مشرق وسطیٰ سے امریکی عملے کے انخلا کی وجوہات کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) امریکی میڈیا نے حکومتی ذرائع سے اطلاع دی ہے کہ امریکہ نے سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے، بغداد میں اپنے سفارتخانے کے غیر ضروری عملے اور ان کے زیر کفالت افراد کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی میڈیا ادارے سی بی ایس نیوز نے اس معاملے سے واقف حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ حکام نے قطعی طور پر یہ نہیں بتایا کہ مشرقی وسطیٰ کے مختلف مقامات سے امریکی افراد کے انخلا کا سبب کیا ہے، تاہم بدھ کے روز امریکی حکام کو بتایا گیا کہ اسرائیل ایران میں کارروائی شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی حکام نے اسی وجہ سے اپنے کچھ شہریوں کو خطہ چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے اور یہ کہ امریکہ کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ایران عراق میں واقع کچھ امریکی مقامات پر جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔
(جاری ہے)
حملہ ہوا تو 'ایران جوہری ہتھیار تیار کر سکتا' ہے، آئی اے ای اے
یہ خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں، جب ایران کے جوہری پروگرام پر تہران اور واشنگٹن کے حالیہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے خطے میں فوجی عملے پر انحصار کرنے والے افراد کی روانگی کی اجازت دے دی ہے اور سینٹ کام "پنپنے والی کشیدگی کی نگرانی کر رہا" ہے۔
امریکی حکام نے اس سلسلے میں مزید کیا کہا؟امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ تمام غیر ضروری اہلکاروں کو بغداد میں امریکی سفارت خانے سے نکلنے کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ اس عزم پر مبنی ہے کہ امریکیوں کو اندرون ملک اور بیرون ملک محفوظ رکھا جا سکے۔
امریکی تجویز مسترد، متبادل ایرانی منصوبہ پیش کرنے کا اعلان
بدھ کی شام کو بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ عملے کو وہاں سے نکالنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ خطہ "خطرناک جگہ ہو سکتی ہے"۔
ٹرمپ نے کہا، "ہم دیکھیں گے کہ ہوتا کیا ہے۔ ہم نے باہر نکلنے کا نوٹس دیا ہے اور ہم دیکھیں گے کہ ہوتا کیا ہے۔
" پھر ٹرمپ نے ایران کے حوالے سے مزید کہا، "وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے، ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔" خطے میں سلامتی کے خطراتمشرقی وسطی میں حالیہ دنوں میں غیر یقینی صورتحال بڑھتی رہی ہے، کیونکہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام پر بات چیت تعطل کا شکار نظر آتی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نے بدھ کو دیر گئے اطلاع دی کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے "مکمل طور پر تیار" ہے اور واشنگٹن کو "توقع" ہے کہ تہران "ہمسایہ ملک عراق میں بعض امریکی مقامات" کو نشانہ بنا کر جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔
امریکی سفری پابندیاں، ایرانی فٹبال شائقین مایوسی کا شکار
ایران کا رد عملادھر ایرانی وزیر دفاع جنرل عزیز ناصر زادہ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ انہیں اب بھی امید ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوں گے، تاہم انہوں نے کہا کہ تہران کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا، "اگر ہم پر تنازعہ مسلط کیا گیا تو یقیناً مخالف کا جانی نقصان ہم سے زیادہ ہو گا اور ایسی صورت میں امریکہ کو خطے سے نکل جانا چاہیے، کیونکہ اس کے تمام اڈے ہماری پہنچ میں ہیں۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "ہم ان تک رسائی رکھتے ہیں، اور ہم میزبان ممالک میں ان سب کو بلا جھجک نشانہ بنائیں گے۔"
