تاجروں اور صنعت کاروں نے بجٹ 2025-2026 پر تحفظات کا اظہار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
کراچی، لاہور اور پشاور چیمبرز نے وفاقی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے زراعت سمیت مختلف شعبوں میں سبسڈی نہ دینے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی تاجر اور صنعتکار برادری نے وفاقی بجٹ کو مبہم قرار دیتے ہوئے معاشی ترقی کی شرح نمو اور ٹیکس وصولیوں کے بلند اہداف پر سوال اٹھادیے۔
کراچی چیمبر آف کامرس میں وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کیموفلاج ہے جب گزشتہ سال کے معاشی ترقی اور شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے، زراعت نے پست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آئندہ مالی سال کے بلند اہداف کی بنیاد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے ایف بی آر کو مزید سختی کرنے کا اختیار دے دیا گیا یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کا ہدف کیوں پورا نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کوئی معاشی منصوبہ نہیں دے سکی کہ کس طرح معاشی نمو بڑھے گی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ میں محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لیے سختیوں کے علاؤہ کچھ نہیں، بجٹ میں اصلاحات کی بات نہیں کی گئی جبکہ ریونیو بڑھانے کے لیے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی تجارت سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروع پر کوئی بات نہیں کی گئی پاکستان کی مسابقت کو آسان بناکر ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ صنعتیں نہ لگیں تو بڑھتی ابادی کو کیسے روزگا دیا جائے گا، بجلی مہنگی کرکے ایکسپورٹ نہیں بڑھائی جاسکتی ۔ بجٹ دستاویزات میں معاشی اہداف حاصل کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کی کارکردگی بہت پست رہی اس کی کیا وجوہات ہیں بڑی فصلوں میں نقصانات کو امپورٹ کرکے پورا کرنا پڑے گا، پی ایس ڈی پی کے اندر بڑی کٹوتیاں کی گئیں ایک ہزار ارب روپے کا وفاقی پی ایس ڈی پی ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے ماحولیاتی آلودگی سے اس کے لیے بھی پانچ ارب روپے کا بجٹ ناکافی ہے۔ ایس آئی ایف سی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا میں سمجھتا ہوں کہ پروگریسو بجٹ ہے نئے اقدامات کیے گئے ٹیکنالوجی اور اصلاحات کے لحاظ سے معیشت کیسے ترقی کرے گی عام طبقے تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے ان سوالات کا جواب بجٹ میں نہیں ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس جاوید بلوانی نے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کی ترقی اور ایکسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کہا گیا لوگ اپنی بجلی کے کنکشن کروارہے ہیں پچاس فیصد تنخواہیں بجلی اور ٹرانسپورٹ میں خرچ ہورہا ہے مہنگائی کم کرنے کے لیے کیا کیا گیا، زراعت صوبوں کی زمہ داری ہے اب وفاق کے کنٹرول میں تو پہلے بھی نہیں تھا، کپاس کی پیداوار نوے کی دہائی سے بھی کم ہے، توانائی اور ٹیکس کی لاگت، شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایس ای ایف ایس اسکیم کہ وجہ سے کچھ ایکسپورٹ بڑھی ہے اس کو بھی اب خراب کیا جارہا ہے جب ایکسپورٹ بڑھتی ہے حکومت کوئی نہ کوئی اقدام کرکے ایکسپورٹ گراتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل کو وفاقی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.
اُن کا کہنا تھا کہ کراچی سے پچاس فیصد کم ابادی والے شہروں کے لیے کراچی سے زیادہ بجٹ رکھا گیا، ہم نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے بہت سی تجاویز دیں لیکن نہیں مانی گئی جبکہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی گئی برین ڈرین روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
مہنگائی میں اضافہ روکا گیا اسے مائنس میں لانا ضروری ہے بجٹ کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں 38 ارب ڈالر کی ترسیلات شامل کیے بغیر بجٹ بناکر دکھائیں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے۔
کراچی چیمبر کے صدر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے اس کے ثمرات عوام تک کیسے منتقل ہوں گے۔
سابق بیوروکریٹ محمد یونس ڈھاگا نے کہا کہ بجٹ توقعات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی 3.6 فیصد جی ڈی پی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو 4 فیصد سے زائد کیسے ہوگا، نمو کے ہدف کے لیے کوئی صنعتی پلان نہیں زراعت اور آئی ٹی کی ترقی کا بھی پلان نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس اہداف اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا رئیل اسٹیٹ سے ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی کی گئی تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا بجٹ میں ایکسپورٹ کو ریلیف نہیں دیا گیا۔
لاہور چیمبر کے صدر نے بجٹ میں دفاع کے شعبے کیلیے مختص رقم میں اضافے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا اور ضم اضلاع پر جو 10 فیصد ٹیکس لگایا ہے اس سے ملک کی بزنس کمیونٹی کے تحفظات دور ہوئے ہیں۔
صدر لاہور چیمبر ابو ذر شاد نے کہا کہ حکومت نے ایک کامرس کو ٹیکس نیٹ میں لا کر بہترین کام کیا ہے، پانی کے منصوبوں کے لئے جو بجٹ رکھا گیا ہے اسکو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جتنی جلدی پانی کے منصوبے مکمل ہوں گے ،اس سے ملکی کو فائدہ ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سپر ٹیکس میں کمی ہوئی ہے ،ہمیں اس پر حکومت سے زیادہ امیدیں تھیں، ٹیکس کسٹم ڈیوٹی کم ہو رہی ہے، کاٹن انڈسٹری کے لئے بھی حکومت کو ریلیف دینا چاہیے تھا۔
ابو ذر شاد نے کہا کہ جب تک بجٹ کی تفصیلات نہیں ملیں گی ابھی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، بیوکریسی اچھے خاصے کاروبار کو تباہی سے دو چار کر دیتی، وہی کاروبار پرائیوٹ سیکٹر میں بڑھتا ہے، رئیل اسٹیٹ میں کم کرنے سے عوام کو فائد ہ ہو گا ، لاگ بروقت رجسٹریاں کروائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 50 کروڑ تک کے کاروبار کے لئے بجٹ تقریر کوئی ریلیف نہیں آیا ہے، تنخواہ دار طبقے کے لئے جو ٹیکس کم کیا گیا ،یہ بھی اچھا قدم ہے، 15 ہزار سے زیادہ پٹرول پمپ ہیں ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، پٹرول پمپس پر کیرے لگا کر مانیٹرنگ کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اکانومی ڈاکیومنٹ کرنا ہے تو 5 ہزار ، ایک ہزار والے کو بند کرنا پڑے گا، آئی پی پیز جس پر 24 ہزار ارب روپے خرچ کر چکے ہیں اس پر بجٹ تقریر میں کوئی پالیسی نظر نہیں آئی، ایف بی آر کے ٹیکس کولیکشن میں 1200 ارب روپے کا خسارہ آیا۔
ابو ذر شاد نے کہا کہ وفاقی وزرا کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کوارڈینیشن بہتر نہیں ہے، جو وزیر 400 ارب کا نقصان کرکے بیٹھا ہے اسکو فارغ کرنا چاہیے۔
تاجر رہنما میاں انجم نثار نے کہا کہ جب بجٹ دیا جاتا اس میں ڈائریکشن ہوتی ہے، اس بجٹ میں کوئی ڈائریکشن نظر نہیں آرہی، انڈسٹری اور زراعت کے لئے بھی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ ملک آئی ٹی انڈسٹری کی اسپیڈ بھی کم ہوئی ہے حکومت کی اس پر کوئی توجہ نہیں جبکہ اس انڈسٹری سے ہماری 3.1 ارب کی برآمدات ہیں، آئی ٹی سیکٹر میں انڈیا ،سری لنکا سمیت دیگر ممالک آگے نکل گئے ہیں۔
میاں انجم نے کہا کہ جو لوگ پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان سے مزید ٹیکس لیا جارہا ہے، ایف بی ٹیکس نیٹ بڑھانے میں ناکام رہا۔ یں نہیں سمجھتا اس پالیسی سے ملک میں انویسٹمنٹ آئے گی۔
سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی بجٹ میں جو چھوٹے تاجروں پر بجٹ میں ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جسے مسترد کرتے ہیں، بجلی اور گیس مہنگی کرنے سے غریب عوام پر بوجھ مزید بڑھے گا۔
بجٹ تقریر کے بعد سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی سے مشاورت کے بعد وفاقی بجٹ پر بیانیہ جاری کرینگے، ان کا کہنا تھا بجٹ کیلئے وفاقی وزیر خزانہ کو تجاویز دی تھیں، ان پر عمل درآمد کا جائزہ لے کر تفصیلی مؤقف جاری کریں گے۔
ان کا کہنا تھا وفاقی بجٹ میں فاٹا پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ ایف بی آر کے قوانین سے انڈسٹری کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا جائے گا۔
اس موقع پر غضنفر بلور کا کہنا تھا کہ 18 فیصد سولر پینل پر ٹیکس لگایا گیا جبکہ پٹرول پر بھی غریب عوام سے ٹیکس لیا جائے گا جو کہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ پہلے سے چھوٹے کارخانہ دار رو رہے ہیں اور ان پر مزید ٹیکس لگایا گیا جس کی وجہ سے ملک سے مزید کارخانے دیگر ممالک کو منتقل ہوجائینگے، انکا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ میں غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے پختونخوا کے تاجر برادری اس بجٹ کو یکسر مستردکرتی ہیں۔
سرحد چیمبر آف.کامرس کے سینئر ممبر جلیل جان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سنیٹرز اور قامی اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں 400 فیصد اضافہ کردیا انکا کہنا تھا کہ کوڈ بار کے بغیر سامان کے ضبظ کا فارمولا بھی ظلم کی انتہا ہے انکا کہنا تھا کہ صوبے کے چھوٹے اور بڑے کاروباری طبقہ اس وفاقی بجٹ کو یکسر مستردکرتی ہیں اور ایک بار پھر حکومت سے اپیل کرتی ہیں کہ اس بجٹ کو دوبارہ ریوو کیا جائے .
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ میں بڑھانے کے لیے انکا کہنا تھا نے کہا کہ بجٹ نہیں دیا گیا ریلیف نہیں کہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ کچھ نہیں کہ وفاقی ارب روپے سے زیادہ کیا گیا نہیں کی کا ہدف سے ملک بجٹ کو کے صدر کے لئے ایف بی کی گئی
پڑھیں:
ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-4
معوذ اسد صدیقی
ممکن ہے ممدانی منافقت کر رہے ہوں، یا جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں اس پر خود پورا یقین نہ رکھتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی سوچ کو عملی جامہ پہنانا ان کے بس کی بات نہ ہو۔ ممکن ہے کہ شور دریا میں ہو اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نیویارک کے ناکام ترین میئر ثابت ہوں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج وہ مقبولیت کا دوسرا نام بن چکے ہیں۔ بلکہ دنیا کے مقبول سیاستدانوں میں ان کا شمار ہونے لگا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں کئی روز تک اس مقبولیت کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہا۔ 31 سالہ رکن اسمبلی ممدانی کو مختلف مواقع پر خطاب کرتے دیکھا، تو ہمیشہ ایک سنجیدہ، باشعور اور باوقار انداز نمایاں نظر آیا۔ خاص طور پر جب بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے، ظہران ممدانی نے اپنی سیاسی حیثیت کی پروا کیے بغیر کھل کر اسرائیل کے جرائم کے خلاف آواز بلند کی۔ اْس وقت بہت کم لوگوں نے ان کے اس جرأت مندانہ مؤقف پر توجہ دی۔
مجھے بخوبی یاد ہے کہ ایک موقع پر ان کے حلقے کی ایک مسجد میں ہمیں اسکول بیگ تقسیم کرنے تھے۔ میں نے اس سلسلے میں ممدانی کے دفتر سے رابطہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ وہ بھی اس مہم میں شریک ہوں۔ وہ فوراً رضامند ہوگئے۔ لیکن جب میں نے مسجد کی انتظامیہ کو بتایا کہ میں ظہران ممدانی کو مدعو کر رہا ہوں، تو ابتدا میں اْنہوں نے کچھ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ ممدانی کے چند خیالات مین اسٹریم مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ میں نے وضاحت کی کہ میں اْن سے بات کر چکا ہوں۔ میں انہیں ذاتی طور پر دعوت دے چکا ہوں، اور دوسرا یہ کہ فلسطین کے مسئلے پر اْن کا مؤقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔
آخرکار، مسجد کی انتظامیہ نے وسعت ِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اْن کا خیرمقدم کیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اْس وقت بہت کم لوگ اْنہیں پہچانتے تھے، حالانکہ وہ اسی علاقے کے منتخب نمائندہ تھے۔ ہم دونوں نے مل کر اسکول بیگ تقسیم کیے، اور اْس لمحے کوئی خاص ہجوم یا میڈیا کی توجہ نہیں تھی۔ ان سے میری ملاقات مسجدوں، مسلم کمیونٹی کے اجتماعات کے علاوہ کہیں نہیں ہوئی اس لیے سوچتا رہا کہ ان کی مقبولیت کی بنیاد صرف مسلمان ہونا، سوشلسٹ ہونا، پرکشش شخصیت یا خوبصورت مسکراہٹ نہیں ہے۔ مگر گزشتہ روز کے جلسے نے میری تمام سابقہ تشریحات بدل دیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ میرے گھر سے صرف دو میل دور جس اسٹیڈیم میں خطاب کرنے جا رہے تھے وہ بہت بڑا نہ ہوگا؛ کیونکہ میں بھی کبھی وہاں نہیں گیا تھا۔ مگر جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ درحقیقت تیرہ ہزار افراد گنجائش رکھنے والا اسٹیڈیم تھا۔ دیکھا کہ لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں آرہے ہیں ہزاروں لوگ داخل ہونے سے قاصر رہ گئے۔ جلسے میں جانے سے قبل میرا خیال تھا کہ وہاں شرکاء کی اکثریت بنگلا دیشیوں پر مشتمل ہوگی، اس کے بعد پاکستانی، پھر گورے، ہسپانوی اور دیگر قومیتوں کے افراد ہوں گے۔ یہ اندازہ اس لیے تھا کہ اس انتخابی مہم میں بنگلا دیشی کمیونٹی نے غیر معمولی طور پر سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو منظر بالکل مختلف تھا۔ توقعات کے برعکس، سامعین میں نسل، رنگ اور قومیت کا ایسا حسین امتزاج تھا جو نیویارک کے بدلتے سیاسی مزاج کا آئینہ دار تھا۔ جلسے میں خطاب کے لیے گورنر ہوگو اور اسپیکر کارل یسٹی کی طرح کی روایتی سیاسی شخصیات بھی تھیں، مگر جب انہوں نے خطاب کیا تو سامعین نے ان کا خیرمقدم نہیں کیا؛ ان کے نعروں سے بڑھ کر ایک ہی صدا بلند ہوئی: ’’امیروں پر ٹیکس لاؤ‘‘۔
یہ منظر واضح کر گیا کہ ممدانی کی مقبولیت خود ممدانی کی نہیں؛ بلکہ اس نظام کے خلاف ایک اجتماعی نفرت، ایک ناخوشگوار بے چینی ہے۔ ہم جیسے بہت سے مہاجرین اور وہ لوگ جو ماضی میں نسبتاً کم توقعات کے ساتھ یہاں آئے تھے، معمولی بہتری پر خوش ہوجاتے ہیں؛ مگر جن نوجوانوں نے یہاں جنم لیا، جنہوں نے خواب دیکھے، ان کی زندگی مشکلات میں پھنستی جا رہی ہے۔ مہنگائی، روزگار کے مسائل، بے بسی، درمیانی طبقے کا خاتمہ اور امیروں کا مزید امیر بننا یہ وہ کیفیات ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو ناراض کیا ہے۔ یہ غم و غصہ اور بے چینی زبانی شکل میں ظہران ممدانی کے نعروں کے ذریعے نمودار ہوئی۔ وہ تبدیلی کا نعرہ دے رہے ہیں۔ ایسا نعرہ جو نسل، مذہب اور رنگ سے بالاتر ہو کر لوگوں کو متحد کر رہا ہے۔ نوجوان ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے ورکرز کے ساتھ کھڑے ہیں اور روایتی سیاست دان پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض روایتی پارٹی لیڈرز مجبور ہو کر ممدانی کی حمایت کرنے پر راغب ہوئے یا انہیں انڈورس نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ مقابلے کا خدشہ لاحق ہوا۔
یہ معاملہ مسلمانوں یا سوشلسٹس کا نہیں؛ معاملہ تبدیلی کا ہے۔ اس تبدیلی کا جو امتیازی، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ ایسا رجحان ہم نے دنیا کے مختلف حصوں میں بھی دیکھا ہے۔ نوجوان نسل کی بغاوت، مطالباتِ انصاف اور نظام سے ناپسندیدگی۔ شاید یہ وہی جذبہ ہے جس نے کہیں یا دیگر مقبول تحریکوں کو جنم دیا، نعرہ دیا گیا اور لوگوں نے اس نعرے کے پیچھے کھڑا ہونا شروع کر دیا۔ یقینا اس راستے میں مشکلات اور غیر یقینی کا پہلو موجود ہے۔ انتخابات میں کامیابی بسا اوقات ایک آزمائش بنتی ہے اور ناکامی بھی سامنے آ سکتی ہے۔ آنے والا وقت سخت بھی ہو سکتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ مگر فی الحال حقیقت یہی ہے کہ لوگ نظام سے نالاں ہیں اور ممدانی نے اْن جذبات کو زبان دی ہے۔ یہ جنگ مذہب یا نظریے کی نہیں؛ یہ ایک سماجی و اقتصادی تبدیلی کی جنگ ہے اور اس میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