نظر نہ آنے والی ایک لائن، جو جانور کبھی پار نہیں کرتے، وجہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)کیا آپ جانتے ہیں کہ ایشیا اور آسٹریلیا کے جانور آپس میں بالکل مختلف کیوں ہیں؟ ایسا لگتا ہے جیسے دونوں دنیائیں الگ الگ بنی ہوں۔ اور اس کی بڑی وجہ ہے ایک ان دیکھی سرحد، جسے سائنسدان ’والیس لائن‘ کہتے ہیں۔
انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ممالک میں آپ کو شیر، ہاتھی، بندر، اور گینڈے جیسے جانور ملیں گے۔ یہ سب ایشیا کی طرف ہیں، اور دوسری طرف کینگرو، کوالا، اور عجیب و غریب پرندے۔
جبکہ آسٹریلیا اور نیو گنی کی طرف آپ کو کینگرو، کوالا، اور خاص قسم کے پرندے جیسے کاکاٹُو نظر آئیں گے۔ یہاں تک کہ انڈے دینے والے جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
یہ سب تقریباً 3 کروڑ سال پہلے شروع ہوا، جب آسٹریلوی زمین ’ٹیکٹونک پلیٹ‘ ایشیائی زمین سے ٹکرائی۔ اس ٹکراؤ سے سمندری بہاؤ بدلے، نیا موسم بنا، اور کئی جزیرے وجود میں آئے۔
اسی دوران جانوروں کی زندگی اور ارتقاء الگ الگ راستوں پر چل پڑی۔ ایشیا کے جانور نمی والے علاقوں میں ڈھل گئے، جبکہ آسٹریلیا کے جانور نسبتاً خشک موسم کے عادی ہو گئے۔
والیس لائن کہاں ہے؟
یہ لائن انڈونیشیا میں بالی اور لومبوک کے درمیان ایک تنگ سا سمندری راستہ Strait of Lombok ہے، صرف 24 کلومیٹر چوڑا، لیکن یہ چھوٹا سا فاصلہ دو مختلف دنیاؤں کو الگ کرتا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پرندے اور مچھلیاں بھی یہ لکیر پار نہیں کرتیں؟
سائنسدانوں کے لیے یہ ایک معمہ ہے کہ ایسی کون سی رکاوٹ ہے جو ان جانوروں کو روکے ہوئے ہے؟ غالباً موسم، خوراک، اور ماحول کی تبدیلیاں اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
19ویں صدی میں ایک قدرتی ماہر الفریڈ رسل والیس نے اس فرق کو سب سے پہلے نوٹ کیا۔ اسی لیے اس لکیر کا نام ’والیس لائن‘ رکھا گیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ سرحد جغرافیائی، حیاتیاتی اور موسمی فرق کو ظاہر کرتی ہے۔
تاہم کچھ جانور جیسے چمگادڑ، بندر، یا پانی میں تیرنے والے جانور کبھی کبھار یہ لکیر پار کر لیتے ہیں۔ اس لیے سائنسدان آج یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک ’لچکدار حد‘ یا فلیکسیبل باؤنڈری ہے، مکمل دیوار نہیں۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ والیس لائن ایک قدرتی حیاتیاتی سرحد ہے جو ایشیا اور آسٹریلیا کے جانوروں کو الگ کرتی ہے۔ اس کی وجہ زمین کی حرکت، موسم، اور سمندری گہرائی ہے۔ یہ لائن جانوروں کی ارتقائی کہانی سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
مزیدپڑھیں:ائیر فرانس نے بھی پاکستانی فضائی حدود کا استعمال شروع کردیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: والیس لائن کے جانور
پڑھیں:
مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی سفارت کاروں کو لاجواب کر دیا، من گھڑت بھارتی دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔
جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوؤں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔
Right of Reply by First Secretary Sarfaraz Ahmed Gohar
In Response to Remarks of the Indian Delegate
During the General Debate on Presentation of the Report of Human Rights Council
(31 October 2025)
*****
Mr. President,
I am using this right of reply to respond to the India’s… pic.twitter.com/XPO0ZJ6w6q
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) October 31, 2025
انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔
سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی یہ متنازع حیثیت اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری دونوں تسلیم کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ کے تمام سرکاری نقشوں میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔
سرفراز گوہر نے کہا کہ بھارت پر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت استعمال کرنے کی اجازت دے۔
انہوں نے کہا کہ بارہا، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنرز، خصوصی نمائندے، سول سوسائٹی تنظیمیں، اور آزاد میڈیا نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری نے کہا کہ آج کے انتہا پسند اور ناقابلِ برداشت بھارت میں، سیکولرازم کو ہندوتوا نظریے کے بت کے سامنے قربان کر دیا گیا ہے، وہ ہندو بنیاد پرست عناصر جو حکومت میں عہدوں، سرپرستی اور تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس کے مرکزی کردار ہیں، انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جینو سائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کے صدر کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کرے، اور بھارتی نمائندے کو مشورہ دیں کہ وہ توجہ ہٹانے کے حربے ترک کرے۔