سورج کے جنوبی قطب کی پہلی ویڈیو اور تصاویر یورپی خلائی ایجنسی کے سولر آربیٹر خلائی جہاز کے ذریعے زمین پر بھیج دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ناسا نے سورج کے قریب ترین پہنچ کر تاریخ رقم کردی، خلائی جہاز سے رابطہ بھی بحال

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نئی تصاویر سائنس دانوں کو یہ جاننے کے قابل بنائیں گی کہ سورج کس طرح تیز طوفانوں اور پرسکون اوقات کے درمیان چکر لگاتا ہے۔

یہ اہم ہے کیونکہ شدید شمسی سرگرمی سیٹلائٹ مواصلات کو متاثر کر سکتی ہے اور زمین پر پاور گرڈ کو دستک دے سکتی ہے۔

نئی تصاویر میں ایک چمکتا ہوا روشن ماحول دکھایا گیا ہے جس کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت ایک ملین ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے۔ گیس کے گہرے بادل ہیں جن میں سے زیادہ تر ٹھنڈے ہیں پھر بھی ایک لاکھ ڈگری تک پہنچ رہے ہیں۔

ای ایس اے کے سائنس ڈائریکٹر پروفیسر کیرول منڈیل کے مطابق یہ تصاویر سورج کے اب تک کی سب سے قریب ترین اور سب سے زیادہ تفصیلی تصویریں ہیں اور سائنسدانوں کو یہ جاننے میں مدد فراہم کریں گی کہ وہ ستارہ جو ہمیں زمین پر زندگی دیتا ہے دراصل کیسے کام کرتا ہے۔

مزید پڑھیے: سورج کی تسخیر: انسان 25 دسمبر کو کونسا معرکہ سر کرنے والا ہے؟

وہ کہتی ہیں کہ یہ سورج کے قطب کا پہلا نظارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سورج ہمارا قریب ترین ستارہ ہے، زندگی دینے والا اور جدید خلائی اور زمینی بجلی کے نظام کو ممکنہ طور پر خلل ڈالنے والا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے اور اس کے رویے کی پیشن گوئی کرنا سیکھیں۔

زمین سے سورج ایک ڈسک کی طرح نظر آتا ہے لیکن مختلف فریکوئنسیوں پر اور خصوصی فلٹرز کا استعمال کرتے ہوئے سائنس دان اسے اس کی حقیقی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک متحرک سیال گیند کے طور پر، جس میں مقناطیسی میدان مڑتے اور سطح پر گھومتے ہیں اور اس کی فضا میں گیس کے شعلوں اور لوپس کو جوڑ دیتے ہیں۔

یہ مقناطیسی میدان ہیں جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ سورج کب نکلتا ہے اور ذرات کو زمین کی طرف پھینکتا ہے۔

سائنس دان جانتے ہیں کہ سورج کی خاموشی کی مدت ہوتی ہے جب مقناطیسی میدانوں کو ترتیب دیا جاتا ہے، ہمارے ستارے میں ایک مقررہ مقناطیسی شمالی اور جنوبی قطب ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جب سورج پرتشدد دھماکے کرنے کے قابل نہیں ہوتا ہے لیکن یہ فیلڈز پھر پیچیدہ اور افراتفری کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ تقریباً ہر 11 سال بعد شمالی اور جنوبی قطبوں کے ساتھ پلٹتی ہیں۔

شمسی طوفان مواصلاتی سیٹلائٹس اور پاور گرڈز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں حالانکہ یہ آسمان میں خوبصورت ارورہ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سورج سے انتہائی طاقتور شعائیں پھوٹ پڑیں، سیٹلائٹ سسٹم کو خطرہ

یو سی ایل کے پروفیسر لوسی گرین کے مطابق سورج کے کمپیوٹر ماڈلز کے ساتھ اس سرگرمی کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے کیونکہ قطبوں کی طرف مقناطیسی میدانوں کی منتقلی کے بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے کیوں کہ اب ہمارے ہاتھ اس پہیلی کا گمشدہ ٹکڑا لگ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد سورج کے کمپیوٹر ماڈل تیار کرنا ہے تاکہ اس خلائی موسم کی پیشن گوئی کی جا سکے۔ درست پیشین گوئیاں سیٹلائٹ آپریٹرز، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ارورہ پر نظر رکھنے والوں کو شمسی طوفانوں کے لیے بہتر منصوبہ بندی کرنے کے قابل بنائے گی۔

پروفیسر کرسٹوفر اوون نے کہا کہ سولر آربیٹر ہمیں خلائی موسم کی کچھ بنیادی سائنس کی تہہ تک جانے کے قابل بنائے گا لیکن اس مقام پر پہنچنے سے پہلے ہمیں تھوڑا سا مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہمیں سورج پر سگنل نظر آتے ہیں جن پر ہم زمین سے ٹکرانے والے پھٹنے کی پیشگوئی کرنے کے لیے انحصار کر سکتے ہیں۔

سولر آربیٹر نے سورج کی مختلف تہوں اور ان کی حرکت پر کیمیائی عناصر کی نئی تصاویر بھی حاصل کی ہیں۔ یہ اسپائس نامی ایک آلے کا استعمال کرتے ہوئے لی گئی ہیں جو روشنی کی مخصوص تعدد کی پیمائش کرتا ہے جسے اسپیکٹرل لائنز کہتے ہیں اور جو مخصوص کیمیائی عناصر ہائیڈروجن، کاربن، آکسیجن، نیین اور میگنیشیم کے ذریعے معلوم درجہ حرارت پر بھیجے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ناسا کا خلا میں سورج سے کئی گنا زیادہ توانائی پیدا کرنے والی ریڈیائی لہروں کو دریافت کرنے کا دعویٰ

پہلی بار اسپیکٹرل لائنوں کا سراغ لگایا گیا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ شمسی مواد کے جھنڈ کتنی تیزی سے حرکت کر رہے ہیں۔ یہ پیمائشیں یہ بتا سکتی ہیں کہ کس طرح ذرات شمسی ہوا کی شکل میں سورج سے باہر نکلتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سورج پر تحقیق سورج کا نیا روپ سورج کی نئی تصاویر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سورج کا نیا روپ سورج کی نئی تصاویر نئی تصاویر نے کہا کہ سکتے ہیں کے قابل کہ سورج سورج کی سورج کے ہیں کہ

پڑھیں:

زمین کے ستائے ہوئے لوگ

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

 

کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی؟ سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی، سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • خلائی پروگرام کوخراج تحسین پیش کرنے کیلئے سپارکو ڈے پر یاد گاری ڈاک ٹکٹ جاری
  • پاکستان سے نفرت کا دکھاوا بھی کام نہ آیا! یوسف پٹھان کو عدالت نے زمین خالی کرنے کا حکم کیوں دیا؟
  • کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
  • حیدر آباد، بحریہ ٹاون کی 893ایکڑ زمین کو غیر قانونی قرار،خالی کروانے کا حکم
  • یوسف پٹھان سرکاری زمین پر قابض قرار، مشہور شخصیات قانون سے بالاتر نہیں، گجرات ہائیکورٹ
  • سپارکو ڈے پر یادگاری ڈاک ٹکٹوں کا اجرا، پاکستان کے خلائی پروگرام کو خراجِ تحسین
  • اب چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں! سائنسدانوں نے نظر کی کمزوری کا نیا علاج دریافت کرلیا