مذاکرات کی کوششیں بھی جاریامریکی حکام کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف اب بھی اتوار کے روز مذاکرات کے چھٹے دور کے لیے ایرانی حکام سے ملنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ امریکی میڈیا اداروں کے مطابق وٹکوف مسقط میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کریں گے۔
جند روز قبل ہی جوہری توانائی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے متنبہ کیا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملہ تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قریب لا سکتا ہے۔
اسرائیلی حملے سے بچاؤ کے لیے ایران جوہری معاہدہ کرے، سعودی انتباہ
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت عمان کی ثالثی میں جاری ہے، تاکہ اس کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔
تاہم اس دوران یہ بات بھی کئی بار کہی جا چکی ہے، کہ بات چیت کی ناکامی اور کسی معاہدے تک نہ پہنچنے کی صورت میں اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے انہیں ناکارہ بنا سکتا ہے۔پوٹن کی ایران، امریکہ جوہری مذاکرات میں ثالثی کی پیشکش
رافیل گروسی نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے کی کوشش کی، تو جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے تہران کا موقف نہ صرف مزید سخت ہونے کا امکان ہے، بلکہ اس معاملے میں سفارت کاری بھی تعطل کا شکار ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملے کے، "ممکنہ طور پر مختلف اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جس سے ایران کا عزم مستحکم ہو سکتا ہے۔۔۔۔ میں اگر صاف لفظوں میں کہوں، تو یہ کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کر سکتا ہے، یا پھر جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے ہی دستبردار ہو جائے گا۔"
روئٹرز، اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری ہتھیاروں امریکی حکام کہ امریکہ ایران کے کر سکتا سکتا ہے کا شکار بات چیت ہے اور کہا کہ نے کہا کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
بھارت: طلبہ کی خودکشیوں میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جولائی 2025ء) بھارت میں جرائم کا اعداد وشمار رکھنے والے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کے مطابق بھارت میں ہر سال تقریباً 13,000 طلبہ خودکشی کر لیتے ہیں۔ این سی آر بی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق طلبہ ملک میں خودکشی کرنے والوں کا 7.6 فیصد حصہ ہیں۔
یہ اعداد و شمار 2022 کے ڈیٹا پر مبنی ہیں، جبکہ 2023 اور 2024 کے سرکاری اعداد و شمار ابھی جاری نہیں ہوئے ہیں۔
تحقیقات اور سرکاری رپورٹوں کے مطابق تعلیمی اور سماجی دباؤ، ادارہ جاتی معاونت کی کمی اور آگاہی کی کمی جیسے عوامل طلبہ میں خودکشی کے رجحان میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
نیورو سائیکاٹرسٹ انجلی ناگپال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں ان اعداد و شمار کو صرف اعداد نہیں بلکہ ان خاموش اذیتوں کی علامت سمجھتی ہوں جو سماجی اصولوں اور توقعات کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ بچوں کو ناکامی، مایوسی یا غیر یقینی صورتِ حال سے نمٹنے کا طریقہ نہیں سکھایا جاتا ۔ ہم انہیں امتحانات کے لیے تیار کرتے ہیں، زندگی کے لیے نہیں۔‘‘
انجلی ناگپال کا کہنا ہے’’ذہنی صحت کی تعلیم کو اسکول کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہونا چاہیے، نہ کہ اسے صرف الگ تھلگ سیشنز تک محدود رکھا جائے۔
طلبہ کو اظہارِ خیال کا موقع اور توجہ سے سنے جانے کی جگہ ملنی چاہیے۔ اساتذہ کو صرف لیکچر دینے کے بجائے سننے کی تربیت دی جانی چاہیے۔‘‘ ذہنی صحت کی معاونت کے مطالبات میں اضافہپیر کے روز بھارتی وزیر مملکت برائے تعلیم سکانت مجمدار نے پارلیمنٹ میں رپورٹ کے نتائج پیش کیے۔
حکومت نے تسلیم کیا کہ تعلیمی اصلاحات اور ذہنی صحت کے نئے اقدامات کے باوجود، ’’شدید تعلیمی دباؤ‘‘ کمزور طلبہ کو متاثر کرتا رہتا ہے۔
مجمدار نے بتایا کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کثیر الجہتی اقدامات کر رہی ہے، جن میں طلبہ، اساتذہ اور خاندانوں کے لیے نفسیاتی معاونت کے پروگرام شامل ہیں۔
سوسائیڈ پریوینشن انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی نیلسن ونود موسیٰ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا’’زہریلی مسابقت‘‘، سخت گریڈنگ سسٹم اور ذہنی صحت کے ناقص ڈھانچے اس بحران کے بڑے عوامل ہیں۔
انہوں نے کہا،’’ایک خاموش وبا بہت سے نوجوانوں کو ٹوٹنے کے دہانے پر لے جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے تعلیمی نظام میں اضطراب اور بے اعتمادی کی ایک لہر دوڑ رہی ہے۔‘‘
ان کے مطابق کالجوں کے کونسلرز کو خودکشی کی اسکریننگ، خطرے کی تشخیص، اور متاثرہ طلبہ کی کونسلنگ کی تربیت دی جانی چاہیے۔
نیلسن ونود موسیٰ نے بتایا، ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ نوجوان زندگیاں یوں ضائع ہوں۔
اس لیے کیمپسز میں جذباتی ذہانت، زندگی کی مہارتیں، دباؤ سے نمٹنے اور خودکشی سے بچاؤ کے پروگرام متعارف کرانا ضروری ہے۔ طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے ’گیٹ کیپر' تربیت اہم ہے۔‘‘گیٹ کیپر تربیت سے مراد خودکشی کو روکنے کے لیے ایک دو روزہ مخصوص ورک شاپ سے ہے۔
کمزور طلبہ کے لیے ’تحفظاتی نظام‘ کی ضرورتسن 2019 میں یونیورسٹی آف میلبورن (آسٹریلیا)، بھارت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز(نمہانس)، اور دیگر بھارتی میڈیکل کالجز کے محققین کی مشترکہ تحقیق میں کالج طلبہ میں خودکشی کے رحجانات کا مطالعہ کیا گیا۔
اس سروے میں بھارت کی 9 ریاستوں کی 30 یونیورسٹیوں کے 8,500 سے زائد طلبہ شامل تھے۔
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ 12 فیصد سے زائد طلبہ نے گزشتہ سال کے دوران خودکشی کے خیالات کا اظہار کیا، جبکہ 6.7 فیصد نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی خودکشی کی کوشش کی۔
تحقیق میں اس بڑھتے بحران کے سدباب کے لیے تعلیمی اداروں میں فوری ذہنی صحت کے اقدامات اور معاون نظام کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اس صورت حال کو’’خودکشی کی وبا‘‘ قرار دیتے ہوئے مارچ میں 10 رکنی قومی ٹاسک فورس تشکیل دی، جو اس وقت ملک گیر مشاورت، ادارہ جاتی جائزے اور جامع پالیسی کی تیاری میں مصروف ہے۔
کریئرز360 کے بانی اور سی ای او مہیشور پیری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بدقسمتی سے بعض اوقات طلبہ کو صرف ایک دن کے امتحان کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے، اور وہ اس دباؤ کی وجہ سے اپنی جان لے لیتے ہیں۔
ہمیں ان کے لیے تحفظاتی نظام بنانا ہو گا۔‘‘انہوں نے کہا، ’’زیادہ تر طلبہ تنہا پڑھتے ہیں اور ان کے پاس کوئی معاون نظام نہیں ہوتا۔ طلبہ کی ضروریات کے مطابق ذہنی صحت کی مربوط سہولیات کی فوری ضرورت ہے۔‘‘
کامیابی کی محدود تعریف، مواقع کی کمیدہلی کے ماہر نفسیات آچل بھگت، جنہیں اس شعبے میں 30 سال سے زائد کا تجربہ ہے، نے کہا کہ کامیابی کی محدود تعریف، صنفی تفریق، تشدد اور روزگار کے مواقع کی کمی طلبہ کی ذہنی صحت کے مسائل میں کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’یا تو آپ ناکام ہیں یا جینیئس۔ ہمارے معاشرتی اور ادارہ جاتی نظام سخت گیر ہیں، اور نوجوانوں سے مکالمہ نہیں کرتے۔ یہی احساسِ بے بسی اور مایوسی المیہ بن جاتا ہے۔‘‘
ان کے مطابق اس تشویش ناک مسئلے کے حل کے سب سے اہم عناصر میں نوجوانوں کی مستقبل سے متعلق فیصلوں میں ان کی شراکت، رہنمائی، اور کامیابی کی وسیع تر تعریف کے لیے قابلِ رسائی رول ماڈلز کی تیاری شامل ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین