کوششوں کے باوجود دنیا سے بچہ مزدوری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 جون 2025ء) بارہ سالہ ٹیناساؤ مشرقی مڈغاسکر کی ایک کان میں دن بھر رینگ کر دو کلو گرام چمک دار معدن مائیکا جمع کرتی ہیں۔ وہ ٹانگوں سے معذور ہونے کے باعث چل پھر نہیں سکتیں۔ مائیکا سے انہیں جو اجرت ملتی ہے اس سے ان کا گھرانہ روزانہ کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔
مڈغاسکر میں ٹیناساؤ جیسے 10 ہزار بچے مائیکا کی بے قاعدہ صنعت میں کام کرتے ہیں۔
یہ معدن رنگ و روغن، کاروں کے پرزوں اور جسمانی آرائش کے کام میں استعمال ہوتی ہے۔ Tweet URLان میں بہت سے بچے اپنے والدین اور دادا دادیوں کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
مائیکا جمع کرتے ہوئے گرد کے نقصان دہ ذرات سانس کے ذریعے ان کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس سے صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ان میں کئی بچے ایسے ہیں جو پہلے تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن جب انہیں اس کام پر مجبور ہونا پڑا تو ان کی پڑھائی چھوٹ گئی۔ٹیناساؤ کے دادا بھی اسی کان میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام اب ان کے لیے آسان نہیں ہے لیکن اگر وہ اسے ترک کر دیں تو کھانا نہیں کھا پائیں گے۔
یہاں بقا کے لیے مردوخواتین اور بچوں سمیت سبھی کو کام کرنا پڑتا ہے۔2015 میں اقوام متحدہ نے 2025 تک دنیا بھر سے بچہ مزدوری ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق، اس ہدف کے حصول کی جانب پیش رفت بہت سست ہے۔
دونوں اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 138 ملین بچے اب بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔
تاہم، یہ تعداد 2020 کے مقابلے میں 12 ملین کم ہے۔'آئی ایل او' کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگ بو نے کہا ہے کہ اس رپورٹ کے نتائج امید افزا ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیش رفت ممکن ہے لیکن اس کے لیے یہ حقیقت یاد رکھنا ہو گی کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔
مزدور بچوں کا خطرناک کامیونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ 2000 کے بعد مزدور بچوں کی تعداد میں 100 ملین سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے پاس اس مسئلے پر قابو پانے کا خاکہ موجود ہے تاہم اس پر مزید کام ہونا چاہیے۔ بہت سے بچے کارخانوں، کھیتوں اور کانوں میں مشقت کرتے ہیں اور ان میں بیشتر کو اپنی بقا کے لیے خطرناک کام کرنا پڑتا ہے۔'آئی ایل او' میں بچہ مزدوری کے مسئلے پر کام کرنے والے ماہر بنجمن سمتھ نے یو این نیوز کو بتایا کہ بچوں کا ہر کام بچہ مزدوری نہیں ہوتا بلکہ وہی کام اس ذیل میں آتا ہے جو بچوں کو ان کے بچپن سے محروم کر دے اور جس سے ان کی صحت و ترقی کو خطرہ ہو۔
دنیا بھر میں 54 ملین بچوں کو کان کنی سمیت خطرناک کام کرنا پڑتے ہیں۔ افریقی ملک بینن سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ ہونورائن بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ تعمیراتی مقصد کے لیے کھودے گئے ایک وسیع گڑھے سے بجری نکالنے کا کام کرتی ہیں اور انہیں فی ٹوکری کے حساب سے اجرت ملتی ہے۔ وہ ہیئر ڈریسر بننا چاہتی ہیں اور اس مقصد کو لے کر رقم جمع کرتی رہتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچہ مزدوری نسل در نسل چلتی ہے۔ ایسے بچوں کو عام طور پر تعلیم تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کے باعث وہ مستقبل کے مواقع سے محروم ہو جاتے ہیں اور اس طرح غربت کے دائمی چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔
'آئی ایل او' کے ماہر اور رپورٹ کے مرکزی مصںف فیڈریکو بلانکو نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو محض شماریاتی طور پر دیکھنا درست نہیں ہو گا۔
اس سے متعلقہ ہر ہندسے کے پیچھے ایک بچہ ہے جوتعلیم، تحفظ اور باوقار مستقبل کا حق رکھتا ہے۔بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی 13 سالہ نور کو ان کے والدین نے سکول سے اٹھا لیا تھا تاکہ وہ کوئی کام کر کے گھر چلانے میں مدد دیں۔ کیمپ کے قریب یونیسف کے ایک مرکز پر تعینات اہلکار نے انہیں کام کرتے دیکھا تو ان کے والدین سے بات کر کے انہیں دوبارہ سکول میں داخل کروایا۔
نور کا کہنا ہے کہ کبھی وہ استاد بننے کا خواب دیکھتی تھیں۔ تاہم جب انہیں سکول سے اٹھایا گیا تو انہوں نے سوچا کہ شاید اب وہ کبھی اپنا یہ خواب پورا نہیں کر سکیں گی۔ لیکن اب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے پڑھ لکھ کر استاد بننا ممکن ہے۔
کلی طریقہ کار کی ضرورتیونیسف اور 'آئی ایل او'نے اس مسئلے کو تعلیمی، معاشی اور سماجی تناظر میں حل کرنے کے لیے حکومتوں کے تمام شعبوں کی جانب سے مربوط پالیسی اپنانے پر زور دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچہ مزدوری کا خاتمہ کرنے کی کوششوں میں ان حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جن کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے بجائے کام پر بھیجتے ہیں۔اس معاملے میں والدین کے لیے اجتماعی سودے بازی اور محفوظ کام کے حقوق بھی بہت اہم ہیں۔ سمتھ کا کہنا ہےکہ اگر بڑوں کو کام کے اچھے حالات میسر ہوں گے تو غربت میں کمی آئے گی جو لامحالہ بچہ مزدوری میں کمی پر منتج ہو گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے خطوں میں مزدور بچوں کی تعداد میں کسی نہ کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے۔ اس وقت ذیلی صحارا افریقہ کے ممالک میں اس مسئلے کی شدت دیگر جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جہاں دنیا کے دو تہائی بچہ مزدور پائے جاتے ہیں۔
کیتھریل رسل نے کہا ہے کہ امدادی وسائل کی قلت کے باعث بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے کڑی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیاں ضائع ہونےکا خدشہ ہے۔ سبھی کو یقینی بنانا ہو گا کہ بچے کام کی جگہوں کے بجائے کمرہ ہائے جماعت اور کھیل کے میدانوں میں ہوں۔
ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ ایڈوارا تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن انہیں مزدوری کرنا پڑتی ہے۔
چند سال قبل وہ پڑھائی بھی کرتے تھے لیکن مزدوری کی وجہ سے انہیں سکول سے چھٹیاں کرنا پڑتی تھیں۔ ایک روز ان کے استاد نے انہیں سکول سے نکال دیا۔ اب وہ سونے کی ایک کان میں کام کرتے ہیں جہاں انہیں روزانہ 35 ڈالر تک آمدنی ہوتی ہے۔ تاہم حصول تعلیم کے لیے ان کا عزم ماند نہیں پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک روز وہ سکول جائیں گے اور کچھ بن کر دکھائیں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں کام کرتے ہیں نے کہا ہے کہ بچہ مزدوری خطرناک کام کا کہنا ہے آئی ایل او بچہ مزدور رپورٹ میں گیا ہے کہ اس مسئلے دنیا بھر کام کرنا ہیں اور سکول سے ہوتا ہے بچوں کو کے لیے
پڑھیں:
اسلام جلد دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا، امریکی تھنک ٹینک
تحقیق کاروں نے کہا ہے کہ بالغ افراد کا اسلام قبول کرنا یا ترک کرنا اس اضافے میں نمایاں کردار نہیں رکھتا۔ رپورٹ کے مطابق، عیسائیت میں 1.8 فیصد کمی ہوئی، خاص طور پر یورپ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جہاں غیر مسیحی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دنیا بھر میں تیزی سے اسلام کے پھیلاو کے متعلق امریکی تھنک ٹینک نے انکشاف کیا ہے کہ ایک عیسائی کی پیدائش کے مقابلے میں 3 افراد عیسائیت چھوڑ رہے ہیں، رجحان برقرار رہا تو اسلام جلد دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2020 کے درمیان دنیا میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ بڑھی، جس کے بعد مذہب سے غیر منسلک افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کی تازہ ترین عالمی مذہبی آبادی کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اگرچہ عیسائیت کے ماننے والوں کی تعداد 122 ملین سے بڑھ کر 2.3 ارب تک پہنچی، مگر مجموعی آبادی میں اس کا تناسب کم ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں مسلم آبادی میں 347 ملین افراد کا اضافہ ہوا، جو کہ تمام دیگر مذاہب کی مشترکہ آبادی سے زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ قدرتی آبادی میں اضافہ ہے، جہاں مسلمانوں کی پیدائش کی شرح اموات سے زیادہ ہے۔
تحقیق کاروں نے کہا ہے کہ بالغ افراد کا اسلام قبول کرنا یا ترک کرنا اس اضافے میں نمایاں کردار نہیں رکھتا۔ رپورٹ کے مطابق، عیسائیت میں 1.8 فیصد کمی ہوئی، خاص طور پر یورپ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جہاں غیر مسیحی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں مذہب سے غیر منسلک افراد کی تعداد 24.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے بعد تیسری بڑی گروپ ہے۔ شمالی امریکہ میں یہ تناسب 30.2 فیصد ہو چکا ہے۔
رپورٹ میں پہلی بار 117 ممالک میں بالغ افراد کے مذہبی رجحانات پر تحقیق کی گئی، جس میں ان کے بچپن کے مذہب اور بالغ ہو کر اپنائے گئے مذہب کا موازنہ کیا گیا۔ اس سے پتہ چلا کہ عیسائیت چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں لوگوں کی تعلیم اور معاشرتی ترقی زیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بدھ مت کی پیروی کرنے والوں کی تعداد 2010 سے 2020 کے دوران 19 ملین کم ہوئی، جو کہ واحد مذہبی گروہ ہے جس کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
زیادہ تر بدھ مت پیروکار مشرقی ایشیا میں ہیں جہاں مذہب سے لاتعلقی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلام کا عالمی حصہ 1.8 فیصد بڑھ کر 25.6 فیصد ہوگیا۔ کم اوسط عمر (24 سال)، زیادہ شرح پیدائش، اور کم دوری نے اسلام کو سب سے تیزی سے بڑھتا مذہب بنایا،عیسائی اور مسلم آبادی کے سائز کا فرق کم ہو رہا ہے۔ 2020 میں 24.2 فیصد افراد غیر مذہبی تھے جب کہ2010 میں یہ شرح23.3 فیصد تھی۔ چین میں ایک ارب تیس کروڑ، امریکہ 10 کروڑ 10 لاکھ، اور جاپان 7 کروڑ 30 لاکھ کے ساتھ غیر مذہبی افراد سب سے زیادہ ہیں۔