مودی اور حسینہ واجد کا خطے میں بے امنی اور انتشار کے لیے گٹھ جوڑ
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کٹھ پتلی سابق بنگلادیشی وزیراعظم حسینہ واجد کا خطے میں بے امنی اور انتشار کے لیے گٹھ جوڑ عیاں ہوگیا۔
بھارتی ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی ہم خیال بنگلادیش سے فرار ہوکر بھارت میں پناہ لینے والی سابق وزیراعظم حسینہ واجد ہی خطے میں انتشار کا بڑا سبب ہیں۔
گزشتہ سال بنگلا دیش کے سیاسی بحران میں مودی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ بنگلا دیش میں امن کے بجائے کشیدگی کو ہوا دیتے دکھائی دیے جب کہ مودی کے اس سوچے سمجھے ایجنڈے کو ان کی کٹھ پتلی حسینہ واجد نے سر انجام دیا ۔
بنگلا دیش کے حالیہ بحران میں مودی کا اشتعال انگیز اور غیر ذمے دارانہ رویہ خطے میں بے امنی پیدا کرنے کی واضح مثال ہے۔ بنگلا دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے مودی اور شیخ حسینہ گٹھ جوڑ پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے مودی کی سازشی حکمت عملی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
محمد یونس نے کہا کہ میں نےمودی سے درخواست کی کہ شیخ حسینہ کو بنگلا دیش میں آن لائن نفرت انگیز تقاریر سے روکنے میں مدد کریں۔ مودی نے خاموش تماشائی بنتے ہوئے جواب دیا کہ یہ سوشل میڈیا ہے، ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ مودی کا غیر سنجیدہ جواب ایک دھماکا خیز صورتحال سے جان چھڑانے کی کوشش تھی۔ مودی کا رویہ نہ صرف بنگلا دیش بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بنگلا دیش میں ظلم و ستم کئی مہینوں تک جاری رہا، مگر بھارت خاموش رہا۔
محمد یونس نے کہا کہ سوشل میڈیا کو بہانہ بنا کر مودی حکومت نے اس انسانی بحران سے آنکھیں چرائیں۔ جب بنگلا دیش ایک مشکل وقت سے گزر رہا تھا، بھارت کی جانب سے کوئی سنجیدہ سفارتی کوشش سامنے نہیں آئی۔ مودی کی انتشاری سوچ اور لاتعلقی جنوبی ایشیا کو عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حسینہ واجد بنگلا دیش مودی اور
پڑھیں:
مودی کی ناکام پالیسیوں نے بھارتی معیشت کو ڈبو دیا؛ آٹو انڈسٹری بحران کا شکار
بھارت میں مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں ملکی معیشت ڈوبنے کے دہانے پر آ چکی ہے جب کہ دیگر صنعتوں کی طرح آٹو انڈسٹری بھی بحران کا شکار ہے۔
مودی کی ناقص پالیسیوں سے بھارت کی گرتی معیشت کے سبب نئی گاڑیوں کی فروخت میں بڑی کمی ریکارڈ ہوئی ہے اور بھارت میں نئی گاڑیوں کی فروخت میں شدید کمی نے تیزی سے ترقی کرتی بھارتی معیشت کے دعووں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
بھارت میں کار ڈیلرشپس پر ہزاروں کروڑ مالیت کی گاڑیاں کھڑی ہیں جو کئی مہینوں سے خریداروں کی منتظر ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ صورت حال نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ بھارت کی موجودہ معاشی حکمت عملی پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔
کار ساز کمپنیاں مسلسل گاڑیاں مارکیٹ میں دھکیل رہی ہیں حالانکہ عوامی خریداری کا رجحان گزشتہ ایک سال سے بہت کم ہے۔ ڈیلرز پر ورکنگ کیپٹل کا دباؤ بڑھ چکا ہے اور کئی کاروباروں کے لیے روزمرہ کی مالی ذمہ داریاں پوری کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق فیکٹریوں سے گاڑیاں نکل تو رہی ہیں لیکن شو رومز میں ہی کھڑی رہ جاتی ہیں جو بھارت کی اصل معاشی صورت حال کو بے نقاب کرتی ہیں۔
دوسری جانب مودی سرکار کے ترقی کے دعوے زمینی حقائق سے مختلف ہیں۔ بھارتی صحافی شیو ارور خبردار کر چکے ہیں کہ یہ غلط اور خطرناک ہو رہا ہے،ریکارڈ ₹52,000 کروڑ کی ان وکرو گاڑیوں کا انبار ملک کی سست معیشت کا آئینہ دار ہے۔ اس بحران نے بھارتی مڈل کلاس کی مشکلات کو بھی عیاں کر دیا ہے۔
مہنگائی، بلند سود کی شرح اور روزگار کے غیر یقینی حالات کے سبب مڈل کلاس بڑی خریداریوں سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں اور گاڑیوں پر بھاری جی ایس ٹی نے عام بھارتی کی قوتِ خرید کو مفلوج کر دیا ہے۔
اُدھر نئی نسل کا رجحان اب گاڑی خریدنے کے بجائے رائڈ شیئرنگ سروسز کی طرف بڑھ چکا ہے، جو بدلتی سماجی و معاشی سوچ کی علامت ہے۔ مودی حکومت کی ’’میڈ ان انڈیا‘‘ پالیسی شدید مشکلات کا شکار ہے اور پیداواری سطح پر ترقی کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا، وہ مارکیٹ میں کھپت نہ ہونے کے سبب کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے۔
بھارت کے بڑے شہروں میں ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل نے بھی گاڑی خریدنے کے رحجان کو کم کر دیا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی کے عبوری مرحلے نے صارفین کو مزید الجھن میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی کار انڈسٹری کا بحران صرف ڈیلرز یا کمپنیوں تک محدود نہیں بلکہ لاکھوں مزدوروں، سپلائی چین ورکروں اور چھوٹے کاروباریوں بھی متاثر ہو رہے ہیں ۔ یہ ساری صورتحال بھارت کے لیے ایک بڑے معاشی اور پالیسی بحران کا پیش خیمہ ہے۔