اسلام آباد:

وفاقی حکومت نے اسمگل شدہ گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے نیا قانون تجویز کر دیا، جس کے تحت ایسی گاڑیاں جو چیسس نمبر میں چھیڑ چھاڑ یا تبدیلی کی شکار ہوں گی، انہیں ضبط کر لیا جائے گا۔

مجوزہ نئے قانون کے مطابق اگر کسی گاڑی کا چیسس نمبر تبدیل یا کٹ اینڈ ویلز کیا گیا ہو یا چیسس نمبر میں کوئی ایسا مواد بھرا گیا ہو جو اس کی اصل حالت کو چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا ہو تو اسے اسمگل شدہ تسلیم کیا جائے گا، چاہے وہ کسی بھی موٹر رجسٹریشن اتھارٹی سے رجسٹرڈ ہو قانون کے تحت گاڑیوں کی فارنزک تحقیقات کی جائیں گی تاکہ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کا پتا چلایا جا سکے۔

مجوزہ قانون کے تحت اگر گاڑی کی فارنزک تحقیقات میں چیسس نمبر یا اس کے حصے میں کوئی تبدیلی یا چھیڑ چھاڑ کی نشان دہی ہوتی ہے تو اس گاڑی کو اسمگل شدہ سمجھا جائے گا اور فوراً ضبط کر لیا جائے گا۔

حکومت کی جانب سے یہ سخت اقدامات اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ غیر قانونی طریقے سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کا خاتمہ کیا جا سکے اور سڑکوں پر صرف قانونی اور محفوظ گاڑیاں چلائی جا سکیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق یہ قانون گاڑیوں کی چوری اور غیر قانونی تجارت کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

حکام نے عوام کو آگاہ کیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی گاڑی کی خریداری سے اجتناب کریں جس میں چیسس نمبر میں چھیڑ چھاڑ یا غیر معمولی تبدیلی ہو، اس کے علاوہ، گاڑیوں کے مالکان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں کی فارنزک چیکنگ کروا کر ان کے قانونی ہونے کو یقینی بنائیں۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان چیسس نمبر میں اسمگل شدہ چھیڑ چھاڑ گاڑیوں کی جائے گا

پڑھیں:

بجٹ میں قوانین پر موثر عملدرآمد کیلئے قانون سازی ورنہ 500 ارب تک کے مزید ٹیکس: وزیر خزانہ

