں بلکہ مسلسل مہم کے تحت اجاگر کیا جانا چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ میں سیلاب سے بچاؤ اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کو پہلی ترجیح دے۔ 2024-25 کے صوبائی بجٹ میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص رقم کل بجٹ کا صرف 1.4 فیصد تھی، جو ایک مذاق سے کم نہیں۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تناسب 5 سے 7 فیصد تک بڑھانا ہوگا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی سندھ کو مدد حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور کلائمیٹ رسک انشورنس اداروں کے ساتھ فوری اشتراک کی ضرورت ہے۔ 2022 میں UNDP اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی مدد سے سندھ میں کچھ منصوبے شروع کیے گئے تھے، مگر وہ ناکافی تھے اور ان کا دائرہ بہت محدود تھا۔ صرف حکومت نہیں، بلکہ عوام، میڈیا، تعلیمی ادارے، اور کاروباری برادری سب کو مل کر اس ماحولیاتی چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ وقت الزامات کا نہیں، اقدامات کا ہے۔ ہمیں اب ماضی کی غفلتوں کو دفن کر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، ورنہ ہر سال بارشیں آئیں گی، اور ہم ان کے ساتھ بہتے چلے جائیں گے۔
سیلاب کی روک تھام کے لیے ہمیں ایک کثیرالجہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں پانی کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنے کے لیے ڈیمز اور واٹر ریگولیشن سسٹمز کی فوری تعمیر کرنا ہوگی۔ کالا باغ ڈیم جیسے متنازع منصوبوں پر صرف سیاست کرنے کے بجائے، ہمیں قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔ بڑے اور چھوٹے ڈیمز نہ صرف پانی ذخیرہ کرنے میں مدد دیں گے بلکہ وہ زمینوں کی سیرابی، بجلی کی پیداوار، اور سیلاب کے خطرات میں بھی نمایاں کمی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ حکومت تمام سطحوں پر سیلاب سے بچاؤ کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ یہ کام محض ایک وزارت یا ادارے کے بس کی بات نہیں، بلکہ ایک قومی ایمرجنسی کی مانند تمام محکموں، شعبوں اور اسٹیک ہولڈرز کو یکجا ہو کر مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر مربوط اور ہم آہنگ حکمت عملی ہی سیلاب جیسے عفریت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