Express News:
2025-11-03@08:17:24 GMT

دیہات کی عید۔سادگی اور اپنائیت کا تہوار

اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT

عید قربان کی آمد کے ساتھ ہی دل میں ایک عجیب سکون، کچھ پرانے مناظر اور چند دھندلے مگر بہت قیمتی نقوش جاگ اٹھتے ہیں۔ شہر کے جگمگاتے مگر مصنوعی ماحول میں عید بھی رسمی تہوار بن جاتا ہے لیکن دیہات کی فضاؤں میں عید کا استقبال ایک زندہ روایت، جذبے اور اپنائیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

میری کوشش ہوتی ہے کہ عید قربان اپنے آبائی گاؤں میں گزاروںجو وادی سون کے خوبصورت پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ وہی وادی ہے جہاں گرمیوں میں اگر کسی گھنے درخت کے سائے تلے بیٹھ جائیں تو پنکھے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ قدرتی ٹھنڈک ایسی کہ بدن میں تازگی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور جب یہی ماحول عید کے رنگوں میں ڈھل جائے تو پھر اس کا حسن دو چند ہو جاتا ہے۔شہر کی نسبت گاؤں میں ایک اور انمول نعمت ’رشتوں کا جُڑاؤ‘ہے۔

وہ رشتے جنھیں وقت، مصروفیت اور فاصلوں نے کمزور کر دیا ہے یہ رشتے عید پر پھر سے جڑنے لگتے ہیں۔ گھر کے صحن میں بیٹھے بزرگوں کی دانائی بھری گفتگو ، دعائیں اور ان کی آنکھوں میں جھلکتا سکون، یہ سب کچھ دل کو اس یقین میں بدل دیتا ہے کہ زندگی کا اصل حسن یہی ہے۔ میرے گاؤں میں عید کی تیاریاں چند دن پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔شہروں میںروزگار کے سلسلے میں مقیم لوگ اپنے آبائی وطن کو لوٹتے ہیں۔

عید کے دن صبح سویرے جب عید گاہ سے اللہ اکبر کی صدائیں گونجتی ہیں تو دل کے اندر ایک روحانی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔بچے ،نوجوان، بزرگ نئے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کراور بغل میں جائے نماز رکھ کرعید گاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ دیہات میں عموماً عید کی نماز عید گاہ میں ادا کی جاتی ہے جہاں پر گاؤں کے سب لوگ اجتماعی طورپر نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہر کوئی ایک دوسرے سے گلے ملتا اور عید کی مبارکباد دیتا ہے۔

نماز کے بعد دعاؤں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے جن میں زندگی کی آسانیوں سے لے کر آخرت کی بخشش تک سب کچھ مانگا جاتا ہے۔گاؤں کی عید میں قربانی صرف جانور کی نہیں ہوتی بلکہ انا کی، تکبر کی اور خود غرضی کی بھی ہوتی ہے۔ یہاں دل سے قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، دکھاوے سے نہیں۔

میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ قربانی کے لیے خوبصورت جانور خریدے جائیں اور جب قربانی کے جانور وں کی خریداری کا مرحلہ طے پا جاتا ہے تو سب سے اہم مرحلہ قصاب کے ساتھ وقت طے کرنا ہوتا ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب گھر پہنچتا ہوں تو قصاب میرا منتظر ہوتا ہے ۔

گاؤں میں ماہر قصاب مختصر سے وقت میں قربانی کا عمل مکمل کر کے چلا جاتا ہے کہ دوسرے گھروں میں گاہگ اس کے منتظر ہوتے ہیں بلکہ کئی ایک تو میرے گھر پہنچ جاتے ہیں اور قصاب کو ساتھ لے جاتے ہیں کہ کہیں راستے میں وہ’ بھٹک یا اغوا‘نہ ہوجائے ،کوئی اور ملک صاحب اسے لے نہ اُڑے ۔قربانی کے گوشت کا سب سے اہم مرحلہ اس کی تقسیم کا ہے۔ میری یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان گھروں میں قربانی کا گوشت پہنچایا جائے جن کے ہاں قربانی نہیں ہوتی۔ کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ کس کے گھر میں کتنا گوشت ہے کیونکہ سب کا گوشت سب کا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو بانٹنے کا، خوشیاں پھیلانے کا اور ضرورت مندوں کو یاد رکھنے کا جو جذبہ دیہات میں ہوتا ہے، وہ شاید شہر کی گلیوں میں کہیں کھو گیا ہے۔

عید کی سب سے بڑی خوبصورتی میرے نزدیک وہ وقت ہوتا ہے جب بزرگوں کی قبروں پر حاضری ہوتی ہے ۔ قبرستان جو پہاڑ کے دامن میں واقع ہے وہاں خاموشی، سرسبز درختوں کی سرسراہٹ اور پرندوں کی چہچہاہٹ کے درمیان ہم اپنے گزرے ہوئے پیاروں کو یاد کرتے ہیں۔ ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں۔ یہ لمحے اتنے پرسکون ہوتے ہیں کہ دنیا کے ہر شور سے کٹ کر انسان صرف اپنے رب کے قریب محسوس کرتا ہے اور یہ خیال بھی آتا ہے کہ ایک دن میں نے بھی یہیں سپرد خاک ہونا ہے۔

دوپہر کے وقت جب دستر خوان بچھتا ہے تو اس پر صرف کھانے کی چیزیں نہیں ہوتیں بلکہ محبت، اپنائیت اور شکر گزاری بھی رکھی جاتی ہے۔ گوشت کے قورمے، چاول اور مٹی کے برتنوں میں ٹھنڈا لسی کا گلاس یہ سب چیزیں شہر کے کسی پانچ ستارہ ہوٹل کی چمک دمک پر بھاری ہوتی ہیں۔شام کو جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے لگتا ہے اور گاؤں کی فضا میں ہلکی ہلکی خنکی اترنے لگتی ہے تو میں اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ اپنی بیٹھک کے برآمدے میں بیٹھتا ہوںجہاں وہی پرانی باتیں، وہی یادیں اور وہی قہقہے ہوتے ہیں یعنی کہ کچھ بھی نہیں بدلا صرف ہم بڑے ہو گئے ہیں۔

اس لمحے دل میں ایک خواہش جاگتی ہے کاش زندگی کی یہ شامیں کبھی ختم نہ ہوں۔ شاید اسی لیے میں ہر سال اس تہوار کو اپنے گاؤں میں منانے کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ یہاں عید صرف رسم نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی خوشبو ہے ، تازہ ہوا کا جھونکاہے، اپنائیت کا وہ لمحہ جو ہمیشہ دل میں محفوظ رہتا ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں ہوتی ہوتے ہیں گاؤں میں ہوتی ہے جاتا ہے کے ساتھ ہوتا ہے عید کی

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

 

3

مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔

متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔

تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)

آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔

الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔

غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو
  • تلاش
  • اسپینش فٹبال اسٹار لامین یامال ناقابل علاج انجری کا شکار
  • پاکستانی فاسٹ بولر نے جیت ماں کے نام کر دی
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • پلیئنگ الیون میں ہوں یا نہ ہوں کوشش ہوتی ہے اچھا پرفارم کروں، سلمان مرزا
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ
  • تجدید وتجدّْد