Express News:
2025-09-18@17:16:26 GMT

یونانی ادب ،سوفوکلیز ایڈیپس ریکس

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

تھیبزThebesکے بادشاہLaius کو اپالو دیوتا کا اوریکل( ہاتف غیبی) بتاتا ہے کہ اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جو بڑا ہوکر اسے قتل کر دے گا اور اپنی ماں سے شادی کرے گا۔بادشاہ بہت پریشان ہوتا ہے اور جب اس کے اور اس کی ملکہ جوکوسٹاJokastaکے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو بادشاہLaiusحکم دیتا ہے کہ اسے محل سے دور لے جا کر مار دیا جائے۔

ملکہ جوکاسٹا بچے کو ایک گڈریے کے حوالے کرتی ہے کہ وہ بچے کو دور ویران پہاڑ پر چھوڑ آئے جہاں وہ بھوک اور پیاس سے خود ہی مر جائے۔گڈریے کو راستے میں بچے پر ترس آ جاتا ہے اور وہ بچے کو مرنے کے لیے چھوڑنے کے بجائے ایک اور گڈریے کے حوالے کر دیتا ہے۔

دوسرا گڈریا بچے کو سلطنتَ کورنتھ کے بادشاہ کے ایک مصاحب کے حوالے کر دیتا ہے جو بچے کو کورنتھ Corinthکے بادشاہ پولی بسPo lybusاور اس کی ملکہ کے پاس لے جاتا ہے۔کورنتھ کے بادشاہ کی کوئی اولاد نہیں ہوتی اس لیے وہ بچے کو گود لے لیتے ہیں اور اس کی ایک شہزادے کی طرح پرورش کرتے ہیں۔ بچے کا نام ایڈی پسOedipusرکھا جاتا ہے۔پولی بس اور اس کی ملکہ ایڈی پس پر کبھی بھی یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ ان کا اصلی بیٹا نہیں ۔ایڈی پس بادزاہ پولی بس کو اپنا باپ اور اس کی ملکہ کو اپنی ماں سمجھتا ہے۔

ایڈی پس جوان ہو کر ایک دن اوریکل کے پاس جاتا ہے کہ اپنی آیندہ زندگی کے بارے میں کچھ معلوم کر سکے۔اوریکل پیشین گوئی کرتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو قتل کرے گا اور اپنی والدہ سے شادی کرے گا۔یہ پیشین گوئی ایڈیپس کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔چونکہ وہ کورنتھ کے بادشاہ اور ملکہ کو اپنا والد اور والدہ جانتا ہے اس لیے فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اب کبھی کورنتھ واپس نہیں جائے گا۔

کورنتھ سے بچنے کے لیے ایڈی پس قریبی سلطنت تھیبز  Thebes کا رخ کرتا ہے۔ تھیبز جاتے ہوئے راستے میں ایک تنگ موڑ پر ایک قیمتی بگھی اس کی سواری کا راستہ روک لیتی ہے۔دونوں میں راستہ دینے کے لیے تکرار اور گرما گرمی ہوتی ہے۔ایڈی پس بگھی سوار کو قتل کر دیتا ہے۔در اصل تھیبز کا بادشاہ اور ایڈی پس کا اصلی باپ لوئیس ڈلفی میں اوریکل کے پاس جا رہا ہوتا ہے جسے ایڈی پس ان جانے میں قتل کر دیتا ہے اور ان جانے میں ہی پیشین گوئی کا پہلا حصہ سچ ہو کر پورا ہو جاتا ہے۔

بادشاہ کو راستے میں ان جانے میں قتل کرنے کے بعد ایڈی پس تھیبز پہنچتا ہے تو شہر کو ایک خوف ناک غیر انسانی مخلوق Sphinxسفنکس کے نرغے میں پاتا ہے۔سفنکس شہر میں ہر داخل ہونے والے سے ایک پہیلی پوچھتی ہے اور صحیح جواب نہ ملنے پر اسے ہڑپ کر لیتی ہے۔ایڈی پس پہیلی کا صحیح جواب دے کر سفنکس کو ختم کر دیتا ہے اور فاتح کی طرح شہر میں داخل ہوتا ہے۔ایڈی پس کے سر پر تاج سجا دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی روایت کے مطابق بیوہ ملکہ اس کی ملکیت میں دے دی جاتی ہے۔اس شادی کے بعد اوریکل کی پیشین گوئی مکمل طور پر پوری ہو جاتی ہے۔

ملکہ جو کاسٹا جو اصل میں ایڈی پس کی ماں ہوتی ہے اس کے بطن سے ایڈی پس کی اولاد ہوتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد تھیبز ایک خوف ناک طاعون کی وبا کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔  لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگتے ہیں۔شہر کے لوگ اکٹھے ہو کر بادشاہ کے محل کے باہر جمع ہوتے ہیں۔ بادشاہ ان کی فریاد سنتا ہے۔لوگ بادشاہ سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بادشاہ ایڈی پس اپنے ماموں اور برادر ان لاء اورین کو اوریکل کے پاس بھیجتا ہے کہ پلیگ سے نجات کا راستہ بتایا جائے۔اوریکل بتاتا ہے کہ ایک گھناؤنا فعل سرزد ہوا ہے۔بادشاہ لوئیس کے قاتل کا سراغ لگا کر اسے قرار واقعی سزا دینے سے پلیگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

