فیلڈ مارشل عاصم منیر 4 روزہ دورے پر امریکا جا رہے ہیں، پینٹاگان اور وزارت دفاع میں طے شدہ مصروفیات کے علاوہ ان کی ملاقات سیکریٹری آف اسٹیٹ اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر مارکو روبیو سے بھی متوقع ہے، اس دورے پر ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی فیلڈ مارشل کو دو دن کے لیے جوائن کریں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دورہ بیجنگ بھی جلد متوقع ہے، چین سے پہلے  واشنگٹن کا دورہ  امریکا چین تعلقات کو بیلنس کرنے کی ایک کوشش ہے، یہ بیلنس اس لیے بھی ضروری ہے کہ چین سے نئی ڈیفنس ڈیل کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔

جے ایف 35 اسٹیلتھ طیاروں ، جے 500  اواکس سسٹم ، ایچ کیو 19 بلاسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم اور ڈی ایف 17 ہائپر میزائل سسٹم چین سے حاصل کرنے کی باتیں انٹرنیشنل میڈیا میں رپورٹ ہو رہی ہیں، امریکا جانا اور ان کو بتانا بنتا ہے کہ ہم بیجنگ ہی نہیں واشنگٹن بھی آتے جاتے رہیں گے۔

پاکستان افغانستان نے تعلقات میں سرد مہری کو تیزی سے ختم کیا ہے، اس بار بریک تھرو کرانے میں معاشی امکانات کا سب سے اہم کردار رہا ہے، افغان مہاجرین کیخلاف سختی بھی کم ہوئی ہے اور ان کی واپسی کی رفتار میں بھی کمی آئی ہے۔ پاکستان افغانستان نے تعلقات بہتر بنائے تو تعلقات خرابی کی اصل وجہ پر بھی پیشرفت ہونا ہی تھی، افغانستان میں موجود مسلح دہشت گردوں کا مسئلہ بھی حل کرنا لازم ہے ۔

افغان طالبان کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ مسلح گروپوں کے خلاف کارروائی کی صورت میں پاکستان اور چین افغان طالبان حکومت کی مدد کریں گے، ٹیررازم کے ایشو پر امریکا کو آن بورڈ لینا اور مل کر چلنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر تیز رفتار کنیکٹیوٹی ، انرجی ، منرل ، ریلوے ٹریک اور انفرا اسٹرکچر پروجیکٹ کی تکمیل بس خواب اور خیال ہی رہ سکتا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ سب کے لیے وِن وِن سچوئیشن ہوگی۔

افغان طالبان کا یہ خدشہ بھی کافی حقیقی ہے کہ وہ مذہبی شدت پسند مسلح تنظیموں کے خلاف کارروائی کریں، ہمسایہ ملک صرف تماشا دیکھیں اور افغانستان اک نئی لڑائی کا شکار ہو جائے۔ اس کے لیے ایک بڑے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جس پر کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔پاکستان افغانستان تعلقات کو شاید ایک لطیفے کے ذریعے اچھا سمجھا جا سکتا ہے ۔

چودھری گھر کے دروازے پر کھڑا چودھرانی سے بہترین بزتی کرا رہا تھا۔ سامنے سے چودھری کو اپنا مشیر اول مراثی آتا دکھائی دیا۔ چودھرانی نے بزتی کرنا جاری رکھی۔ جب مراثی قریب آ گیا تو چودھرانی وقفہ لینے یا چودھری کی عزت کا خیال کرتے اندر چلی گئی۔ چودھری اپنی عزت بحال کرنے کو مراثی سے کہتا ہے کہ اسے میں نے طلاق دے دینی ہے۔ یہ بہت تنگ کرتی ہے مجھے۔ مراثی نے جواب دیا کہ چھوڑیں چودھری صاحب جو نکاح کو نہیں مانتی وہ طلاق کو کدھر مانے گی۔ پاکستان افغانستان آپس میں نہ نکاح مانتے ہیں نہ طلاق۔ اس لیے ان کا گزارہ بھی رل مل کر چلنے اور لڑنے میں ہی ہے۔

پیار میں اکثر پریمی پہلے جھگڑا کرتے ہیں، مگر پھر آہیں بھرتے ہیں اور اک دوجے پر مرتے ہیں۔ یہ گانا تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ جھگڑے کا ذکر کر کے بتانا ضروری ہے کہ پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا ہے۔ پچھلے سال یہ 2100 ارب روپے تھا اس سال یہ 2550 ارب روپے ہیں۔ پچھلے سال بجٹ کا حجم 18900 ارب روپے اور اس سال 17600 ارب روپے ہے۔ تو دفاعی بجٹ میں اضافہ اس حساب سے زیادہ تو ہے لیکن سرینڈر مودی کی طبعیت کے عین مطابق ہے ۔

اس بجٹ میں فاٹا کے لیے سبسڈی کم کی گئی ہے ۔ سابق فاٹا کے اضلاع دہشت گردی سے متاثرہ اضلاع ہیں ۔ فاٹا کے خیبر پختون خواہ میں انضمام کے وقت ہر ساال ترقیاتی کاموں کے لیے سو ارب روپئے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جس پر عمل نہیں ہوا ۔ خیبر پختون خواہ کو 1 پرسنٹ سرپلس بجٹ ٹیررازم سے متاثر ہونے کی وجہ سے ملتا ہے ۔ یہ اضافی فنڈ بلوچستان کو بھی ملنا چاہئے ۔

دفاعی بجٹ میں اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان نئے ملٹری ایکوئپمنٹس خرید رہا ہے۔ جو کچھ چین سے حاصل کرنے کی بات سامنے آ رہی ہے، ان دفاعی آلات کی خریداری کے بعد تکنیکی طور پر پاکستان انڈیا سے ایک دہائی آگے چلا جائے گا۔ پاکستان کی فضائی نگرانی کی صلاحیت انڈیا سے بھی آگے اس کے کئی سو کلومیٹر دور سمندری جزیروں تک بڑھ جائے گی جہاں انڈین ملٹری فورسز کے اہم سینٹرز ہیں۔

اس اضافے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں عسکری گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آ گیا ہے۔ اس کے لیے درکار فنڈ فراہم کر دیے گئے ہیں۔ یہ عالمی دورے، افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری ، ریاستی اور قومی اعتماد میں اضافہ اب ترقی کے لیے لازمی شرط امن و امان قائم کرنے کی طرف متوجہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا جب بھی ہوتا دکھائی دے تو سرینڈر مودی کو دل سے تھینکس ضرور بولیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان افغانستان دفاعی بجٹ میں فیلڈ مارشل ارب روپے کرنے کی کے لیے چین سے رہا ہے

پڑھیں:

ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مودی کی ہٹ دھرمی اور انا نے خطہ میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے ۔جنگ میں شکست فاش ہوئی جو کہ مودی نے مسلط کی تھی۔اگر جنگ زیادہ طویل ہوتی تو بہت زیادہ تباہی اور انسانی ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔اس وقت جنگ بندی میں ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا۔بھارت نے خود جنگ بندی پر سکون کا سانس لیا کیونکہ بہت بری طرح بھارت کی فضائیہ رافیل طیارے پاکستان ائیر فورس نے تباہ کر دیے ۔پاکستانی افواج مسلسل بھارت کی حدود میں پیشرفت کر رہی تھی۔مودی کے ہتھیار ڈالنے پر بھارت کی اپوزیشن اور عوام نے اظہار برہمی اور ناراضی کا اظہار کیا۔
ٹرمپ اور مودی کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ بظاہر پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والا بحران بنا۔ مئی میں کشمیر میں ہونے والے حملوں اور جھڑپوں نے خطے کو ایک بار پھر خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر خود کو ثالث ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اعلان کیا کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ۔ یہ وہ اعلان تھا جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا اور کئی حلقوں نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کا مستحق قرار دیا۔ مگر یہی معاملہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مودی حکومت نے اس پر سخت ردعمل دیا اور دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں تناؤ کی پہلی بڑی دراڑ یہیں سے پیدا ہوئی۔پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا سفیر قرار دینے اور نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی مہم نے مودی کو مزید مشتعل کر دیا۔ بھارت کے لیے یہ صورت حال اس وجہ سے زیادہ پریشان کن تھی کہ عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن بہتر دکھائی دینے لگی تھی، جبکہ بھارت یہ تاثر دینے میں ناکام رہا کہ وہ ہی خطے کا بڑا اور فیصلہ کن کردار ہے ۔ ٹرمپ نے اس دوران پاکستان کے ساتھ توانائی، کرپٹو کرنسی اور معدنیات کے شعبوں میں بڑے معاہدے کیے ۔ یہ معاہدے نہ صرف پاکستان کے لیے معاشی لحاظ سے اہم تھے بلکہ بھارت کے لیے یہ ایک واضح پیغام بھی تھے کہ امریکا اب خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ نئے باب کا آغاز کر رہا ہے ۔
اسی پس منظر میں ٹرمپ نے مودی سے اپنی نوبیل امن انعام کی مہم میں حمایت طلب کی۔ مگر مودی نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار صرف انکار نہیں تھا بلکہ ٹرمپ کی انا کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ ٹرمپ نے اس کا بدلہ لینے کے لیے بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کر دیے ۔ اگست میں امریکی صدر نے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا، جس نے بھارتی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اقدام واضح کرتا تھا کہ ٹرمپ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے عالمی تجارتی نظام کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔
مودی نے اس صورتحال کا جواب عالمی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دیا۔ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر سات سال بعد بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی رابطہ کیا۔ یہ سفارتی سرگرمیاں دراصل امریکا کو یہ پیغام دینے کے لیے تھیں کہ بھارت کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرے گا اور اپنی خارجہ پالیسی کو کثیر جہتی رکھے گا۔ تاہم اس سب کے باوجود مودی نے چین کے فوجی پریڈ میں شریک نہ ہو کر یہ باور کرا دیا کہ بھارت اور چین کے تعلقات میں بنیادی بداعتمادی بدستور موجود ہے اور یہ قریبی تعلقات کسی بھی وقت محدود ہو سکتے ہیں۔ٹائم میگزین کے کالم نگار کے مطابق ٹرمپ اور مودی کے درمیان اصل تنازع روس نہیں بلکہ کشمیر میں ہونے والی جھڑپیں تھیں۔ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش اور اعلان کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ، بھارت کے لیے ناقابل قبول تھا۔ پاکستان نے ٹرمپ کے اس کردار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں نوبیل امن انعام کے لیے مستحق قرار دینے کی فضا بھی بنائی۔ یہ وہ نکتہ تھا جس نے مودی کو سب سے زیادہ ناراض کیا۔ اس کے بعد ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ معاہدے اور مودی سے نوبیل مہم کی حمایت کی فرمائش نے تعلقات کو مزید خراب کر دیا۔
امریکا کے 50فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ گیا۔ ایک طرف مقامی صنعت کار اور تاجر برادری پریشان تھی، تو دوسری طرف بھارت کی عالمی سطح پر کمزور ہوتی پوزیشن نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ نئی راہیں تلاش کریں۔ چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش اسی دباؤ کا نتیجہ تھی۔ لیکن بھارت کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ مکمل طور پر امریکا سے تعلقات توڑ لے ، کیونکہ دفاعی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے میدان میں امریکا اب بھی ایک بڑی طاقت ہے ۔یہ ساری صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ اور مودی کی لڑائی ذاتی انا اور عالمی سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔ ٹرمپ نے ثالثی کا کریڈٹ لے کر خود کو امن کا سفیر ثابت کرنے کی کوشش کی، پاکستان نے اس کردار کو تسلیم کر کے ان کے نوبیل انعام کے امکانات کو بڑھایا، لیکن بھارت نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ پھر معاہدے ، نوبیل مہم کی حمایت کا انکار، بھاری ٹیرف اور چین و روس کی طرف مودی کا جھکاؤ، یہ سب عوامل ایک دوسرے سے جڑ کر امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ایسی دراڑ لے آئے جس نے عالمی سیاست کو متاثر کیا۔
اب جبکہ کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکا اور بھارت تعلقات میں دراڑ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلقات دوبارہ اعتماد کی سطح پر بحال ہو سکیں گے ؟ خطے کے امن کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاک بھارت تعلقات میں کوئی بہتری آ سکتی ہے ؟ کیونکہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا، ٹرمپ یا کوئی اور رہنما ثالثی کے دعوے کرتے رہیں، امن محض ایک خواب رہے گا۔ امریکا، چین اور روس اپنی اپنی بساط پر کھیلتے رہیں گے ، مگر اصل بوجھ پاکستان اور بھارت پر ہے کہ وہ اپنے عوام کے مستقبل کو جنگ کی نذر کرتے ہیں یا امن کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائیں اور اپنی توانائیاں جنگ کی تیاری کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ امریکا جیسے طاقتور ملک کو بھی چاہیے کہ وہ ثالثی کو ذاتی مفاد کے بجائے حقیقی امن کے لیے استعمال کرے ۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف ٹرمپ اور مودی جیسے رہنماؤں کی سیاست خطے پر منفی اثر ڈالنے سے رُک سکتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • فیلڈ مارشل کی بہترین حکمت عملی سے آپریشن بنیان مرصوص میں تاریخی کامیابی ملی، مریم نواز
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بہترین حکمتِ عملی کی بدولت جنگ میں عظیم کامیابی ملی: مریم نواز
  • فیلڈ مارشل کی بہترین حکمت عملی کی بدولت جنگ میں عظیم کامیابی ملی، مریم نواز
  • کرک پولیس کی بڑی کامیابی، کالعدم تنظیم کے اہم کارندے نے ریاست کے سامنے سرینڈر کردیا
  • ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت
  • افغان وزیر خارجہ پر سفری پابندی میں عارضی نرمی، بھارت کا ممکنہ دورہ اہم پیشرفت قرار
  • مریم نواز کی شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کے حق میں  خیر مقدمی مہم، ٹرینڈ سوشل میڈیا پر مقبول
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، اسرائیل کے لیے سخت پیغام ہے، محمد عاطف
  • امریکا قطر دفاعی حکم نامہ
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی اسٹرٹیجک معاہدہ