سائنسدانوں کے ہاتھ سورج کا نیا روپ لگ گیا، اس سے کیا مدد ملے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سورج کے جنوبی قطب کی پہلی ویڈیو اور تصاویر یورپی خلائی ایجنسی کے سولر آربیٹر خلائی جہاز کے ذریعے زمین پر بھیج دی گئیں۔
برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق نئی تصاویر سائنس دانوں کو یہ جاننے کے قابل بنائیں گی کہ سورج کس طرح تیز طوفانوں اور پرسکون اوقات کے درمیان چکر لگاتا ہے۔
یہ اہم ہے کیونکہ شدید شمسی سرگرمی سیٹلائٹ مواصلات کو متاثر کر سکتی ہے اور زمین پر پاور گرڈ کو دستک دے سکتی ہے۔
نئی تصاویر میں ایک چمکتا ہوا روشن ماحول دکھایا گیا ہے جس کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت ایک ملین ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے۔ گیس کے گہرے بادل ہیں جن میں سے زیادہ تر ٹھنڈے ہیں پھر بھی ایک لاکھ ڈگری تک پہنچ رہے ہیں۔
ای ایس اے کے سائنس ڈائریکٹر پروفیسر کیرول منڈیل کے مطابق یہ تصاویر سورج کے اب تک کی سب سے قریب ترین اور سب سے زیادہ تفصیلی تصویریں ہیں اور سائنسدانوں کو یہ جاننے میں مدد فراہم کریں گی کہ وہ ستارہ جو ہمیں زمین پر زندگی دیتا ہے دراصل کیسے کام کرتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ سورج کے قطب کا پہلا نظارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سورج ہمارا قریب ترین ستارہ ہے، زندگی دینے والا اور جدید خلائی اور زمینی بجلی کے نظام کو ممکنہ طور پر خلل ڈالنے والا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے اور اس کے رویے کی پیشن گوئی کرنا سیکھیں۔
زمین سے سورج ایک ڈسک کی طرح نظر آتا ہے لیکن مختلف فریکوئنسیوں پر اور خصوصی فلٹرز کا استعمال کرتے ہوئے سائنس دان اسے اس کی حقیقی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک متحرک سیال گیند کے طور پر، جس میں مقناطیسی میدان مڑتے اور سطح پر گھومتے ہیں اور اس کی فضا میں گیس کے شعلوں اور لوپس کو جوڑ دیتے ہیں۔
یہ مقناطیسی میدان ہیں جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ سورج کب نکلتا ہے اور ذرات کو زمین کی طرف پھینکتا ہے۔
سائنس دان جانتے ہیں کہ سورج کی خاموشی کی مدت ہوتی ہے جب مقناطیسی میدانوں کو ترتیب دیا جاتا ہے، ہمارے ستارے میں ایک مقررہ مقناطیسی شمالی اور جنوبی قطب ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جب سورج پرتشدد دھماکے کرنے کے قابل نہیں ہوتا ہے لیکن یہ فیلڈز پھر پیچیدہ اور افراتفری کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ تقریباً ہر 11 سال بعد شمالی اور جنوبی قطبوں کے ساتھ پلٹتی ہیں۔
شمسی طوفان مواصلاتی سیٹلائٹس اور پاور گرڈز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں حالانکہ یہ آسمان میں خوبصورت ارورہ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
یو سی ایل کے پروفیسر لوسی گرین کے مطابق سورج کے کمپیوٹر ماڈلز کے ساتھ اس سرگرمی کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے کیونکہ قطبوں کی طرف مقناطیسی میدانوں کی منتقلی کے بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے کیوں کہ اب ہمارے ہاتھ اس پہیلی کا گمشدہ ٹکڑا لگ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد سورج کے کمپیوٹر ماڈل تیار کرنا ہے تاکہ اس خلائی موسم کی پیشن گوئی کی جا سکے۔ درست پیشین گوئیاں سیٹلائٹ آپریٹرز، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ارورہ پر نظر رکھنے والوں کو شمسی طوفانوں کے لیے بہتر منصوبہ بندی کرنے کے قابل بنائے گی۔
پروفیسر کرسٹوفر اوون نے کہا کہ سولر آربیٹر ہمیں خلائی موسم کی کچھ بنیادی سائنس کی تہہ تک جانے کے قابل بنائے گا لیکن اس مقام پر پہنچنے سے پہلے ہمیں تھوڑا سا مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہمیں سورج پر سگنل نظر آتے ہیں جن پر ہم زمین سے ٹکرانے والے پھٹنے کی پیشگوئی کرنے کے لیے انحصار کر سکتے ہیں۔
سولر آربیٹر نے سورج کی مختلف تہوں اور ان کی حرکت پر کیمیائی عناصر کی نئی تصاویر بھی حاصل کی ہیں۔ یہ اسپائس نامی ایک آلے کا استعمال کرتے ہوئے لی گئی ہیں جو روشنی کی مخصوص تعدد کی پیمائش کرتا ہے جسے اسپیکٹرل لائنز کہتے ہیں اور جو مخصوص کیمیائی عناصر ہائیڈروجن، کاربن، آکسیجن، نیین اور میگنیشیم کے ذریعے معلوم درجہ حرارت پر بھیجے جاتے ہیں۔
پہلی بار اسپیکٹرل لائنوں کا سراغ لگایا گیا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ شمسی مواد کے جھنڈ کتنی تیزی سے حرکت کر رہے ہیں۔ یہ پیمائشیں یہ بتا سکتی ہیں کہ کس طرح ذرات شمسی ہوا کی شکل میں سورج سے باہر نکلتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی پاکستان کو دیوالیہ کر گئی، ہم نے ترقیاتی بجٹ میں جان ڈالی، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نے کہا کہ سکتے ہیں سورج کے کے قابل کہ سورج ہیں کہ
پڑھیں:
کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
اڑن طشتریوں اور خلائی اغوا کی کہانیوں کو بھول جائیں کیونکہ اب سائنسدان زمین سے باہر زندگی کی تلاش کو ایک منظم اور سنجیدہ سائنسی مشن کے طور پر انجام دے رہے ہیں اور توقع ہے کہ اگلی دہائی میں ہمیں اس کا کوئی ثبوت بھی مل سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیویارک: آسمان میں پراسرار اشیا کی نقل و حرکت، کیا یہ خلائی مخلوق کی کارستانی ہے؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت زمین سے باہر زندگی کی تلاش کئی محاذوں پر جاری ہے۔ مریخ پر ناسا کا پریزروینس روور نمونے جمع کر رہی ہے جنہیں آئندہ برسوں میں زمین پر واپس لا کر تجزیہ کیا جائے گا۔
نظام شمسی کے منجمد چاندوں پر مشن بھیجے جا رہے ہیں تاکہ ان کی سطح کے نیچے چھپے سمندروں میں زندگی کے آثار تلاش کیے جا سکیں۔ دوسری جانب ماہرین فلکیات ہماری کہکشاں میں موجود دیگر سیاروں کی فضا کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں تاکہ کسی ’بائیو سگنیچر‘ یعنی حیاتیاتی نشان کا پتا چل سکے۔
مزید پڑھیے: پراسرار سیارچہ خلائی مخلوق کا بھیجا گیا کوئی مشن ہوسکتا ہے، ہارورڈ کے سائنسدان کا دعویٰ
برطانیہ کے ماہر فلکیات لارڈ مارٹن رِیس نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اگلے 10 سالوں میں ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کوئی ثبوت ہوگا کہ قریبی سیاروں پر کوئی حیاتیاتی سرگرمی موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم واقعی ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔
مریخ پر زندگی؟ ایک ممکنہ اشارہستمبر 2025 میں ناسا نے اعلان کیا کہ مریخ کے جیجیرو کریٹر میں پرانے دریا کے کنارے سے ملنے والے مَڈ اسٹونز میں ایسے معدنیات دریافت ہوئے ہیں جو زمین پر عام طور پر حیاتیاتی عمل کے نتیجے میں بنتے ہیں جیسے گریگائٹ اور ویوینائٹ۔
اگرچہ یہ دریافت حتمی ثبوت نہیں ہے لیکن اسے مریخ پر ماضی کی زندگی کی ایک ممکنہ علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم ان نمونوں کو زمین پر لا کر جدید لیبارٹریز میں تجزیہ کرنے کے بغیر کوئی یقینی بات نہیں کی جا سکتی اور فی الحال ناسا کے ’مارس سیمپل ریٹرن مشن‘ کو فنڈنگ کے مسائل کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: ایلون مسک نے خلائی مخلوق کے وجود کے حوالے سے اپنی رائے بتادی
اوپن یونیورسٹی یو کے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سوزانے شونزر کا کہنا ہے کہ اگر مریخ پر زندگی رہی ہے تو چٹانوں اور پانی کے تعاملات میں اس کے ثبوت چھپے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان نمونوں کی باریک بینی سے جانچ کرنی ہوگی۔
آئس چاند: ایک نیا افقسائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اگر زندگی کسی ایسے مقام پر دریافت ہو، جو زمین سے بالکل مختلف ہو، تو یہ زندگی کے آزاد آغاز کا ناقابل تردید ثبوت ہوگا۔
یورپا (Jupiter کا چاند) اور انسلیڈس (Saturn کا چاند) اس دوڑ میں سرِفہرست ہیں جہاں سمندر برف کی موٹی تہہ کے نیچے چھپے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: گوگل اے آئی نے زمین پر خلائی مخلوق کے پوشیدہ ٹھکانوں کی نشاندہی کردی
ناسا کا یورپا کلپر اور یورپی ایجنسی کا جوس مشن بالترتیب سنہ 2030 اور سنہ 2031 میں یورپا پہنچیں گے۔ یہ مشنز زندگی کا براہ راست ثبوت تو نہیں لائیں گے لیکن ماحول اور سمندر کی ساخت کا جائزہ لیں گے تاکہ مستقبل میں برف کے نیچے مشینیں بھیجنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
زمین جیسے سیارے؟ نیا مشاہدہاب تک ماہرین فلکیات ساڑھے 5 ہزار سے زائد ’ایگزو پلینٹس‘ (یعنی دیگر ستاروں کے گرد گھومنے والے سیارے) دریافت کر چکے ہیں۔ ان میں سب سے دلچسپ نظام TRAPPIST-1 ہے، جس میں زمین جیسے 7 سیارے موجود ہیں جن میں سے تین ‘قابل رہائش’ زون میں آتے ہیں۔
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ اب ان سیاروں کی فضا کا تجزیہ کر رہی ہے۔ ستمبر 2025 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق TRAPPIST-1e سیارے پر ایک ہلکی سی فضا کے آثار ملے ہیں اور سنہ 2026 میں مزید واضح نتائج متوقع ہیں۔
مزید پڑھیں: اڑن طشتری والی مخلوق کا تعلق کس سیارے سے ہے، انوکھا نقطہ نظر
ناسا کے ایکس پلینٹ سائنس انسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹر جیسسی کرسچنسن نے کہا کہ اگر ہمیں ان سیاروں پر فضا کا سراغ ملا تو اگلے 20 سال کی تمام تحقیقی کوششیں انہی سیاروں پر مرکوز ہو جائیں گی۔
ذہین مخلوق (انٹیلیجنٹ لائف) کی تلاش کا آغاز 20ویں صدی کے وسط میں سیٹی پروگرام سے ہوا تھا جو ریڈیو سگنلز کے ذریعے دیگر دنیاوں سے رابطہ تلاش کرنے کی کوشش تھی۔
مزید پڑھیے: مریخ پر زندگی کے آثار: نئے اور مضبوط سراغ مل گئے
آج، بریک تھرو لسٹن جیسے پروگرام دور دراز کے سیاروں سے ممکنہ ریڈیو سگنلز کا تجزیہ کر رہے ہیں جبکہ 2028 میں شروع ہونے والا اسکوائر کلومیٹر ایرے ریڈیو ٹیلی اسکوپ ان کوششوں کو نئی وسعت دے گا۔
پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے جیسن رائٹ کہتے ہیں کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر کوئی سگنل آیا تو ہم اسے کسی بھی وقت پکڑ سکتے ہیں۔
خاموش خلا بھی ایک جواب ہےزندگی کی تلاش کی تمام کوششیں ہمیں یہ سکھا رہی ہیں کہ زمین سے باہر زندگی ممکن ہے لیکن ضروری نہیں کہ عام ہو۔ ڈاکٹر ساشا کوانز کہتے ہیں اگر ہمیں کچھ نہیں ملتا تو یہ بھی ایک اہم سائنسی نتیجہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے کچرا لانے والا جہاز پرواز کے لیے تیار
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہو سکتا ہے کہ زندگی واقعی کائنات میں نایاب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خلائی مخلوق خلائی مخلوق کا سراغ خلائی مخلوق کی نشاندہی فلکیات مریخ