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں قوانین پر موثر عمل درآمد کے لیے قانون سازی کرنے جا رہے ہیں۔ اگر یہ قانون سازی نہ ہو تو 400 سے 500 ارب روپے تک کے مزید ٹیکس لگانا پڑیں  گے۔ ہم جو چیز بھی کر رہے ہیں قرضے لے کر کر رہے ہیں یہ کیسی معاشیات ہے؟۔ ہمیں متوازن چلنا ہے۔ سپر ٹیکس میں کمی شروع کر دی ہے۔ این ایف سی کے لیے   نامزدگیاں مانگی ہیں۔ کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جو  صوبوںکی مشاورت سے نہ ہو۔ بجٹ میں 312ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگے۔ وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار  پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کیا۔ سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے کہا کہ کسانوں کی فائنانسنگ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ کچھ سبجیکٹ صوبوں کو چلے گئے ہیں، اس پر عمل درآمد کی پالیسی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ کو افراط زر کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے، ساری دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم ٹیکسیشن کو بڑھاتے ہیں تو یہ بات کی جاتی ہے کہ حکومت کے اخراجات کیوں کم نہیں ہوتے۔ اس سال حکومت کے اخراجات میں اضافہ صرف 1.9 فیصد کا ہے۔ کچھ اخراجات بڑھانے کی حکومت کو ضرورت ہے تاہم چادر دیکھ کر چلنا ہے۔ باقی حکومت جو کچھ دیتی ہے وہ قرضے لے کر دے رہی ہے۔ اسی طرح ہم خسارہ کو شروع کرتے ہیں۔ قرضے اگر بڑھتے رہیں تو یہ ملک کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ ہمیں ڈیجیٹل اکانومی کی طرف بھی بڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال سے ہم انفورسمنٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ 400 ارب روپے انفورسمنٹ سے حاصل کیے جسے آئی  ایم ایف نے بھی تسلیم کیا ہے۔ انفورسمنٹ کو مزید بہتر بنانا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے نوجوانوں کو سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ نوجوانوں کو تعلیم دے جس سے وہ خود اپنے لیے کما سکیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس سال پانڈا بانڈ کو جاری کریں۔ ہم نے اس کے حجم میں نہیں جانا ہم تنوع چاہتے ہیں۔ پاکستان کی ریٹنگ میں مزید بہتری آئے گی تو امریکی مارکیٹ میں بھی جا سکتے ہیں۔ پائیدار اور ہمہ جہت ملکی ترقی کیلئے معیشت کو دستاویزی بنانے، حکومتی اخراجات میں کمی، ٹیرف اصلاحات سمیت بنیادی معاشی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ مجموعی طور پر ٹیرف رجیم میں 4فیصد کی کمی لائی جائے، 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں۔ 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ کے اقدامات سے حاصل کیا جائے گا۔ 9.4ٹریلین کی غیردستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانا ضروری ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے سے خزانے پر 28 سے 30 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ بجلی کے بلوں پر10فیصد سرچارج عائد نہیں کیا گیا۔ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیرف اصلاحات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کا پہلا مقصد پروٹیکٹڈ رجیم کوتبدیل کرنا ہے تاکہ کیش اور انسانی وسائل میں بہتری آئے۔ اس سے برآمدی شعبے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ ڈھانچہ جاتی بنیادوں پر ملک کو اگے لے جانے کیلئے معیشت کے بنیادی ڈی این اے کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔  7ہزار ٹیرف لائن میں سے 4ہزار پر اضافی کسٹم ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے۔ 2700 میں کسٹم ڈیوٹی کی شرح کم کردی گئی۔ اس طرح 2ہزار ایسے ٹیرف لائن ہیں جن کا تعلق خام مال سے ہے اور اس سے برآمدی صنعت کو یقینی طور پر فائدہ پہنچے گا۔ ٹیرف اصلاحات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ہماری کوشش ہے کہ مجموعی طور پر ٹیرف رجیم میں 4فیصد کی کمی لائی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کی کوشش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دیا جاسکے وہ دیا جائے تاہم اس میں ہم اپنی مالی گنجائش کے مطابق جاسکتے ہیں۔ اسی طرح درمیانے درجے کے کارپوریٹ شعبے کیلئے سپر ٹیکس میں 0.5فیصد کی کمی کی گئی ہے۔ تعمیراتی شعبے میں ٹیکس کم نہیں ہوا ہے بلکہ کوشش کی گئی ہے کہ ٹرانزیکشن کی لاگت اور اخراجات میں کمی لائی جائے۔ 5 مرلہ گھر بنانے والوں کو مارگیج فنانسنگ میں سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ اس ضمن میں سٹیٹ بنک سے ہماری بات چیت جاری ہے اور یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھایا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے امور کے مطابق کھادوں اور کیڑے مار ادویات پر اضافی ٹیکس عائد کرنا تھا جس کا مقصد استثنائی رجیم کا خاتمہ ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر گزشتہ سال ہماری آئی ایم ایف سے بات چیت ہوئی کہ یہ ٹیکس نہ لگائے جائیں، یہ درست سمت میں قدم ہے۔ ٹیکس کی تعمیل اور اصلاحات کا عمل آگے بڑھ رہا ہے، اس سال جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 10.3فیصد رہی جو آئندہ مالی سال میں 10.9فیصد ہوجائے گی۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا تعلق افراط زر سے ہے۔ پنشن اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ حکومت نے پنشن کو افراط زر سے منسلک کردیا ہے۔ زراعت معیشت کا انجن ہے، زرعی جی ڈی پی میں ڈیری اور لائیو سٹاک کا حصہ 60فیصد کے قریب ہے۔ سٹوریج سہولیات، فنانسنگ میں اضافہ اور چھوٹے کسانو ں کو قرضوں کی فراہمی کی جائے گی۔ اس حوالے سے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ جو شعبے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں، وفاقی حکومت ان میں بھرپورمعاونت فراہم کرے گی۔ تنخواہوں اور پنشن کے حوالے سے بنچ مارک ہونا چاہئے، پوری دنیا میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت نے ٹیکسوں میں زیادہ اضافہ نہیں کیا، اس کے برعکس کفایت شعاری اور اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔ حکومت سبسڈیزکو ختم کررہی ہے جبکہ قرضوں کے انتظام و انصرام کو بھی بہتر بنایا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی ہماری ترجیح ہے۔ اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا ہے کیونکہ جتنی بھی سہولیات عوام کو فراہم کی جارہی ہیں وہ قرضے لے کر دی جارہی ہیں۔  این ایف سی سے متعلق امور صوبوں کی مشاورت سے آگے بڑھائے جائیں گے۔ این ایف سی کے حوالے سے نامزدگیا ں منگوائی گئی ہیں۔ وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ اگست میں این ایف سی کا اجلاس ہوگا۔ وزراء اور پارلیمنٹیرین کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ آخری دفعہ 2016ء میں وزراء کی تنخواہوں کو ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس لئے تنخواہوں میں اضافہ زیادہ نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 63 فیصد نوجوانوں کیلئے حکومت نے ترجیحی بنیادوں پر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اقدامات اٹھائے ہیں جس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے اور رواں سال پاکستانی یوتھ نے فری لانسنگ کے ذریعے 400 ملین ڈالر کمائے ہیں اور اس کو بہتر بنانے کیلئے مزید اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمان سے ہماری یہی گزارش ہوگی کہ وہ ٹیکسز کے نفاذ کے لئے درکار قانون سازی اور ترامیم مہیا کریں تاکہ ہمیں اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں اور نظام میں لیکیج کو روکا جاسکے۔ پاور سیکٹر میں ریکوریز بہتر ہوئی ہیں، اب ٹرانسمیشن نقصانات کو کم کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ ضم شدہ اضلاع میں سیلز ٹیکس کا اطلاق مرحلہ وار ہو گا اور پہلے مرحلے میں 10 فیصد کی کم شرح سے اس کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال ستمبر میں یورو بانڈز سے 500 ملین ڈالر پاکستان کو وصول ہو جائیں گے۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے اس موقع پر کہا کہ کھادوں اورکیڑے مار ادویات پرگزشتہ سال ٹیکس لگنا تھا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کی اور ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ آنے والے مالی سال میں اس کا اطلاق کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت میں بعض اقدامات صوبوں جبکہ بعض وفاق نے کرنے ہیں۔ ہم نے آئی ایم ایف کو قائل کیا کہ اس سال ٹیکس نہ لگایا جائے۔ ایگری فنانس پر کام ہورہا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق میں وزیراعظم کی ہدایت پر ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی ہے۔ ان اقدامات کا بنیاد ی مقصد زراعت کا فروغ ہے۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال میں اخراجات کے رجحان کو دیکھا جائے تو حکومت نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ اخراجات پر قابو پایا جائے۔ جہاں ضرورت تھی وہاں اخراجات کئے گئے۔ اسی وجہ سے جاری مالی سال میں اخراجات میں صرف 1.9فیصد کا معمولی اضافہ ہوا۔ مالی سال 2022 میں اخراجات میں 15.9فیصد، مالی سال 2023 میں 23.6فیصد اور 2024 میں 12.2فیصد اضافہ ہوا تھا۔ سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے سے خزانے پر 28 سے 30 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ فوج میں کنٹری بیوٹری  پنشن  متعارف کرانے کے حوالے سے وزارت دفاع کے ساتھ مشاورتی اجلاس ہوں گے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ لوکل سولر پر 18 فیصد ٹیکس تھا اور جو امپورٹ ہو رہے تھے اس پر ٹیکس زیرو تھا تو لوکل سولر انڈسٹری کی طرف سے یہ مطالبہ تھا کہ امپورٹ سولر پر بھی یکساں ٹیکس نافذ کیا جائے تا کہ تفریق ختم ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ کافی سمیت چار درآمدی اشیا ء کو تیسرے شیڈول میں اس لئے شامل کیا گیا ہے تاکہ ڈکلیئر قیمت اور مارکیٹ قیمت کے درمیان فرق کی نگرانی کی جاسکے۔ غیر منافع بخش اداروں پر دنیا بھر میں انکم ٹیکس کی ذمہ داری نہیں ہوتی، ایسے اداروں کیلئے شرائط وحدود ہوتے ہیں، ہم نے ٹیبل ون اور ٹیبل ٹو کو اکٹھا کردیا ہے، آئندہ کوئی بھی ادارہ سکروٹنی سے باہر نہیں ہوگا، یہ اصلاحات کا حصہ ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ٹیکس رجیم، سیلف اسسمنٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے، انفورسمنٹ اقدامات کے تحت نہ صرف ڈیجیٹل انوائسنگ پر کام ہو رہا ہے بلکہ کارگو ٹریکنگ کی بھی نگرانی کی جاتی ہے۔ اب ہر دو ماہ کے بعد ریٹرن جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اسی طرح ادائیگی کے نظام کو ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی فراڈ کر رہا ہے تو اس کیلئے قانون سازی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے افسروں کو اختیارات کے ساتھ ساتھ ذمہ داری اور جوابدہی بھی ضروری قرار دی گئی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کی تنخواہیں 2 لاکھ 5 ہزار روپے سے بڑھا کر ساڑھے 21 لاکھ کرنے سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ارکان اسمبلی اور وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں 2016ء کے بعد اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہر سال اضافہ ہوتا رہتا تو یہ ایک دم والی بات نہ ہوتی۔ ایک دم والی بات اس وقت ہوتی ہے جب 9 سال سے کوئی چیز نہ ہوئی ہو۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر، کالے قانون کے تحت ایک اور کشمیری کی زرعی اراضی ضبط
  • کیا بجٹ 2025-26 گاڑی خریدنے والوں کے لیے بھیانک خواب بن گیا؟
  • وفاقی وزیر خزانہ کا ٹیکسز کے نفاذ کیلئے قانون سازی نہ ہونے پر منی بجٹ لانے کا عندیہ
  • بجٹ میں قوانین پر موثر عملدرآمد کیلئے قانون سازی ورنہ 500 ارب تک کے مزید ٹیکس: وزیر خزانہ
  • کراچی میں نصب سیف سٹی کیمرے کی مدد سے پہلی چوری کی گاڑی پکڑی گئی
  • (سندھ بلڈنگ)نا ظم آ باد کے رہائشی پلاٹوں پر کمرشل تعمیرات
  • کویت میں غیر ملکی کارکنوں کیلئے نیا قانون متعارف
  • بجٹ 26-2025: نان فائلرز گاڑی یا غیرمنقولہ جائیداد نہیں خرید سکے گا
  • آلٹریشن والی گاڑیوں کے مالکان کے لیے بری خبر، کاغذ پورے ہونے کے باوجود ضبطی کا خدشہ