وفاقی بجٹ؛ ملک بھر کے مستقل اساتذہ اور محققین کیلئے بڑی خوشخبری
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی حکومت نے مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں ملک بھر کے مستقل اساتذہ اور محققین کے لیے بڑا ریلیف فراہم کرتے ہوئے 25 فیصد ٹیکس ریبیٹ بحال کر دیا ہے یہ ریلیف نہ صرف موجودہ مالی سال بلکہ سابقہ ٹیکس سال 2023 اور 2024 پر بھی لاگو ہوگا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ماہرین تعلیم نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو تعلیم دوست اقدام قرار دیا ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سینئر افسرنے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے، خاص طور پر ان اساتذہ اور محققین کے لیے جو تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی آواز عام طور پر پالیسی سازوں تک نہیں پہنچتی۔
گزشتہ برسوں میں اس ریبیٹ کے خاتمے کے باعث تعلیمی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی تھی اور متعدد اساتذہ کو اضافی ٹیکس بوجھ کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم وفاقی ٹیکس محتسب کے دفتر کی طرف سے اس مسئلے پر مسلسل توجہ دی گئی اور اب حکومت نے اس رعایت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ پچھلے دو برسوں کے لیے بھی قابل اطلاق قرار دے کر تعلیمی طبقے کے دیرینہ مطالبے کو پورا کر دیا ہے۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف مالی ریلیف فراہم کرے گا بلکہ حکومت کے تعلیمی اور تحقیقی شعبے کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا مظہر بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں، اساتذہ اور محققین کی جانب سے اس فیصلے کا بھرپور خیرمقدم کیے جانے کا امکان ہےجس سے قومی سطح پر علمی ترقی اور تحقیق کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
وفاقی بجٹ26-2025 کے سرکاری دستاویزات میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ مستقل بنیادوں پر کام کرنے والے اساتذہ اور محققین کو ٹیکس واجب الادا پر 25 فیصد ریبیٹ ٹیکس سال 2023 سے 2025 تک مؤثر طور پر بحال کر دی گئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اساتذہ اور محققین
پڑھیں:
بجٹ کو آئی ایم ایف کے پنجرے سے نکالا گیا ہے ‘تاجر برادری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (کامرس رپورٹر) ملک بھر کی تاجر برادری نے بجٹ کو آئی ایم ایف کے پنجرے سے نکلا بجٹ قرار دے دیا ہے۔ صدر فیڈریشن چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹریز عاطف اکرام شیخ، سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں، نائب صدر امان پراچہ، یو بی جی کے صدر زبیر طفیل، پاکستان ناسپتی ایسوسی ایشن کے چیئرمین عمر ریحان، ٹمبر مرچنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین شرجیل گوپلانی، معروف بزنس مین شہزاد مبین اور دیگر کاروباری شخصیات نے وفاقی بجٹ 2025-26ء پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئے مالی سال کا بجٹ انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ہے جبکہ یونائٹیڈ بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم تنویر نے وفاقی بجٹ کے حوالے سے کہا کہ حکومت نے فیڈرل ایکسپائز ڈیوٹی کے حوالے سے ہماری ڈیمانڈ مان لیں، حکومت کو آئی پی پیز معاہدے ختم ہونے سے 3 ٹریلین روپے واپس ملے جو پاور سیکٹر کے لیے مثبت قدم ہے۔ علاوہ ازیں کراچی چیمبر کے صدر جاوید بلوانی اور بزنس مین گروپ کے چیئرمین زبیرموتی والا نے وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کو “بجٹ کو آئی ایم ایف کے پنجرے سے نکلا بجٹ قرار دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ کیموفلاج ہے‘ وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر پروڈیولنک کے ذریعہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ وفاقی حکومت کے مالیاتی بجٹ میں ہماری کچھ تجاویزکو منظورکیا گیا کچھ کومسترد کیا ہے، مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے اس لیے شرح سود کو7 فیصد پرہونا چاہیے،کچھ فنڈ بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی رکھی گئی ہے لیکن دیکھا جائے گا کہ اسے کیسے اسے خرچ کریں گے، ہماری تجویز یہی تھی کہ ٹیکس فارم آسان ہو، کہتے ہیں آسان کردیا ہے لیکن عملاً ایسا نہیں دیکھا ہے۔ ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ سپرٹیکس کو نصف کردیا ہے یہ اچھا فیصلہ ہے جبکہ حیدرآباد، سکھر موٹروے کے لیے بجٹ رکھا ہے جو مثبت قدم ہے، ود ہولڈنگ ٹیکس پراپرٹی ٹرانسفر پرکم کرنا اور ایف ای ڈی ٹرانسفر آف پراپرٹی ختم کرنا ہمارا مطالبہ تھا جسے حکومت نے مان لیا، کسٹم کے حوالے سے پری کلئیرنس آف گڈزکسٹم کی ہوگی اس سے صنعتی خام مال آسانی سے مل سکے گا لیکن سیونگ انکم پر ٹیکس کو بڑھا دیا گیا ہے جو درست نہیں اس سے عوام اور بالخصوص پنشنرز متاثر ہوں گے، ہمارا مطالبہ تھا کہ لوکل انڈسٹری سے ای ایف ایس ہٹا دیا جائے لیکن وہ مطالبہ مانا نہیں گیا البتہ نان فائلرکو ٹیکس نیٹ میں لانا اچھی بات ہے، فاٹا پاٹا پر10فیصد سیلزٹیکس نافذ کیا گیا ہے اس سے حکومت کو فائدہ ہوگا اور چوری کے راستے بند ہوں گے تاہم پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگانا درست نہیں‘ فکس ٹیکس رجیم پر ایکسپورٹرکو نہیں لایا گیا، یہ مطالبہ تھا جو نہیں مانا گیا۔ نائب صدرامان پراچہ نے کہا کہ متبادل انرجی کی پالیسی بنائی جائے لیکن حکومت نے سولر پینل پر سیلز ٹیکس 18 فیصد کردیا اس سے قیمت بڑھ جائے گی‘ ای کامرس پر سیل پرچیزپر ٹیکس عاید کیا جودرست نہیں، بیروزگار نوجوان ای کامرس کے ذریعے پیسے کماتے تھے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ریلیف مانگتے تھے تاکہ انڈسٹری اپنے قدم جما سکے مگر زرعی شعبہ کو بھی سہارا نہ مل سکا جبکہ ایجوکیشن پر حکومت نے آنکھیں بند رکھیں اور کوئی ریلیف نہیں ملا۔ شرجیل گوپلانی نے کہا کہ یہ ساڑھے6 ہزار ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے، بچوں کو روزگار نہیں مل رہا اس کے باوجود آئی ٹی میں18فیصد ٹیکس لگا دیا گیا، یہ عوام دشمن بجٹ ہے۔ رائس ایکسپورٹرزایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین جاوید جیلانی اور سابق چیئرمین رفیق سلیمان نے کہا کہ 7 لاکھ فارمرز کو حکومت نے بغیرکسی سیکورٹی کے ایک ایک لاکھ روپے فی کس دینے کی بات کی ہے جو خوش آئند ہے‘ سکھر حیدرآباد موٹر وے بنانے کے لیے 15ارب روپے مختص کرنا مثبت قدم ہے اس سے کسانوں اور ایکسپورٹرز کو فائدہ ہوگا اور زرعی مصنوعات کی ترسیل میں آسانی ہوگی،2 فیصد ٹیکس کے نفاذ سے سوالات جنم لیں گے حالانکہ یہ پہلے ایک فیصد تھا۔ شیخ عمر ریحان نے کہا کہ انڈسٹری کو کوئی مراعات نہیں ملیں اور گھی وآئل سیکٹر اس بجٹ سے مطمئن نہیں ہے‘ فاٹا اور پاٹا پر10فیصد ٹیکس کا نفاذ کی حمایت کرتے ہیں لیکن مجموعی طور سے ہم وفاقی بجٹ سے مایوس ہیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس نے وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کو کیموفلاج قراردیتے ہوئے حکومت کو آڑھے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ٹیکس کلیکشن کے لیے ایف بی آر کی جانب سے ہراساں کرنے کا عمل بڑھے گا، بجٹ میں ایکسپورٹ بڑھانے اور انڈسٹری لگانے کے حوالے سے کوئی پلان نہیں دیا گیا، بجٹ تقریر کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کے سی سی آئی کے صدر جاوید بلوانی نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں ایکسپورٹ بڑھانے کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گیے،کراچی میں پانی کا سنگین مسئلہ ہے اور کے فور پروجیکٹ کے لیے 3.2 ارب روپے رکھے ہیں جو کراچی والوں کے ساتھ مذاق ہے۔ جاوید بلوانی نے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ کے پاس کراچی کے تاجروں سے ملنا کا وقت نہیں تھا، وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں، پاکستان واحد ملک ہے جس میں ٹیکس دینے والوں کے بجائے قرض دینے والوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بزنس مین گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا کہ سولر پینل پر ٹیکس لگانا حیران کن ہے، ٹیکس کلیکشن بڑھانے کے لیے ایف بی آر کو سختیوں کی اجازت مل جائے گی، مجھے نہیں لگتا جو ٹیکس ٹارگٹ رکھا ہے وہ حاصل ہو۔