ٹرمپ کی مداخلت کے باوجود تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں جھڑپیں جاری
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
صدر ٹرمپ کی فون کال کے بعد تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیر اعظم پھم تھم وچایچائی نے کہا تھا کہ وہ اصولی طور پر جنگ بندی اور جلد بات چیت پر راضی ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں اتوار کو چوتھے روز بھی جھڑپیں جاری ہیں، حالاں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق دونوں ہمسایہ ممالک ہر سال لاکھوں غیر ملکی سیاحوں کی منزل ہوتے ہیں، اس وقت کئی سالوں کے خونریز ترین تنازع میں الجھے ہوئے ہیں، جس میں اب تک کم از کم 33 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور 2 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
دونوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ لڑائی کے خاتمے کے لیے بات چیت شروع کرنے کو تیار ہیں، جب کہ صدر ٹرمپ نے ہفتے کی رات دونوں وزرائے اعظم سے بات کی اور کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے جلد ملاقات پر متفق ہو گئے ہیں۔ لیکن اتوار کی صبح، شمالی کمبوڈیا اور شمال مشرقی تھائی لینڈ کے درمیان متنازع قدیم مندروں کے قریب گولہ باری کا تبادلہ ہوا، یہ علاقہ لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔
کمبوڈیا کی وزارتِ دفاع کی ترجمان مالی سوچیٹا نے کہا کہ تھائی افواج نے صبح 4 بج کر 50 منٹ (پاکستانی وقت کے مطابق صبح 6 بج کر 50 منٹ) پر مندروں کے آس پاس حملے شروع کیے۔ اے ایف پی کے مطابق کمبوڈیا کے قصبے سمراونگ میں (محاذِ جنگ سے 20 کلومیٹر دور) توپوں کی گونج سے کھڑکیاں لرزتی رہیں۔ دوسری جانب تھائی فوج کے ڈپٹی ترجمان رچا سکسیوانن نے کہا کہ کمبوڈیائی فورسز نے صبح 4 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق 6 بجے) گولہ باری شروع کی۔
کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن مانیت نے اتوار کو کہا کہ ان کا ملک فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے وزیر خارجہ پراک سوکھون امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے بات کریں گے، تاکہ تھائی لینڈ کے ساتھ رابطہ کیا جا سکے، لیکن بنکاک کو کسی بھی معاہدے سے انحراف کرنے سے خبردار کیا۔ صدر ٹرمپ کی فون کال کے بعد تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیر اعظم پھم تھم وچایچائی نے کہا کہ وہ اصولی طور پر جنگ بندی اور جلد بات چیت پر راضی ہو گئے ہیں۔
تاہم اتوار کو دونوں ممالک نے ایک بار پھر ایک دوسرے پر الزام لگایا کہ وہ امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ تھائی وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ کمبوڈیا کی فورسز نے سورین صوبے میں شہری گھروں پر گولے داغے ہیں۔ تھائی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ کمبوڈیا نیک نیتی کا مظاہرہ نہ کرے اور بار بار انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف ورزی نہ روکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تھائی لینڈ کے نے کہا کہ کے مطابق ٹرمپ کی بات چیت
پڑھیں:
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان شدید سرحدی جھڑپیں، متعدد ہلاکتیں، تھائی سرحدی اضلاع میں مارشل لا
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان گزشتہ ایک دہائی کی شدید ترین سرحدی جھڑپیں جاری ہیں جن میں بھاری ہتھیاروں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ اب تک کم از کم 16 افراد ہلاک اور ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ-کمبوڈیا سرحدی جھڑپیں: 10 سے زائد افراد ہلاک
سرحدی کشیدگی کا آغاز مئی 2025 میں ایک کمبوڈین فوجی کی ہلاکت سے ہوا تھا جس کے بعد سفارتی تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا۔ جمعرات کے روز دونوں ممالک کے درمیان متنازع سرحدی علاقے میں جھڑپیں شروع ہوئیں جو اب تک جاری ہیں۔
جھڑپوں کا مرکز قدیم ہندو مندر پریاہ ویہیر (Preah Vihear) کے اطراف کا علاقہ ہے جہاں دونوں ممالک تاریخی دعوے رکھتے ہیں۔ تھائی لینڈ نے کمبوڈین سفیر کو ملک بدر کر دیا جبکہ کمبوڈیا نے اس پر بارودی سرنگیں بچھانے کا الزام مسترد کیا ہے۔
کمبوڈیا نے ٹرک پر نصب راکٹ لانچرز تعینات کیے ہیں جن کے ذریعے مبینہ طور پر تھائی شہری علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب تھائی فوج نے امریکی ساختہ ایف-16 جنگی طیارے استعمال کرتے ہوئے سرحد پار کمبوڈین فوجی اہداف پر حملے کیے۔
تقریباً 130,000 سے زائد افراد تھائی لینڈ کے سرحدی علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیے جا چکے ہیں جبکہ کمبوڈیا میں 12،000 خاندانوں کو محاذ سے دور لے جایا گیا ہے۔
تنازعے کی بنیاد؟تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان 817 کلومیٹر طویل سرحد پر کئی مقامات پر ملکیت کے دعوے متنازع ہیں جن کی بنیاد سنہ 1907 کے فرانسیسی نقشے پر ہے۔ اگرچہ عالمی عدالت انصاف نے سنہ 1962 اور سنہ 2013 میں کمبوڈیا کے حق میں فیصلے دیے لیکن تھائی لینڈ نے ان فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
مزید پڑھیے: تھائی وزیر اعظم کی لیک ہونے والی کال کس طرح سیاسی بحران کا سبب بنی؟
سنہ 2008 میں پریاہ ویہیر مندر کو یونیسکو عالمی ورثہ قرار دیے جانے کی کوشش کے بعد دونوں ممالک کے درمیان شدید جھڑپیں ہو چکی ہیں جن میں درجنوں جانیں جا چکی ہیں۔
حالیہ کشیدگی کی وجہحالیہ کشیدگی کی ایک بڑی وجہ قومی خودمختاری کے حساس معاملات اور سیاسی قیادت کے درمیان تعلقات کا بگاڑ ہے۔ ایک لیک آڈیو کال میں تھائی وزیراعظم پائیتونگتارن شیناواترا کی کمبوڈین رہنما ہن سین سے بات چیت پر تنقید کے بعد ان کی عدالتی معطلی نے سیاسی بحران کو جنم دیا۔
کیا کوئی حل نکل سکتا ہے؟دونوں ممالک نے جون 14 کو سرحدی تنازعات کے حل کے لیے کمیشن اجلاس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ کمبوڈیا نے اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرتے ہوئے تھائی لینڈ کے خلاف غیر اعلانیہ اور منظم فوجی جارحیت کا الزام لگایا ہے۔
ادھر تھائی لینڈ کا مؤقف ہے کہ مذاکرات صرف اس وقت ممکن ہوں گے جب کمبوڈیا تشدد بند کرے۔
تھائی لینڈ کے 8 سرحدی اضلاع میں مارشل لاتھائی لینڈ نے کمبوڈیا کے ساتھ بڑھتی ہوئی سرحدی جھڑپوں کے بعد 8 سرحدی اضلاع میں مارشل لا نافذ کر دیا ہے۔
تھائی فوج کے بارڈر ڈیفنس کمانڈ کے کمانڈر اپیچارٹ ساپراسیٹ نے اعلان کیا کہ صوبہ چنتھابوری کے سات اضلاع اور صوبہ تراٹ کے ایک ضلع میں مارشل لا نافذ کیا گیا ہے تاکہ امن و امان برقرار رکھا جا سکے۔
مزید پڑھیں: دنیا کے ایک چوتھائی ممالک میں خواتین کی صورتحال میں تنزلی ہوئی، اقوام متحدہ
قائم مقام وزیراعظم پھمتھم وچھایا چھائی نے کمبوڈیا کے ساتھ سرحدی تنازعے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جھڑپیں کسی بھی وقت جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تھائی کمبوڈیا تنازع تھائی کمبوڈیا جھڑپیں تھائی لینڈ تھائی لینڈ مارشل لا کمبوڈیا