امریکہ چین کے خلاف اپنے منفی اقدامات غیر مشروط طور پر فوری واپس لے ۔88.5 فیصد افراد کا مطالبہ، سی جی ٹی این سروے
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
امریکہ چین کے خلاف اپنے منفی اقدامات غیر مشروط طور پر فوری واپس لے ۔88.5 فیصد افراد کا مطالبہ، سی جی ٹی این سروے WhatsAppFacebookTwitter 0 12 June, 2025 سب نیوز
بیجنگ ()
چائنا میڈیا گروپ کے سی جی ٹی این کی جانب سے دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین کے لیے کیے گئے ایک سروے کے مطابق، 88.5 فیصد جواب دہندگان نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چین کے خلاف اپنے منفی اقدامات کو فوری اور غیر مشروط طور پر واپس لے۔ سروے میں 87.
سروے میں 84.7 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ کو خدمات کی تجارت اور بین الاقوامی آپریشنز کے میدان میں واضح فوائد حاصل ہیں۔ 90.6 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ اشیاء کی تجارت میں امریکی خسارے کی بنیادی وجہ اس کا اپنا معاشی ڈھانچہ ہے۔ 90.5 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ چین کے ساتھ سامان میں امریکی تجارتی خسارہ نہ صرف امریکی معیشت کے ساختی مسائل کا ناگزیر نتیجہ ہے بلکہ اس کا تعین دونوں ممالک کے تقابلی فوائد اور بین الاقوامی کردار سے بھی ہوتا ہے۔
یہ سروے سی جی ٹی این کے انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، عربی اور روسی پلیٹ فارمز پر کیا گیا ، جس میں 24 گھنٹوں کے دوران 5،130 جواب دہندگان نے اپنی رائےکا اظہار کیا ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم شہباز شریف کا بھارت میں طیارہ حادثے پر افسوس کا اظہار بجٹ آئی ایم ایف کا 344 ارب روپے کی گرانٹس پر اظہارِ تشویش،،اراکین پارلیمنٹ کی اسکیموں پر سوالات امید ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ مل کر دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اہم اتفاق رائے پر عمل درآمد کرے... چین اور روس کے درمیان تعاون ڈبلیو ٹی او کے قواعد اور مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق ہے، چینی وزارت خارجہ چین اور امریکہ کے مابین ایک دوسرے کے تجارتی خدشات کو دور کرنے میں نئی پیش رفت کینیڈا کے شہر برنابی نے چینی نژاد افراد کے خلاف تاریخی امتیازی سلوک پر سرکاری معافی کا اعلان کر دیا ریکارڈ پر ریکارڈ قائم! سٹاک مارکیٹ ایک لاکھ 26 ہزار پوائنٹس کی بلند ترین سطح پرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سی جی ٹی کے خلاف چین کے
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے نہ صرف قرضوں کے خطرات کم ہوئے بلکہ 850 ارب روپے سود کی مد میں بچت بھی ہوئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی (Debt-to-GDP) شرح کم ہو کر 74 فیصد سے 70 فیصد تک آ گئی ہے، جو ملک کی اقتصادی بہتری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام فیصلے ایک منظم اور محتاط قرض حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
وزارت خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی معیشت کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراط زر کے باعث قرضے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اصل پیمانہ یہ ہے کہ قرض معیشت کے حجم کے مقابلے میں کتنا ہے، یعنی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی تناسب۔
حکومت کی حکمت عملی کا مقصد:
قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا
قرض کی ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا
سود کی ادائیگیوں میں بچت
مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانا
اہم اعداد و شمار اور پیش رفت:
قرضوں میں اضافہ: مالی سال 2025 میں مجموعی قرضوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا، جو گزشتہ 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
سود کی بچت: مالی سال 2025 میں سود کی مد میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وفاقی خسارہ: گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں سال کا خسارہ 7.1 ٹریلین روپے رہا۔
معیشت کے حجم کے لحاظ سے خسارہ: 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.2 فیصد پر آ گیا۔
پرائمری سرپلس: مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔
قرضوں کی میچورٹی: پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر 4.5 سال جبکہ ملکی قرضوں کی میچورٹی 2.7 سے بڑھ کر 3.8 سال ہو گئی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی مثبت پیش رفت
وزارت خزانہ کے مطابق 14 سال بعد پہلی مرتبہ مالی سال 2025 میں 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جس سے بیرونی مالیاتی دباؤ میں بھی کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیرونی قرضوں میں جو جزوی اضافہ ہوا، وہ نئے قرض لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ:
روپے کی قدر میں کمی (جس سے تقریباً 800 ارب روپے کا فرق پڑا)
نان کیش سہولیات جیسے کہ آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی آئل فنڈ کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے حکومت کو روپے میں ادائیگیاں نہیں کرنی پڑتیں۔