بادشاہ ایڈی پس کھوج لگانا شروع کرتا ہے بظاہر تو وہ ظالم کو تلاش کر رہا ہوتا ہے لیکن دراصل یہ خود آگہی کا سفر بنتا ہے۔ اس کو کئی مواقع پر کھوج لگانے سے منع کیا جاتا ہے۔ملکہ جوکاسٹا بھی اسے باز رہنے کا مشورہ دیتی ہے لیکن وہ کھوج میں لگا رہتا ہے اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب خود اس نے کیا ہے۔

اس نے ہی بادشاہ یعنی اپنے باپ کو قتل کیا ہے۔اسی نے اپنی والدہ سے شادی کر کے گھناؤنا فعل کیا ہے۔ملکہ جوکاسٹا چیختے چلاتے بال نوچتے اپنے ہاتھوں خود کشی کر لیتی ہے۔بادشاہ ایڈی پس ان جانے میں کیے گئے جرم کا خمیازہ بھگتنے کے لیے پہلے اپنے آپ کو اندھا کر لیتا ہے۔اپنے ماموں Creonکو regentمقرر کر کے اسے کہتا ہے کہ اسے اسی پہاڑ پر مرنے کے لیے چھوڑ آیا جائے جہاں بچپنے میں اس کے والدین اسے مرنے کے لیے پھینک دینا چاہتے تھے۔وہ ان لمحات میں اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتا ہے۔Creonاوریکل کے کہنے پر ایڈی پس کو تھیبز سے جلاوطن کر دیتا ہے۔

 سوفوکلیز کا اوپر بیان کردہ ڈرامہ ایڈی پس ریکس ہر حوالے سے ایک مکمل ٹریجیڈی ہے۔اس کا پلاٹ بہت جڑا ہوا اور اچھی طرح گوندھا ہوا ہے۔اس میں کہیں جھول نہیں۔اس کے کردار اور مکالمے بہت جاندار ہیں۔مشہور سائیکالوجسٹ فرائڈ نے سوفوکلیز کے اس ڈرامے کو دیکھ کر ایڈی پس کمپلیکس یا مدر کمپلیکس کو متعارف کروایا۔

مدر کمپلیکس کی تفصیل بیان کرنے کے لیے یہاں جگہ نہیں۔انسانی تہذیب کے سفر میں بہت سے موڑ ایسے ہیں جن کا رومان دیر تک آپ کے قدم روک رکھتا ہے حتیٰ کہ وہاں سے ہٹنے کو جی نہیں چاہتا۔وہ جو شاعر نے کہا ہے؎ دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے۔ پندار کا صنم کدہ ویراںکیے ہوئے۔صعوبتیں،اذیتیں،کلفتیں،اداسیاں اور آہ و زاریاں المیے کو جنم دیتی ہیں۔یونانی المیہ نگار قاری کو اسیر بنانے کا فن خوب جانتے تھے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ زماں و مکاں بدلنے سے انسان کی بنیادی کیفیات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

یونانی ادب میں تین ڈرامہ نگاروں اسکائی لیس،یوری پیڈیس اور سوفوکلیز نے بہت کامیابی سمیٹی اور بہت شہرت کمائی۔سوفوکلیز ایک عظیم المیہ نگار تھا جو 496قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس کے باپ کا تلواریں ڈھالنے کا کام تھا جس سے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔سوفوکلیز جوانِ رعنا بنا۔اس کا ذہن بھی رسا تھا۔

اس نے موسیقی اور رقص کے علاوہ دوسرے علوم و فنون میں بھی دسترس حاصل کی۔اپنے وقت کی سرکردہ شخصیات سے سوفوکلیز کی اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔چند ایک سے اس کے ذاتی مراسم تھے جن میں پیری کلیز اور ہیری ڈوٹس بھی شامل تھے۔ول ڈیورانٹ نے سوفوکلیز کی بہت تعریف کی ہے۔سوفوکلیز نے بہت سے ڈرامے لکھے جن کی صحیح تعداد کا علم نہیں لیکن ول ڈیورانٹ نے تعداد 113بتائی ہے۔ہم تک اس کے کل 7ڈرامے Ajax,Electra,,Oedipus Rex,Antigine,Tradian Women,Philoctetes,اورOedipus at Colonusپہنچے ہیں۔ایڈی پس ریکس نے سوفوکلیز کو ادب میں امر کر دیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اس کی ملکہ پیشین گوئی کر دیتا ہے کے بادشاہ اوریکل کے ہے کہ اس کرتا ہے ملکہ جو جاتا ہے ہوتا ہے قتل کر ہے اور کے پاس بچے کو

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران برطانوی کوئین کمیلا کا مستقبل کی ملکہ کیٹ سے ’سردمہری‘ کا مظاہرہ
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • ٹرمپ تاریخی دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، شاہانہ استقبال، احتجاجی مظاہرے
  • لازوال عشق
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage