اسلام ٹائمز: یہ واقعہ دنیا کو غزہ کی المناک اور افسوسناک صورتحال ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا۔ دل کو قوی امیدیں ہیں کہ اس کے بعد بھی انسانیت کی مشترکہ کوششیں بالآخر وہاں امن اور امداد کی فراہمی ممکن بنائیں گی۔ اللہ تعالیٰ غزہ کے لوگوں کے حال پر رحم فرمائے اور ان کی غیبی مدد فرمائے۔ یقیناً انسانیت کا درد کبھی رائیگاں نہیں جائے گا اور بالآخر غزہ میں امید کی سحر ضرور طلوع ہوگی۔ تحریر: ڈاکٹر خولہ علوی
درد دل رکھنے والے لوگو! دل تھام کر سنیں۔ 9 جون کو غزہ کے محصورین کے لیے اٹھنے والا ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ کا امیدوں سے بھرا سفینہ، ’’میدلین‘‘، اسرائیلی جبر کی وجہ سے روک دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی پانیوں میں غاصب اسرائیلی فوج نے اس پر قبضہ کر کے بارہ انسانیت دوست کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ یوں غزہ کا محاصرہ توڑنے کی یہ عظیم کاوش اگرچہ بظاہر ناکام ہوئی مگر ان کی لیڈر گریٹا اور ان کے اکثر غیر مسلم رفقاء نے ہمت کی آخری حدوں کو چھو کر تاریخ رقم کر دی۔ جو کام مسلمانان عالم اور سلاطین خصوصاً عرب حکمرانوں کے کرنے کا تھا، وہ یہ چند غیر مسلم سر انجام دینے کی تگ و دو میں تھے۔ یہ کچھ دیوانے رنگ و نسل، ملک و ملت سے بالاتر ہوکر ایک عظیم سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ گویا ’’پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘۔ ان کے عظیم جذبے کو سلام۔
اس خبر کی وجہ سے دل و دماغ سناٹے کی زد میں ہیں۔ غم و الم، افسوس اور حسرت کی ایک لہر میرے دل و دماغ پر چھا گئی، جسے الفاظ میں بیان کرنا محال ہے۔ یقیناً یہ صرف میرے لیے نہیں بلکہ تمام درد مند مسلمانوں کے لیے بہت بڑی پریشانی کی بات ہے۔ اور یہ غزہ کے مظلوموں کے لیے ہی نہیں، بلکہ عالمی ضمیر کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہے۔ فریڈم فلوٹیلا مغرب کی دور دراز سرزمین سے اٹھے نہتے بارہ عوامی کارکنوں اور درد مندوں کا یہ قافلہ تھا، جس کے سینوں میں محصور غزہ اور اہل غزہ کے لیے تڑپ تھی، یہ ایک ایسی بستی کی جانب رواں تھا جو بھوک اور افلاس کی چکی میں پس رہی ہے۔
اس قافلے کے پاس کوئی ہتھیار نہیں، کوئی فوج نہیں تھی۔ ان کے پاس ہے تو بس انسانیت کا درد اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی ہمدردی کا جذبہ۔ یہ چھوٹی سی کشتی ہماری دعاؤں اور بڑی امیدوں کا مرکز بنی ہوئی تھی، جو ظلم کے بحری پہرے کو للکارتے ہوئے زندگی اور خوشی کی نوید لے کر نکلی تھی۔ ان کا یہ سفر ظلم و زیادتی، ناانصافی، بے حسی کے خلاف ایک علامت، ایک استعارہ بن گیا ہے۔ ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ کا مقصد محض ناکہ بندی توڑنا اور امداد پہنچانا ہی نہ تھا بلکہ غزہ کے بڑھتے ہوئے انسانی بحران پر عالمی توجہ مبذول کرانا بھی تھا۔
اگرچہ اس سفر کا اختتام بہت تکلیف دہ ہے لیکن امید ہے کہ اس کے بہترین اور مثبت نتائج مرتب ہوں گے ان شاءاللہ۔ یہ واقعہ دنیا کو غزہ کی المناک اور افسوسناک صورتحال ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا۔ دل کو قوی امیدیں ہیں کہ اس کے بعد بھی انسانیت کی مشترکہ کوششیں بالآخر وہاں امن اور امداد کی فراہمی ممکن بنائیں گی۔ اللہ تعالیٰ غزہ کے لوگوں کے حال پر رحم فرمائے اور ان کی غیبی مدد فرمائے۔ یقیناً انسانیت کا درد کبھی رائیگاں نہیں جائے گا اور بالآخر غزہ میں امید کی سحر ضرور طلوع ہوگی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فریڈم فلوٹیلا بالا خر غزہ کے کے لیے
پڑھیں:
یہ ظلم کب تک ؟
ثناء یوسف اب نہیں رہی، وہ ایک نوجوان ٹک ٹاکر تھی۔ خوبصورت، زندہ دل خوابوں سے بھری ہوئی آنکھیں لیے سوشل میڈیا کی چکا چوند دنیا میں اپنی شناخت بنانے کی تگ و دو میں مصروف۔ مگر اب وہ صرف ایک خبر ہے، ایک لاش، ایک شمار میں اضافہ جو روز بڑھتا ہے، وہ خواتین جو مار دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عزت کے نام پر، بعض اوقات نہیں کہنے پر،کبھی انکار پر،کبھی شک پر اور اکثر تو صرف اس لیے کہ وہ عورت تھیں۔
ثناء کی کہانی وہ کہانی ہے جو اس سرزمین کی ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ مگر ہر بار ہم سنتے ہیں دل تھوڑا دکھتا ہے ،کچھ دن اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر خاموشی سناٹا اور قاتلوں کا اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مردوں کی انا عورتوں کے لہو سے سیراب ہوتی ہے۔ جہاں نہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک گناہ ہے، ایک سزا ہے جس کی قیمت جان سے چکانی پڑتی ہے۔
ثناء کا جرم کیا تھا؟ کہ اس نے ایک رشتے، ایک مرد ، ایک رویے کو نہ کہا؟ یا یہ کہ وہ خود کو اپنی شرائط پر جینے کی کوشش کر رہی تھی؟ جو بھی تھا اس کا فیصلہ گولی سے ہوا۔ اس کی زندگی جو شاید کسی کے لیے بے معنی تھی لیکن اس کی ماں بہن دوست یا اس کے خود کے خوابوں کے لیے قیمتی ترین بیدردی سے چھین لی گئی۔
ثناء یوسف، قندیل بلوچ کی یاد دلاتی ہے۔ قندیل جو مذہبی منافقتوں، سماجی دوغلے پن اور مردانہ اقدارکی دیواروں پر ناخوشگوار مگر سچائی سے بھرے آئینے لٹکا رہی تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، عزت کے نام پر اس کا بھائی جو خاندان کی عزت بچانے آیا تھا، دراصل اپنی مردانگی کے زخم چاٹ رہا تھا جو قندیل کی بیباکی اور خود اختیاری سے خوفزدہ تھا۔
قندیل ہو یا ثناء سب عورتیں ایک ہی جرم کی سزا وار ٹھہرتی ہیں، خود کو انسان سمجھنے کا جرم خود کو اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگنے کا جرم۔ یہی جرم خدیجہ صدیقی کا بھی تھا جسے لاہورکی ایک سڑک پر چاقو سے 23 دفعہ وار کیا گیا اس لیے کہ اس نے جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ایک بااثر شخص کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ زندہ رہی مگر اس کی روح پرکتنے زخم ثبت ہوئے کون جانتا ہے۔
اسی طرح نور مقدم جس کا قصہ کوئی پرانی کہانی نہیں بلکہ جدید پاکستان کے طاقتور اشرافیہ کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ نور کا سر قلم کر دیا گیا اور قاتل کی آنکھوں میں شرمندگی نہیں بلکہ تکبر تھا۔ جیسے کہ کہہ رہا ہو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں مجھے کچھ نہیں ہوگا اور واقعی یہ ملک ایک ایسی پناہ گاہ بن چکا ہے جہاں طاقتور مرد عورت کو قتل کرنے کے بعد بھی فخر سے سر بلند رکھتے ہیں، جہاں قانون انصاف سے پہلے رشتے داری، دولت اور اثر و رسوخ کو پہچانتا ہے۔
اگر ہم تھوڑا اور پیچھے جائیں تو ہمارے حافظے میں مختاراں مائی کا دکھ اب تک تازہ ہے جو گاؤں کے مردوں کی اجتماعی ہوس کا نشانہ بنی اور پھر بھی کھڑی رہی۔ اس نے اپنی آواز نہ صرف بلند کی بلکہ ریاست کے ایوانوں تک پہنچائی۔ مگر اس کی جنگ آسان نہ تھی، اسے خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اس پر انگلیاں اٹھیں مگر وہ ٹوٹی نہیں۔
اور پھر ایک اور نام آتا ہے سبین محمود جو کراچی میں روشن خیالی مکالمے اور سوچ کی آزادی کی علامت تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، اس لیے کہ وہ بولتی تھی اور عورت جب بولتی ہے، سوال اٹھاتی ہے تو خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ سب کہانیاں اس معاشرے کے بدنما چہرے پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہم عورتوں کو عزت کے مقام پر بٹھانے کی بات کرتے ہیں مگر جب وہ جینے کا سانس لینے کا محبت کرنے کا انکارکرنے کا یا صرف نہیں کہنے کا حق مانگتی ہیں تو انھیں دفن کر دیا جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام کی گٹھ جوڑ ہے۔ یہاں عورت صرف تب تک قابل قبول ہے جب وہ اطاعت گزار ہو خاموش ہو سجی سنوری ہو مرد کے لیے باعث زینت ہو۔ جیسے ہی وہ سوال کرتی ہے مزاحمت کرتی ہے اپنی حدود خود طے کرتی ہے وہ خطرہ بن جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ مرد روتے ہیں کہ اب مردوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے کہ عورتیں حد سے بڑھ رہی ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے کہ روز نئی ثناء نئی قندیل، نئی نور، نئی زینب قتل کی جا رہی ہے۔ زینب کو کون بھولا ہے؟ وہ معصوم بچی جو قصور کی گلیوں سے اغوا ہوئی، ریپ کا نشانہ بنی اور اس کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔
ریپ اور قتل کے یہ واقعات صرف جرم نہیں یہ ہمارے سماج کی شکست ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے اور ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری کا آئینہ ہے۔اگر ہم سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لڑکیوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ صرف بیوی، بیٹی، بہن نہیں، انسان بھی ہیں اور لڑکوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عورت ان کی ملکیت نہیں بلکہ برابری کی حقدار ہے۔
ہمیں ریاست سے انصاف مانگنا ہے مگر ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرکا سماج بھی بدلنا ہو گا۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں بیٹی کو کم اور بیٹے کو برتر سمجھتے رہیں گے جب تک ہم عورت کی عزت گھر کی چار دیواری میں جیسے جھوٹے نظریات کو سینے سے لگائے رکھیں گے، تب تک ثناء یوسف، نور مقدم، قندیل بلوچ، زینب، خدیجہ، مختاراں، سبین سب کی قبریں ہمارے ضمیر پر سوال اٹھاتی رہیں گی۔
ثناء کی ماں کو انصاف چاہیے، مگر انصاف صرف اس کے قاتل کو پھانسی دینے سے نہیں ہوگا، انصاف تب ہوگا جب ہر لڑکی نہیں کہنے کا حق لے سکے اور وہ حق اس کی موت نہ بنے۔
ہمیں ثناء کے لیے آواز بلند کرنی ہے کیونکہ وہ خاموش کردی گئی۔ ہمیں اس کے لیے چیخنا ہوگا کیونکہ اس کا گلا گھونٹا گیا۔ ہمیں لکھنا ہوگا، بولنا ہو گا، سڑکوں پر نکلنا ہوگا، کیونکہ عورت کی جان عزت رائے خواب اور انکار سب کچھ قیمتی ہے۔ثناء صرف ایک نام نہیں وہ ہر وہ لڑکی ہے جو اپنے لیے جینا چاہتی ہے جو نہیں کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور جو جانتی ہے کہ وہ صرف ایک جسم نہیں ایک مکمل انسان ہے۔لیکن سوال یہ ہے کیا ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم ایک اور ثناء کے مرنے کا انتظارکریں گے؟