لاس اینجلس: مظاہرین ’جانور‘ ہیں، ٹرمپ، ’وفاقی اقدامات غیر آئینی ہیں‘، گورنر کلیفورنیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
لاس اینجلس(نیوز ڈیسک)لاس اینجلس میں امیگریشن اور سیکیورٹی اہلکاروں کی حالیہ کارروائیوں کے خلاف جاری مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں، جس کے بعد شہر کے میئر نے مرکزی علاقوں میں رات کے اوقات میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے دوران متعدد گاڑیاں جلائی گئیں، درجنوں دکانوں کو لوٹا گیا اور سینکڑوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک فوجی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مظاہرین کو ’جانور‘ قرار دیا اور انہیں غیرملکی ایجنڈا رکھنے والے گروہ کہا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ وہ لاس اینجلس کو ’آزاد‘ کرانے کے لیے مکمل اقدامات کریں گے۔
ٹرمپ کا کہنا تھاکہ ہ وہ لوگ ہیں جو ہماری سڑکوں پر غیر ملکی پرچم اٹھا کر ملک کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، ان کو خاموش کرنا ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ہزاروں نیشنل گارڈ اہلکاروں اور سینکڑوں میرینز کو شہر میں تعینات کیا جا چکا ہے تاکہ قانون کی بالادستی قائم کی جا سکے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوجی اہلکار صرف وفاقی املاک کی حفاظت کریں گے، جبکہ گرفتاریاں مقامی پولیس کے ذریعے عمل میں آئیں گی۔
طاقت کا ناجائز استعمال
کلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے صدر ٹرمپ کے ان اقدامات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان پر وفاقی طاقت کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کیا۔ گورنر نیوسم نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ہماری ریاست کے معاملات میں مداخلت قابل قبول نہیں، صدر کا رویہ آمریت کی ایک شکل ہے۔ ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
شہر کی میئر کیرن بیس نے گزشتہ روز کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا، جو ڈاؤن ٹاؤن کے ایک میل کے علاقے میں رات 8 بجے سے صبح 6 بجے تک نافذ العمل رہے گا۔
مظاہروں کے دوران اب تک 300 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ درجنوں املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
یاد رہے کہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب امیگریشن حکام نے مقامی کمیونٹیز میں اچانک چھاپے مار کر متعدد غیرقانونی تارکین وطن کو حراست میں لے لیا۔ ان کارروائیوں کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے غیرقانونی اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ جارحانہ انداز ان کی انتخابی مہم کا حصہ ہو سکتا ہے، جس میں وہ قانون و انصاف کے رکھوالے کے طور پر خود کو پیش کر رہے ہیں، جبکہ مخالفین اس کو شہری آزادیوں پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔
مزیدپڑھیں:اسلام آباد :مارگلہ کی پہاڑیوں پر ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: لاس اینجلس
پڑھیں:
ٹرمپ نے عراق، شام کے مقابلے میں لاس اینجلس میں زیادہ امریکی فوجی بھیجے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً 4,000 نیشنل گارڈ اہلکار اور 700 فعال میرینز کو ریاست کیلیفورنیا کے لاس اینجلس میں تعینات کیا ہے، تاکہ غیر قانونی طور پر ملک میں آنے والے تارکین وطن کو پکڑنے کی کوششوں کے خلاف اچانک بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ غیر معمولی مظاہرے ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے خلاف ہو رہے ہیں۔
لاس اینجلس میں مظاہرین پر قابو پانے کے لیے میرینز تعینات
اے بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ’’لاس اینجلس میں 4,800 فعال نیشنل گارڈ اور میرینز اہلکار ہیں، جبکہ عراق میں 2,500 اور شام میں 1,500 امریکی فوجی ہیں۔‘‘
پینٹاگون کے مطابق لاس اینجلس میں فوج کی تعیناتی پر ٹیکس دہندگان پر 60 دنوں میں 134 ملین ڈالر کا بوجھ پڑے گا۔
(جاری ہے)
صدارتی اختیارات کے ’غلط استعمال‘ پر تشویش میں اضافہصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس اینجلس میں مظاہرین کے خلاف فوج کو تعینات کر دیا جب کہ وفاقی عدالت کے احکامات کو نظر انداز کر دیا ہے- یہ ایسے اقدامات ہیں جن سے امریکہ میں جمہوری اداروں کی حالت کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔
امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری
عام طور پر، صدر امریکی ریاست میں نیشنل گارڈ کو اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر تعینات نہیں کر سکتے۔
گورنروں کو ایسی تعیناتیوں کا اختیار دیا جاتا ہے۔ جب کہ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے نیشنل گارڈ کی ضرورت کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔تاہم، 1807 کے بغاوت ایکٹ کے تحت، صدر کو بغاوت یا شہری بدامنی کے معاملات میں گورنر کی اجازت کے بغیر فوجی دستے تعینات کرنے کا اختیار ہے۔ امریکی وفاقی نظام میں ریاستوں کے حقوق کو دی جانے والی اہمیت کے پیش نظر ٹرمپ کے اس اختیار کو استعمال کرنے کے فیصلے کو انتہائی غیر معمولی سمجھا جارہا ہے۔
گورنر نیوزوم نے ٹرمپ پر ایگزیکٹو پاور کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا اور خبردار کیا ہے کہ ان کے اقدامات سے جمہوری اصولوں کو خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’کیلیفورنیا میں یہ پہلا قدم ہوسکتا ہے، لیکن یہ واضح طور پر یہیں ختم نہیں ہو گا۔‘‘ نیوزوم نے کہا،’’اس کے بعد دوسری ریاستوں کا نمبر آئے گا اور پھر جمہوریت کا۔
‘‘ امیگریشن مخالف چھاپوں کو روکنے کے مطالباتلاس اینجلس ایریا کے میئرز اور سٹی کونسل کے اراکین نے امیگریشن کے خلاف جاری مسلسل چھاپوں کو روکنے کا مطالبہ کیا اور ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ امیگریشن ایجنٹوں کے ساتھ مسلح فوجی دستے کا استعمال بند کر دیں۔
پیراماؤنٹ کی نائب میئر برینڈا اولموس نے کہا، ’’میں آپ سے درخواست کرتی ہوں، براہ کرم میری بات سنیں، ہمارے رہائشیوں کو دہشت زدہ کرنا بند کریں۔
‘‘ اولموس اواخرہفتہ کو مظاہروں کے دوران ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہو گئی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا، "آپ کو ان اقدامات کو روکنے کی ضرورت ہے۔‘‘ایک نیوز کانفرنس میں لاس اینجلس میں دیگر میئرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے میئر کیرن باس نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کی ایما پر چھاپوں کے ذریعہ خوف پھیلایا گیا۔ شہر میں ضرورت کے مطابق رات کا کرفیو نافذ رہے گا۔
کیرن باس نے کہا ’’اگر چھاپے جاری رہے، اور اگر فوجی ہماری سڑکوں پر مارچ کرتے رہے تو میں تصور کرسکتی ہوں کہ کرفیو جاری رہے گا۔‘‘
ملک گیر چھاپوں میں پکڑے جانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پناہ کے متلاشی ہیں، اپنے ویزے کی مدت سے زائد قیام کرنے والے اور وہ تارکین وطن بھی شامل ہے جو اپنے مقدمات کی عدالتی سماعت کے منتظر ہیں۔
انتظامیہ نے نیشنل گارڈ اور میرینز کی تعیناتی کے اپنے فیصلے کے دفاع میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا حوالہ دیا ہے۔
کیلیفورنیا کے گورنر کی عدالت سے مداخلت کی اپیلکیلیفورنیا کے ڈیموکریٹک گورنر، گیون نیوزوم نے ایک وفاقی عدالت سے اپیل کی ہے کہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر میں امیگریشن کے خلاف کارروائیوں میں مدد کرنے والی فوج کو ہنگامی طور پر روک دے۔
ایک جج نے اس درخواست پر جمعرات کو سماعت مقرر کی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے بدھ کو اپنے سرکاری ردعمل میں اس مقدمے کو ’’غلط سیاسی اسٹنٹ‘‘ قرار دیا۔ جس سے اس کے بقول امریکی زندگیاں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے فوج تعینات کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’اگر میں فوج نہ بھیجتا تو شہر جل چکا ہوتا۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین