Express News:
2025-06-13@18:28:14 GMT

یونانی ادب ،سوفوکلیز ایڈیپس ریکس

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

تھیبزThebesکے بادشاہLaius کو اپالو دیوتا کا اوریکل( ہاتف غیبی) بتاتا ہے کہ اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جو بڑا ہوکر اسے قتل کر دے گا اور اپنی ماں سے شادی کرے گا۔بادشاہ بہت پریشان ہوتا ہے اور جب اس کے اور اس کی ملکہ جوکوسٹاJokastaکے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو بادشاہLaiusحکم دیتا ہے کہ اسے محل سے دور لے جا کر مار دیا جائے۔

ملکہ جوکاسٹا بچے کو ایک گڈریے کے حوالے کرتی ہے کہ وہ بچے کو دور ویران پہاڑ پر چھوڑ آئے جہاں وہ بھوک اور پیاس سے خود ہی مر جائے۔گڈریے کو راستے میں بچے پر ترس آ جاتا ہے اور وہ بچے کو مرنے کے لیے چھوڑنے کے بجائے ایک اور گڈریے کے حوالے کر دیتا ہے۔

دوسرا گڈریا بچے کو سلطنتَ کورنتھ کے بادشاہ کے ایک مصاحب کے حوالے کر دیتا ہے جو بچے کو کورنتھ Corinthکے بادشاہ پولی بسPo lybusاور اس کی ملکہ کے پاس لے جاتا ہے۔کورنتھ کے بادشاہ کی کوئی اولاد نہیں ہوتی اس لیے وہ بچے کو گود لے لیتے ہیں اور اس کی ایک شہزادے کی طرح پرورش کرتے ہیں۔ بچے کا نام ایڈی پسOedipusرکھا جاتا ہے۔پولی بس اور اس کی ملکہ ایڈی پس پر کبھی بھی یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ ان کا اصلی بیٹا نہیں ۔ایڈی پس بادزاہ پولی بس کو اپنا باپ اور اس کی ملکہ کو اپنی ماں سمجھتا ہے۔

ایڈی پس جوان ہو کر ایک دن اوریکل کے پاس جاتا ہے کہ اپنی آیندہ زندگی کے بارے میں کچھ معلوم کر سکے۔اوریکل پیشین گوئی کرتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو قتل کرے گا اور اپنی والدہ سے شادی کرے گا۔یہ پیشین گوئی ایڈیپس کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔چونکہ وہ کورنتھ کے بادشاہ اور ملکہ کو اپنا والد اور والدہ جانتا ہے اس لیے فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اب کبھی کورنتھ واپس نہیں جائے گا۔

کورنتھ سے بچنے کے لیے ایڈی پس قریبی سلطنت تھیبز  Thebes کا رخ کرتا ہے۔ تھیبز جاتے ہوئے راستے میں ایک تنگ موڑ پر ایک قیمتی بگھی اس کی سواری کا راستہ روک لیتی ہے۔دونوں میں راستہ دینے کے لیے تکرار اور گرما گرمی ہوتی ہے۔ایڈی پس بگھی سوار کو قتل کر دیتا ہے۔در اصل تھیبز کا بادشاہ اور ایڈی پس کا اصلی باپ لوئیس ڈلفی میں اوریکل کے پاس جا رہا ہوتا ہے جسے ایڈی پس ان جانے میں قتل کر دیتا ہے اور ان جانے میں ہی پیشین گوئی کا پہلا حصہ سچ ہو کر پورا ہو جاتا ہے۔

بادشاہ کو راستے میں ان جانے میں قتل کرنے کے بعد ایڈی پس تھیبز پہنچتا ہے تو شہر کو ایک خوف ناک غیر انسانی مخلوق Sphinxسفنکس کے نرغے میں پاتا ہے۔سفنکس شہر میں ہر داخل ہونے والے سے ایک پہیلی پوچھتی ہے اور صحیح جواب نہ ملنے پر اسے ہڑپ کر لیتی ہے۔ایڈی پس پہیلی کا صحیح جواب دے کر سفنکس کو ختم کر دیتا ہے اور فاتح کی طرح شہر میں داخل ہوتا ہے۔ایڈی پس کے سر پر تاج سجا دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی روایت کے مطابق بیوہ ملکہ اس کی ملکیت میں دے دی جاتی ہے۔اس شادی کے بعد اوریکل کی پیشین گوئی مکمل طور پر پوری ہو جاتی ہے۔

ملکہ جو کاسٹا جو اصل میں ایڈی پس کی ماں ہوتی ہے اس کے بطن سے ایڈی پس کی اولاد ہوتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد تھیبز ایک خوف ناک طاعون کی وبا کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔  لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگتے ہیں۔شہر کے لوگ اکٹھے ہو کر بادشاہ کے محل کے باہر جمع ہوتے ہیں۔ بادشاہ ان کی فریاد سنتا ہے۔لوگ بادشاہ سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بادشاہ ایڈی پس اپنے ماموں اور برادر ان لاء اورین کو اوریکل کے پاس بھیجتا ہے کہ پلیگ سے نجات کا راستہ بتایا جائے۔اوریکل بتاتا ہے کہ ایک گھناؤنا فعل سرزد ہوا ہے۔بادشاہ لوئیس کے قاتل کا سراغ لگا کر اسے قرار واقعی سزا دینے سے پلیگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

بادشاہ ایڈی پس کھوج لگانا شروع کرتا ہے بظاہر تو وہ ظالم کو تلاش کر رہا ہوتا ہے لیکن دراصل یہ خود آگہی کا سفر بنتا ہے۔ اس کو کئی مواقع پر کھوج لگانے سے منع کیا جاتا ہے۔ملکہ جوکاسٹا بھی اسے باز رہنے کا مشورہ دیتی ہے لیکن وہ کھوج میں لگا رہتا ہے اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب خود اس نے کیا ہے۔

اس نے ہی بادشاہ یعنی اپنے باپ کو قتل کیا ہے۔اسی نے اپنی والدہ سے شادی کر کے گھناؤنا فعل کیا ہے۔ملکہ جوکاسٹا چیختے چلاتے بال نوچتے اپنے ہاتھوں خود کشی کر لیتی ہے۔بادشاہ ایڈی پس ان جانے میں کیے گئے جرم کا خمیازہ بھگتنے کے لیے پہلے اپنے آپ کو اندھا کر لیتا ہے۔اپنے ماموں Creonکو regentمقرر کر کے اسے کہتا ہے کہ اسے اسی پہاڑ پر مرنے کے لیے چھوڑ آیا جائے جہاں بچپنے میں اس کے والدین اسے مرنے کے لیے پھینک دینا چاہتے تھے۔وہ ان لمحات میں اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتا ہے۔Creonاوریکل کے کہنے پر ایڈی پس کو تھیبز سے جلاوطن کر دیتا ہے۔

 سوفوکلیز کا اوپر بیان کردہ ڈرامہ ایڈی پس ریکس ہر حوالے سے ایک مکمل ٹریجیڈی ہے۔اس کا پلاٹ بہت جڑا ہوا اور اچھی طرح گوندھا ہوا ہے۔اس میں کہیں جھول نہیں۔اس کے کردار اور مکالمے بہت جاندار ہیں۔مشہور سائیکالوجسٹ فرائڈ نے سوفوکلیز کے اس ڈرامے کو دیکھ کر ایڈی پس کمپلیکس یا مدر کمپلیکس کو متعارف کروایا۔

مدر کمپلیکس کی تفصیل بیان کرنے کے لیے یہاں جگہ نہیں۔انسانی تہذیب کے سفر میں بہت سے موڑ ایسے ہیں جن کا رومان دیر تک آپ کے قدم روک رکھتا ہے حتیٰ کہ وہاں سے ہٹنے کو جی نہیں چاہتا۔وہ جو شاعر نے کہا ہے؎ دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے۔ پندار کا صنم کدہ ویراںکیے ہوئے۔صعوبتیں،اذیتیں،کلفتیں،اداسیاں اور آہ و زاریاں المیے کو جنم دیتی ہیں۔یونانی المیہ نگار قاری کو اسیر بنانے کا فن خوب جانتے تھے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ زماں و مکاں بدلنے سے انسان کی بنیادی کیفیات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

یونانی ادب میں تین ڈرامہ نگاروں اسکائی لیس،یوری پیڈیس اور سوفوکلیز نے بہت کامیابی سمیٹی اور بہت شہرت کمائی۔سوفوکلیز ایک عظیم المیہ نگار تھا جو 496قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس کے باپ کا تلواریں ڈھالنے کا کام تھا جس سے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔سوفوکلیز جوانِ رعنا بنا۔اس کا ذہن بھی رسا تھا۔

اس نے موسیقی اور رقص کے علاوہ دوسرے علوم و فنون میں بھی دسترس حاصل کی۔اپنے وقت کی سرکردہ شخصیات سے سوفوکلیز کی اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔چند ایک سے اس کے ذاتی مراسم تھے جن میں پیری کلیز اور ہیری ڈوٹس بھی شامل تھے۔ول ڈیورانٹ نے سوفوکلیز کی بہت تعریف کی ہے۔سوفوکلیز نے بہت سے ڈرامے لکھے جن کی صحیح تعداد کا علم نہیں لیکن ول ڈیورانٹ نے تعداد 113بتائی ہے۔ہم تک اس کے کل 7ڈرامے Ajax,Electra,,Oedipus Rex,Antigine,Tradian Women,Philoctetes,اورOedipus at Colonusپہنچے ہیں۔ایڈی پس ریکس نے سوفوکلیز کو ادب میں امر کر دیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اس کی ملکہ پیشین گوئی کر دیتا ہے کے بادشاہ اوریکل کے ہے کہ اس کرتا ہے ملکہ جو جاتا ہے ہوتا ہے قتل کر ہے اور کے پاس بچے کو

پڑھیں:

طاقت اور مقبولیت کا قہر

حمیداللہ بھٹی

خطا اولادِ آدم کا وصف ہے مگر جب کسی خطاکار کو طاقت و مقبولیت حاصل ہوتی ہے تو نسلِ انسانی پرہی قہربن کر ٹوٹتااور تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتاہے۔ زمانہ شاہد ہے مقبولیت حاصل ہوتے ہی گمراہ ہوکر حضرت انسان وہ تباہی و بربادی کرتا ہے کہ داستانیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔انسان ہی انسان کا دشمن بن جاتا ہے مقبولیت کا مطلب تو محبت ہے مگر انسان کو یہ خدشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کوئی دوسرا آکر مقبولیت چھین کر خود مقبول نہ ہو جائے انسان کو طاقت مل جائے تو خود کو محفوظ بناتے ہوئے لوگوں کو کچلنے لگتا ہے ۔اِس طاقت و مقبولیت نے دنیا میں وہ قہر ڈھائے ہیں جس کی کوکھ نے جنگوں کو جنم دیا جن کے دوران لاکھوں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ خامیوں و کوتاہیوں سے سیکھناہی دانشمندی ہے مگر دنیاکی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو انسان کادشمن انسان ہی نظر آتا ہے۔ مملکتوں کی آبادی ورقبے میں اضافے سے طاقت و مقبولیت کی قہر ناکی کووسعت ملی مگر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے ۔فتح کے ہزاروں دعویدارجبکہ شکست لاوارث ہوتی ہے یہ تاریخ کا سبق ہے۔
جدید فرانس کا بانی نپولین بونا پارٹ ایک مقبول اور بہادر آدمی تھا۔ عوام کی محبت کو اُس نے دائمی سمجھ لیا اور کوشش کرنے لگا کہ صرف فرانس ہی کیوں وہ تو سارے یورپ کا شہنشاہ بن سکتا ہے۔ یہ زعم بھی ہو گیا کہ فرانس کی طرح پورے یورپ میں مقبول ہے۔ اسی خود پسندی نے بستیاں اور مملکتیں تاراج کرادیں۔یورپ کی سربراہی حاصل کرنے کے چکر میں لاکھوں مرد وزن قتل کرادیے اور پھر جب انگلینڈ کو مطیع باج گزار بنانے کے سفرکا آغاز کیاتوبڑھتے قدم رُک گئے ۔اِس سفر سے عروج کو زوال نے آگھیرا۔بیلجیئم کے علاقے واٹر لوکے مقام پر شکست ہوئی اور گرفتار ہوکر عمر کے آخری ایام ملک سے دورایک قیدی کی حیثیت سے بسرکیے ۔اِس طرح لوگوں کو قیدی بنانے کے چکر میں خود ہی قیدی بن گیا۔ فرانس نے اُس کی باقیات لاکر پیرس کے مضافات میں ایک مقبرے میں دفن کررکھی ہیں،جہاں راقم نے ہوکامنظر دیکھا عام لوگ تو کُجا سیاحوں کی آمدبھی محدودہے۔ ایک مقبول اور بہترین جنگجو نپولین بوناپارٹ تاریخ کاایساکردار ہے جس کی خوبیوں پر خامیاں حاوی ہیں۔ کاش انسان طاقت و مقبولیت کو قہر بنانے سے گریز کرے۔
جان ایف کینڈی کی طاقت و مقبولیت کازمانہ شاہدہے۔ اُسے بھی یقین ہوگیا کہ دنیا کے لیے ناگزیر ہے اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ روس کو براہ راست جوہری جنگ کی دھمکی دے دی ۔یہ ایسی دھمکی تھی جس سے دنیا کی تباہی یقینی تھی لیکن کب طاقت و مقبولیت کا پہیہ آگے کی بجائے پیچھے کی طرف گھومنے لگے؟ یہ انسان نہیں جان پاتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جان ایف کینڈی کو ایسے حالات میں گولی لگی کہ اُس کا سر ایک ناتواں بچے کی مانند اپنی بیوی کی گود میںتھا اور اسی حالت میںدم توڑ دیااورمٹی کی چادر اوڑھ لی توکوئی ہے ایسا دانشمند جوعبرت حاصل کرے ؟مگر تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی حکمران تاریخ سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا تاآنکہ طاقت و مقبولیت چھن جائے ۔
بینجمن نیتن یاہو اسرائیلی وزیرِ اعظم ہے اِسے اپنی مقبولیت بڑھانے کا جنون ہے اُس نے طاقت کے بے جا اظہارکواپنا ہتھیار بنا لیا ہے یہ سفاک شخص انسانوں کے قتل پر فخر کرتا ہے اور جو قتل ہونے سے بچ جائیں اُنھیں بھوک سے مارنے کی کوشش میںہے یہ بے رحم و سفاک شخص اپنے مقاصد کے لیے انسانی خون بہانے پر ذرا شرمسار نہیں لہو لہو غزہ اِس کے جرائم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ رحم جیسے جذبے سے کوسوں دور ہے ۔یہ مرنے والوں کی تعداد پوچھتا ہے اور پھر ایک خون آشام دیو کی طرح مسلم نسل کشی میں دوبارہ مصروف ہوجاتا ہے لیکن کیا اُس کا اقتدار ہمیشہ رہے گا اور تاریخ اُسے اچھے نام سے یادکرے گی؟ناممکن ۔کچھ بھی تو دائمی نہیں جو دنیا میں آیا ہے ایک روز اُسے جانا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ اچھی یادیں چھوڑی جائیں مگر اسے مسلمانوں کاخون بہانااورمارنا مرغوب ہے۔ کب اِس سے طاقت و اختیار کا ہتھیارکب چھنتا ہے نگاہ منتظرہے۔
شیخ حسینہ واجد مسلم ملک بنگلہ دیش کی تین بار وزیرِ اعظم ر ہیں ۔یہ خود بھی مسلمان تھیں اور ملک کی مقبول ترین خاتون کا اعزازبھی رکھتی تھیں۔ یہ اپنی مقبولیت کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ ایک وقت آیا کہ اُسے اپوزیشن جماعتیں خطرہ محسوس ہونے لگیں جس کاتوڑ گرفتاریاں اورپھانسیاں دیناسمجھ لیاگیا مگرجب اپوزیشن جماعتوں پر پابندیاں لگا کر انتخابی عمل سے ہی باہر کیاجانے لگا تو مخالفانہ تحریک زورپکڑنے لگی ۔اسے پھر بھی عقل نہ آئی ہزاروں افراد کو قتل کرادیا۔ آج عبرت کا نمونہ بنی اِس حال میں بھارتی شہر اگرتلہ میں مقیم ہیں کہ صرف جنونی مودی ہی اُسے دوست تصورکرتاہے۔ بنگلہ دیش میں نفرت کا یہ عالم ہے کہ اُس کے باپ سے منسوب یادگاریںمٹانے کے ساتھ کرنسی نوٹوں سے تصویر تک ہٹادی گئی ہے۔ اس کے لیے ملک میں واپسی کابظاہر اب کوئی راستہ نہیں رہا کیونکہ مخالفانہ تحریک کے دوران ہزاروں بے گناہوں کاقتل ثابت ہوچکاہے۔ لہٰذا شاید جلاوطنی میں ہی آسودہ خاک ہو ناقسمت ہو۔اگر مقبولیت و طاقت کومثبت مقاصد کے یے استعمال کرتیں تو آج کم از کم انجام کچھ تو بہتر ہوتا۔
بھارت کے نریندرامودی کوکون نہیں جانتا گجرات کے قصاب کے لقب سے معروف اِس شخص کی سیاست مسلم دشمنی ہے۔ یہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے ملک سے مسلمانوں ، عیسائیوں،سکھوں،بدھ مت اور نچلی ذاتوں کوختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ انتخاب جیتنے کے لیے مداری کی طرح ہر بار کوئی نیا دائو آزماتا ہے جس کے نتیجے میں اُس کی خامیاں بُھلا کر ہندواکثریت اُسے ووٹ دے دیتی ہے لیکن اِس بار ریاستی انتخابات سے قبل عوام کو کچھ نیا اور منفرد بتانے کی کوشش کی جموں کشمیر کے علاقے پہلگام میںاپنے اِداروں سے سیاحوں پر حملہ کرایا۔ مزید اشتعال انگیزی یہ کہ پاکستان کی فضائی حدودپا مال کرنا شروع کردیں۔ اِس حرکت کے دومقاصد تھے اول ہندوئوں کوباور کرانا کہ وہ مسلمانوں پرحملہ آورہے ۔دوم خطے سے بھارتی بالادستی تسلیم کرانا لیکن دونوں مقاصد حاصل نہیں ہوسکے۔ فضائی جھڑپ میں واضح شکست سے اب نہ صرف مودی کامزید عرصہ اقتدارمیں رہنا دشوار ہے بلکہ ملک ٹوٹنے کابھی خدشہ ہے۔ اگر یہ جنونی شخص بھلائی کے کام کرتا نفرت پھیلانے کی بجائے ملک میں افہام وتفہیم کی فضا بناتاتو ملک میں ایسے حالات ہرگز نہ ہوتے ۔ایک شکست سے اُس کی مخفی خامیاں بھی اُجاگر ہوئی ہیں اور اب یہ جنونی شخص تاریخ کے اوراق کا ایک بدنما داغ بننے کے قریب ہے۔
مگر خطااولادِ آدم کاوصف ہے اور جب کسی خطاکار کو طاقت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے توکسی اور پر نہیں، نسل انسانی پر ہی قہر بن کر ٹوٹتااور تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہم دل و جان سے ممنون ہیں
  • راکھ میں دبی امید کی کرن
  • جس معنی میں نبی مولیٰ اسی معنی میں ہی علی مولیٰ
  • فریڈم فلوٹیلا
  • برٹش پاکستانی میئر صادق خان کوبرطانیہ کے بادشاہ چارلس نےنائٹ ہڈ کے اعزاز سے نوازا
  • طاقت اور مقبولیت کا قہر
  • برٹش پاکستانی میئر صادق خان کو نائٹ ہڈ کے اعزاز سے نواز دیا گیا
  • پاکستانی نژاد صادق خان کو سرکا خطاب مل گیا، بادشاہ چارلس نے اعلیٰ ترین اعزاز نائٹ ہڈ سے نوازدیا
  • یہ ظلم کب تک ؟