میٹرک ٹیکنیکل ایجوکیشن نتائج، بینک گارڈ کی بیٹی کی تیسری پوزیشن
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی نے پیر کو ٹیکنیکل اسکول سرٹیفکیٹ حصہ دوم سالانہ امتحانات برائے سال 2025 کے نتائج کا اعلان کر دیا۔
چیئرمین ٹیکنیکل بورڈ مشرف علی راجپوت کے مطابق ٹی ایس سی کے امتحانات میں سندھ بھر سے 1887 امیدواروں نے شرکت کی، 1628 امیدوار میٹرک امتحانات میں کامیاب ہوئے، کامیابی کا تناسب 86.
اسی اسکول کے محمد شامیخ احمد نے 1168 نمبر لے کر دوسری، جب کہ ورکرز ماڈل اسکول سائٹ حیدر آباد کی طالبہ وجیہہ شاہ نے 1350 نمبر لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔
پوزیشن حاصل کرنے والے امیدواروں کو بورڈ کی جانب سے شیلڈ، میڈل اور نقد انعام دیے گئے۔
سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی کے تحت ٹی ایس سی کے امتحانات کے نتائج میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی طالبہ وجیہہ شاہ نجی بینک میں گارڈ کے فرائض انجام دینے والےکی بیٹی ہیں، وجیہہ نے کمپیوٹر سائنس میں کل نمبر 1350 میں سے 1164نمبر حاصل کیے اور تیسری پوزیشن کی حقدار قرار پائیں۔
دریں اثنا پوزیشن ہولڈرز نے لوڈشیڈنگ کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے دیا۔
سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی کے تحت ٹیکنیکل اسکول سرٹیفکیٹ سال دوم کے امتحانات کے نتائج میں پوزیشن ہولڈرز کے اعزاز میں تقریب کے موقع پر پوزیشن ہولڈرز کا کہنا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہے حکومت کو چاہیے اس پر سنجیدگی سے ایکشن لے۔
پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے گلشن ٹیکنیکل ہائی اسکول ملیر کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم حافظ محمد شہیر کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل میں آرٹیفیشل انٹلیجنس (اے آئی) کی فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا میرے والد پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر ہیں اس کامیابی کا سہرا والدین اور اساتذہ کی محنت کو جاتا ہے۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔
گلشن ٹیکنیکل ہائی اسکول ملیر کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم محمد شامیخ احمد کا کہنا تھا کہ میں الیکٹریکل انجینئر بننا چاہتا ہوں۔ میں اپنی محنت سے مطمئن ہوں۔ کمپیوٹر فیلڈ میں آنے کا شوق تھا پہلے ہی سے میں نے اے آئی اور گرافکس ڈیزائننگ کے مختصر مدت کے کورس کیے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہے حکومت کو اس پر توجہ دینا چاہئے۔
تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی ورکرز ماڈل اسکول سائٹ ایریا حیدر آباد کی طالبہ وجیہہ شاہ کا کہنا تھا کہ میرے والدین اور اساتذہ نے میری کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے، میرے والد جعفر شاہ نجی بینک میں گارڈ کا کام کرتے ہیں۔ والد کا کہنا ہے کہ تمہیں جنتا پڑھنا ہے پڑھو اور جس فیلڈ میں جانا ہے جاؤ۔
ایک سوال کے جواب میں وجیہہ شاہ کا کہنا تھا کہ حیدر آباد اور کراچی میں بہت سے مسائل ہیں گیس، بجلی، پانی اور ٹریفک کے مسائل سنگین صورتحال اختیار کرچکے ہیں۔ ہمارے امتحانی مرکز میں کوئی نقل نہیں ہوئی امتحانی عمل بڑے پُر سکون ماحول میں ہوا۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پوزیشن حاصل کرنے سب سے بڑا مسئلہ کا کہنا تھا کہ تیسری پوزیشن
پڑھیں:
کراچی بورڈ کا شفاف نتیجہ میرٹ کی فتح، دباؤ کی شکست
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میٹرک بورڈ کے حالیہ نتائج نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ برسوں سے یہ شکایات زبان زدِ عام تھیں کہ امتحانی نتائج میں شفافیت کی کمی ہے، سفارشیوں کے لیے رعایتیں کی جاتی ہیں، اور پیسوں کے عوض نمبر یا نتائج میں رد و بدل معمول کی بات بن چکی ہے۔ لیکن اس مرتبہ منظر نامہ بالکل مختلف تھا۔ اس تبدیلی کا سہرا چیئرمین بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی، محمد حسین سوہو کے سر جاتا ہے، جو نہ صرف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں بلکہ انتظامی امور میں بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ محمد حسین سوہو صاحب سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن ایف ڈی ای اسلام آباد، ڈائریکٹر NAVTTC، ڈائریکٹر STEVTA اور ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب رہ چکے ہیں۔ اس طویل پیشہ ورانہ سفر نے انہیں تعلیم اور امتحانی نظام کے ہر پہلو سے آگاہی بخشی، اور یہی تجربہ ان کے موجودہ کردار میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔ ان کی زیر نگرانی کراچی بورڈ نے وہ کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کی عوام کو برسوں سے آرزو تھی۔ اس بار کے میٹرک کے نتائج میں ایک روپے کی کرپشن کا بھی شائبہ نہیں پایا گیا۔ نہ کوئی سیاسی دباؤ کارگر ہوا، نہ ہی اندرونی سفارشات یا میڈیا کے دباؤ نے نتائج پر اثر ڈالا۔ چیئرمین صاحب نے ہر قسم کے دبائو کو رد کرتے ہوئے حقدار طلبہ کو ان کا جائز مقام دلایا۔ اس کامیابی میں چیئرمین صاحب کے ساتھ ساتھ ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامینشن، جو اس وقت ایکٹنگ کنٹرولر کے فرائض انجام دے رہے تھے، بھی بھرپور تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے دیانت داری اور غیر معمولی محنت سے اس سارے عمل کو شفاف بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چیئرمین کی قیادت اور ڈپٹی کنٹرولر کی عملی نگرانی نے مل کر ایک ایسا نتیجہ ممکن بنایا جو کئی برسوں بعد دیکھنے کو ملا۔
یہی شفافیت اس بات سے جھلکتی ہے کہ نتائج کی تیاری کے دوران بورڈ نے سخت غیرجانبداری اپنائی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مارکنگ اور رزلٹ کمپائلنگ میں انسانی غلطیوں کے امکانات نہ ہونے کے برابر کر دیے۔ پرچوں کی مارکنگ اور ری چیکنگ کے لیے دوہرا نظام رائج رہا تاکہ انصاف پر کوئی آنچ نہ آئے۔ مارکنگ کرنے والے اساتذہ کی مسلسل نگرانی اور جانچ پڑتال کی گئی اور انہیں پیشگی ورکشاپس کے ذریعے اس بات کی تربیت دی گئی کہ کس طرح ہر پرچے کا جائزہ خالص میرٹ پر لیا جائے۔ نتائج پر اعتراض کرنے والے طلبہ یا والدین کے لیے ایک باقاعدہ شکایتی نظام وضع کیا گیا، جہاں ان کی آواز کو سنجیدگی سے سنا گیا اور بروقت ازالہ کیا گیا۔ اس دوران سیکریسی سیکشن نے پرچوں کے کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کے عمل میں طلبہ کی شناخت کو مکمل طور پر مخفی رکھا تاکہ کسی بھی تعصب کا شائبہ تک نہ ہو۔ اگر کہیں کوئی تکنیکی یا انسانی غلطی سامنے آتی تو فوری اصلاح کا نظام موجود تھا، جو شفافیت کی ضمانت ہے۔ امتحانی مراکز میں نقل کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے گئے جس کا براہِ راست اثر نتائج پر پڑا اور محنتی طلبہ کی کامیابی سامنے آئی۔ رزلٹ کارڈز اور مارکس شیٹس کے اجرا میں ڈیجیٹلائزیشن نے نہ صرف بروقت فراہمی کو ممکن بنایا بلکہ جعلسازی کے تمام راستے بھی بند کر دیے۔ کمزور طلبہ کے لیے خصوصی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا اہتمام کیا گیا تاکہ وہ مایوس نہ ہوں اور آئندہ بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔
مزید یہ کہ نتائج کے بعد طلبہ کے مستقبل کی رہنمائی کے لیے بورڈ کی جانب سے کیریئر کونسلنگ کو بھی اہمیت دی گئی، تاکہ کامیاب طلبہ اگلی سطح کی تعلیم کے انتخاب میں درست فیصلے کر سکیں۔ بین الاقوامی تعلیمی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف رزلٹ سازی کی پالیسی اپنائی گئی بلکہ ان اساتذہ اور ممتحنین کو بھی سراہا گیا جنہوں نے ایمانداری اور بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس مقصد کے لیے بورڈ کی حکمت عملی یہ ہے کہ شفاف امتحانی عمل کو یقینی بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خاص طور پر نمایاں بات یہ رہی کہ اورنگی ٹاؤن جیسے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے دوسری پوزیشن حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ قابلیت اور محنت کی بدولت ہر مشکل کو شکست دی جا سکتی ہے۔ کم وسائل رکھنے کے باوجود اس طالبہ کی شاندار کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ شفاف نظام ہمیشہ محنت کرنے والوں کو آگے لے کر آتا ہے۔ اسی طرح دیگر پوزیشن ہولڈرز نے بھی یہ پیغام دیا کہ جب امتحانات میرٹ پر ہوں تو خواب حقیقت میں ڈھل جاتے ہیں۔
یہ سب اقدامات چیئرمین محمد حسین سوہو صاحب اور ایکٹنگ کنٹرولر کی مشترکہ قیادت کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے میڈیا، ادارہ جاتی اور داخلی دباؤ کو یکسر مسترد کر کے ایک ایسا شفاف رزلٹ پیش کیا ہے جو آنے والے برسوں کے لیے ایک معیار قائم کر گیا ہے۔ آج کے اس نتیجے نے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کی ساکھ میں اضافہ کیا ہے اور یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ جب قیادت نیک نیت اور پختہ عزم کے ساتھ کام کرے تو ادارے اپنی کھوئی ہوئی عزت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ محمد حسین سوہو صاحب، ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامینشن اور ان کی ٹیم کی یہ کاوش اس بات کی عملی مثال ہے کہ تعلیم اور امتحانی نظام کو درست کرنے کے لیے نیک نیتی، استقلال اور میرٹ سے جڑا ہوا رویہ سب سے اہم ہے۔ اگر یہی تسلسل قائم رہا تو وہ دن دور نہیں جب کراچی بورڈ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کا ایک مثالی تعلیمی ادارہ بن کر ابھرے گا۔