وطنِ عزیز میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کی جدوجہد
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
نیلا بٹ سے جو جہاد شروع ہوا تھا جس میں سردار عبد القیوم خان تھے، سردار ابراہیم تھے، مولانا غلام حیدر صاحب تھے، سردار سکندر حیات تھے، سردار اسلم تھے، اور بڑے بڑے لوگ تھے۔ کیا یہ جہاد صرف آزادی کے لیے تھا، یا نفاذِ اسلام بھی اس کا حصہ تھا؟ اس وقت دو باتیں کہی گئی تھیں، ایک اسلام کے نفاذ کی بات تھی اور دوسری پاکستان کے ساتھ الحاق کا وعدہ کیا گیا تھا۔
پاکستان کے قیام سے یہ باتیں شروع ہوئیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا، اس میں کیا رکاوٹیں پیش آئیں؟ مثلاً سب سے بڑی رکاوٹ جس کا ابھی ایک بزرگ ذکر فرما رہے تھے کہ مولویوں پر یہ الزام ہے کہ یہ اکٹھے نہیں ہوتے۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ایک بڑا جھوٹ ہے خاص طور پر پاکستان میں نفاذِ اسلام کی دستوری و قانونی جدوجہد کے حوالے سے کیونکہ تمام مکاتبِ فکر کا اس پر اتفاق ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا قراردادِ مقاصد کسی ایک مکتبِ فکر نے منظور کی تھی؟ اکتیس علماء کرام کے بائیس نکات مرتب کرنے میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے جن میں حضرت مولانا سلیمان ندوی تھے، حضرت مولانا شمس الحق افغانی تھے، حضرت مولانا داؤد غزنوی تھے، حضرت مولانا عبد الحامد بدایونی تھے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تھے، حافظ کفایت حسین تھے، مفتی جعفر حسین تھے، پیر صاحب آف مانکی شریف تھے، پیر صاحب آف سرہندی مجددی ، پیر ہاشم صاحب تھے رحمہم اللہ تعالیٰ۔ کسی مکتبِ فکر کی قیادت پیچھے نہیں تھی۔
اور وہ بائیس نکات آج بھی قائم ہیں، آج تک چاروں پانچوں مکاتب فکر میں سے کسی ایک نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ ملی مجلسِ شرعی پاکستان ایک مشترکہ فورم ہے جس میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری ؒ اور مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہیدؒ اس کے بانیان میں سے تھے، اس وقت اس کی صدارت میرے ذمے ہے، چند سال پہلے پورے ملک کے تمام مکاتب فکر کی قیادتیں اکٹھی ہوئیں اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم آج بھی ان بائیس نکات پر متفق ہیں۔
اسی طرح تحریکِ ختمِ نبوت کی تین بڑی تحریکیں ہیں، ۱۹۵۳ء میں، ۱۹۷۴ء میں، ۱۹۸۴ء میں۔ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، اس میں بھی تمام مکاتبِ فکر اکٹھے تھے۔ باہمی اختلافات اپنی جگہ ہیں لیکن قومی و ملی معاملات کے ہر موقع اور ضرورت پر ہم اکٹھے ہوتے ہیں اور اتفاق کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ جھوٹ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا کہ مولوی اکٹھے نہیں ہیں۔ کیا ہم سود کے مسئلے پر اکٹھے نہیں ہیں، کراچی کا کنونشن آپ کو یاد ہو گا۔ کیا فلسطین کے مسئلے پر اسلام آباد میں سب نے اکٹھے ہو کر اتفاقی موقف نہیں دیا۔ الحمد للہ ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں مقامی سطح پر بھی یہ ماحول ہے کہ ہم ہر موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
پھر اسلام کے نفاذ میں کیا رکاوٹ ہے؟ اس پر عرض ہے کہ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے جو اسلامی نظام کے ماحول میں نہیں جانا چاہتی۔ اس کے بعد میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے ریمارکس کا ذکر کروں گا جو انہوں نے ایک کیس میں دیے تھے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جس کا واحد حل گڈ گورننس ہے اور اس گڈ گورننس کے لیے ہمیں حضرت عمرؓ کے دروازے پر جانا ہو گا۔ میں نے اس پر لکھا تھا کہ جناب آپ کی تینوں باتیں ٹھیک ہیں لیکن میرے دو سوال ہیں:
(۱) کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ حضرت عمرؓ کی گڈگورننس کے ماحول میں جانے کے لیے تیار ہے؟
(۲) اور حضرت عمرؓ کی گڈ گورننس کی تعلیم ہمیں کہاں سے ملے گی، کیونکہ ہم تو کسی کالج اور یونیورسٹی میں حضرت عمرؓ کی گڈ گورننس پڑھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
اس کے ساتھ ایک اور رکاوٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ جو بین الاقوامی معاہدات ہم نے کر رکھے ہیں، اقوام متحدہ کا منشور ہے، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن ہے، اور یورپی یونین کے مطابق ستائیس معاہدات ہیں جن پر ہمارے لیے پابندی کرنا لازمی ہے۔ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کا حال یہ ہے وہ درمیان میں سینڈوچ بنی ہوئی ہے۔ اوپر سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یورپی یونین، یونائیٹڈ نیشنز کا دباؤ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم معاہدات پر عملدرآمد کروائیں گے۔ ادھر سے عوامی دباؤ آتا ہے تو رک جاتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں کہ ہم نہیں کر رہے۔ ہم اس مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ہم نے قرآن و سنت کی بات ماننی ہے یا بین الاقوامی معاہدات کی بات ماننی ہے۔ مثال کے طور پر ہم سے کہا گیا کہ مرد اور عورت میں مساوات ہے لیکن تمہارے ہاں امتیازی قوانین نافذ ہیں، انہیں ختم کرو۔
برطانیہ میں ایک فورم میں اس پر بحث ہو رہی تھی کہ مرد اور عورت میں مکمل مساوات ہونی چاہیے، میں بھی اس میں شریک تھا تو میں نے کہا کہ یہ بتائیں کہ
(۱) کیا مرد اور عورت کی ساخت ایک ہے؟
(۲) کیا دونوں کے قدرتی فرائض ایک جیسے ہیں، بچہ عورت نے پیدا کرنا ہے یا دونوں کر سکتے ہیں، اور دودھ کس نے پلانا ہے؟
(۳) اور کیا دونوں کی نفسیات ایک جیسی ہے؟
میں نے عرض کیا کہ جب دونوں میں یہ فرق موجود ہیں تو پھر قانون میں فرق کیوں نہیں ہوگا، یہ فرق مٹا دو تو قوانین کا فرق بھی ختم ہو جائے گا۔ بہرحال ہم سے مطالبہ ہوا کہ مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے اس لیے عورت کو بھی یہ حق دو۔ یہ ۱۹۶۲ء کی بات ہے، ایوب خان مرحوم نے عائلی قوانین نافذ کیے تو اس بین الاقوامی مطالبے کو شریعت کے ساتھ اس طرح ایڈجسٹ کیا کہ نکاح نامہ میں یہ سوال لکھ دیا گیا کہ کیا خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے؟ اور یہ بات شرعاً درست ہے کہ اگر خاوند طلاق دینے کا یہ حق اپنی بیوی کو تفویض کر دے تو وہ بھی طلاق لے سکتی ہے۔ یہ کر کے ہم نے ان سے کہہ دیا کہ جی پاکستانی عورت کو اب طلاق کا حق حاصل ہے۔
جبکہ اس کے بعد سے اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ آپ کسی بھی نکاح میں بیٹھ کر دیکھ لیں کہ لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہی نہیں ہوتی۔ میں ایک شادی میں شریک تھا ، نکاح خواں فارم پر کر رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے؟ اس نے بتایا کہ لکھا ہے کہ کیا خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے؟ میں نے کہا، تم کیا لکھنے لگے ہو؟ کہنے لگا، کراس لگا دوں گا۔ میں نے پوچھا ، کیا یہ سوال تم سے ہے؟ یہ سوال تو خاوند سے ہے جس نے اپنی بیوی کو اختیار دینا ہے یا نہیں دینا ہے۔ کہنے لگا، ہم تو ایسے ہی کرتے ہیں جی۔
آج سے پچیس سال پہلے جب اقوام متحدہ نے گولڈن جوبلی منائی تھی اور پچاس سالہ تقریبات منعقد ہوئی تھیں تو اس وقت او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کے صدرملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد تھے۔ میں نے بین الاقوامی سطح پر مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے تین لیڈر دیکھے ہیں: مہاتیر محمد، ذوالفقار علی بھٹو، اور اب کسی حد تک رجب طیب اردگان۔ بہرحال مہاتیر محمد نے اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر او آئی سی میں یہ تجویز دی تھی کہ ہم اقوام متحدہ کی تقاریب کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور ان کے سامنے دو مطالبات رکھتے ہیں : ایک یہ کہ بین الاقوامی معاہدات جو ہم نے کر رکھے ہیں ان میں ہمارے عقیدے اور شریعت کے خلاف بہت سی باتیں ہیں، ہمارے ساتھ بیٹھ کر ان پر نظرثانی کرو۔
(جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی حضرت مولانا اقوام متحدہ تمام مکاتب طلاق کا حق گڈ گورننس کرتے ہیں بیوی کو ہیں اور کی بات کے لیے میں یہ
پڑھیں:
ملک پر ظلم کا نظام مسلط ہے، آئین تو موجود ہے، اس پر عمل نہیں ہوتا، حافظ نعیم
امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ ملک کو قرضوں کے جال اور آئی ایم ایف کی غلامی میں جکڑنے والے ملک و قوم کا استحصال کر رہے ہیں، لوگوں کا حق مار کر اپنے کاروبار بڑھانے والے جاگیر دار اور وڈیرے ملک کو ایک پائی ٹیکس دینے کیلئے تیار نہیں، حکومت غریب عوام کے پیسے پر چل رہی ہے، جبکہ حکمران آئے روز اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرکے چھوٹے کسانوں، تاجروں اور عام آدمی کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ ملک پر ظلم کا نظام مسلط ہے، آئین تو موجود ہے، اس پر عمل نہیں ہوتا، عدالتوں سے عوام ہی نہیں، ججز بھی غیر مطمئن ہیں۔ پیسے والا انصاف خرید لیتا ہے، غریب کی نسلیں عدالتوں کے دھکے کھاتی ہیں۔ منصورہ لاہور میں مرکزی تربیت گاہ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا جماعت اسلامی نچلی سطح تک عوام کو انصاف دلانے کیلئے کوشاں ہے، جاگیر دار کسان اور سرمایہ دار اور ٹھیکیدار مزدور کے خون پسینے کی کمائی کھا رہے ہیں، شوگر ملز مافیا حکومت میں بیٹھ کر عوام کو لوٹ رہا ہے، حکمران عوام کا استحصال کر رہے ہیں، ظالم حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جماعت اسلامی عوام کو مہنگائی،بے روز گاری اور لاقانونیت سے نجات دلانے کیلئے ملک کے ہر گوٹھ اور گاؤں اور شہر کے ہر محلہ اور یونین کونسل میں عوامی کمیٹیاں بنا رہی ہے۔یہ عوامی کمیٹیاں نہ صرف ظلم و ناانصافی کیخلاف عوام کو متحد اور منظم کریں گی بلکہ معاشرے کو منشیات کی لعنت سے پاک، نوجوانوں کو نشہ سے بچانے اور منشیات کے مکروہ دھندے کے سدباب کیلئے موثر کردار ادا کریں گی۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ تعلیمی نظام کی بہتری، سرکاری سکولوں کی خستہ حال عمارتوں اوراپ گریڈیشن کیلئے حکمت عملی، بلدیاتی مسائل کے حل اور مساجد کی بہتر دیکھ بھال کیلئے جماعت اسلامی کی عوامی کمیٹیاں مقامی آبادی کو ساتھ ملا کر معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کا سنگ بنیاد رکھیں گی۔ نوجوان تعلیم اور کھیلوں کیساتھ ساتھ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بھی مقابلہ کریں گے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ملک کو قرضوں کے جال اور آئی ایم ایف کی غلامی میں جکڑنے والے ملک و قوم کا استحصال کر رہے ہیں، لوگوں کا حق مار کر اپنے کاروبار بڑھانے والے جاگیر دار اور وڈیرے ملک کو ایک پائی ٹیکس دینے کیلئے تیار نہیں، حکومت غریب عوام کے پیسے پر چل رہی ہے، جبکہ حکمران آئے روز اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرکے چھوٹے کسانوں، تاجروں اور عام آدمی کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