Express News:
2025-07-29@07:57:23 GMT

یونانی ادب ،سوفوکلیز ایڈیپس ریکس

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

تھیبزThebesکے بادشاہLaius کو اپالو دیوتا کا اوریکل( ہاتف غیبی) بتاتا ہے کہ اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جو بڑا ہوکر اسے قتل کر دے گا اور اپنی ماں سے شادی کرے گا۔بادشاہ بہت پریشان ہوتا ہے اور جب اس کے اور اس کی ملکہ جوکوسٹاJokastaکے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو بادشاہLaiusحکم دیتا ہے کہ اسے محل سے دور لے جا کر مار دیا جائے۔

ملکہ جوکاسٹا بچے کو ایک گڈریے کے حوالے کرتی ہے کہ وہ بچے کو دور ویران پہاڑ پر چھوڑ آئے جہاں وہ بھوک اور پیاس سے خود ہی مر جائے۔گڈریے کو راستے میں بچے پر ترس آ جاتا ہے اور وہ بچے کو مرنے کے لیے چھوڑنے کے بجائے ایک اور گڈریے کے حوالے کر دیتا ہے۔

دوسرا گڈریا بچے کو سلطنتَ کورنتھ کے بادشاہ کے ایک مصاحب کے حوالے کر دیتا ہے جو بچے کو کورنتھ Corinthکے بادشاہ پولی بسPo lybusاور اس کی ملکہ کے پاس لے جاتا ہے۔کورنتھ کے بادشاہ کی کوئی اولاد نہیں ہوتی اس لیے وہ بچے کو گود لے لیتے ہیں اور اس کی ایک شہزادے کی طرح پرورش کرتے ہیں۔ بچے کا نام ایڈی پسOedipusرکھا جاتا ہے۔پولی بس اور اس کی ملکہ ایڈی پس پر کبھی بھی یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ ان کا اصلی بیٹا نہیں ۔ایڈی پس بادزاہ پولی بس کو اپنا باپ اور اس کی ملکہ کو اپنی ماں سمجھتا ہے۔

ایڈی پس جوان ہو کر ایک دن اوریکل کے پاس جاتا ہے کہ اپنی آیندہ زندگی کے بارے میں کچھ معلوم کر سکے۔اوریکل پیشین گوئی کرتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو قتل کرے گا اور اپنی والدہ سے شادی کرے گا۔یہ پیشین گوئی ایڈیپس کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔چونکہ وہ کورنتھ کے بادشاہ اور ملکہ کو اپنا والد اور والدہ جانتا ہے اس لیے فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اب کبھی کورنتھ واپس نہیں جائے گا۔

کورنتھ سے بچنے کے لیے ایڈی پس قریبی سلطنت تھیبز  Thebes کا رخ کرتا ہے۔ تھیبز جاتے ہوئے راستے میں ایک تنگ موڑ پر ایک قیمتی بگھی اس کی سواری کا راستہ روک لیتی ہے۔دونوں میں راستہ دینے کے لیے تکرار اور گرما گرمی ہوتی ہے۔ایڈی پس بگھی سوار کو قتل کر دیتا ہے۔در اصل تھیبز کا بادشاہ اور ایڈی پس کا اصلی باپ لوئیس ڈلفی میں اوریکل کے پاس جا رہا ہوتا ہے جسے ایڈی پس ان جانے میں قتل کر دیتا ہے اور ان جانے میں ہی پیشین گوئی کا پہلا حصہ سچ ہو کر پورا ہو جاتا ہے۔

بادشاہ کو راستے میں ان جانے میں قتل کرنے کے بعد ایڈی پس تھیبز پہنچتا ہے تو شہر کو ایک خوف ناک غیر انسانی مخلوق Sphinxسفنکس کے نرغے میں پاتا ہے۔سفنکس شہر میں ہر داخل ہونے والے سے ایک پہیلی پوچھتی ہے اور صحیح جواب نہ ملنے پر اسے ہڑپ کر لیتی ہے۔ایڈی پس پہیلی کا صحیح جواب دے کر سفنکس کو ختم کر دیتا ہے اور فاتح کی طرح شہر میں داخل ہوتا ہے۔ایڈی پس کے سر پر تاج سجا دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی روایت کے مطابق بیوہ ملکہ اس کی ملکیت میں دے دی جاتی ہے۔اس شادی کے بعد اوریکل کی پیشین گوئی مکمل طور پر پوری ہو جاتی ہے۔

ملکہ جو کاسٹا جو اصل میں ایڈی پس کی ماں ہوتی ہے اس کے بطن سے ایڈی پس کی اولاد ہوتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد تھیبز ایک خوف ناک طاعون کی وبا کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔  لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگتے ہیں۔شہر کے لوگ اکٹھے ہو کر بادشاہ کے محل کے باہر جمع ہوتے ہیں۔ بادشاہ ان کی فریاد سنتا ہے۔لوگ بادشاہ سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بادشاہ ایڈی پس اپنے ماموں اور برادر ان لاء اورین کو اوریکل کے پاس بھیجتا ہے کہ پلیگ سے نجات کا راستہ بتایا جائے۔اوریکل بتاتا ہے کہ ایک گھناؤنا فعل سرزد ہوا ہے۔بادشاہ لوئیس کے قاتل کا سراغ لگا کر اسے قرار واقعی سزا دینے سے پلیگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

بادشاہ ایڈی پس کھوج لگانا شروع کرتا ہے بظاہر تو وہ ظالم کو تلاش کر رہا ہوتا ہے لیکن دراصل یہ خود آگہی کا سفر بنتا ہے۔ اس کو کئی مواقع پر کھوج لگانے سے منع کیا جاتا ہے۔ملکہ جوکاسٹا بھی اسے باز رہنے کا مشورہ دیتی ہے لیکن وہ کھوج میں لگا رہتا ہے اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب خود اس نے کیا ہے۔

اس نے ہی بادشاہ یعنی اپنے باپ کو قتل کیا ہے۔اسی نے اپنی والدہ سے شادی کر کے گھناؤنا فعل کیا ہے۔ملکہ جوکاسٹا چیختے چلاتے بال نوچتے اپنے ہاتھوں خود کشی کر لیتی ہے۔بادشاہ ایڈی پس ان جانے میں کیے گئے جرم کا خمیازہ بھگتنے کے لیے پہلے اپنے آپ کو اندھا کر لیتا ہے۔اپنے ماموں Creonکو regentمقرر کر کے اسے کہتا ہے کہ اسے اسی پہاڑ پر مرنے کے لیے چھوڑ آیا جائے جہاں بچپنے میں اس کے والدین اسے مرنے کے لیے پھینک دینا چاہتے تھے۔وہ ان لمحات میں اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتا ہے۔Creonاوریکل کے کہنے پر ایڈی پس کو تھیبز سے جلاوطن کر دیتا ہے۔

 سوفوکلیز کا اوپر بیان کردہ ڈرامہ ایڈی پس ریکس ہر حوالے سے ایک مکمل ٹریجیڈی ہے۔اس کا پلاٹ بہت جڑا ہوا اور اچھی طرح گوندھا ہوا ہے۔اس میں کہیں جھول نہیں۔اس کے کردار اور مکالمے بہت جاندار ہیں۔مشہور سائیکالوجسٹ فرائڈ نے سوفوکلیز کے اس ڈرامے کو دیکھ کر ایڈی پس کمپلیکس یا مدر کمپلیکس کو متعارف کروایا۔

مدر کمپلیکس کی تفصیل بیان کرنے کے لیے یہاں جگہ نہیں۔انسانی تہذیب کے سفر میں بہت سے موڑ ایسے ہیں جن کا رومان دیر تک آپ کے قدم روک رکھتا ہے حتیٰ کہ وہاں سے ہٹنے کو جی نہیں چاہتا۔وہ جو شاعر نے کہا ہے؎ دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے۔ پندار کا صنم کدہ ویراںکیے ہوئے۔صعوبتیں،اذیتیں،کلفتیں،اداسیاں اور آہ و زاریاں المیے کو جنم دیتی ہیں۔یونانی المیہ نگار قاری کو اسیر بنانے کا فن خوب جانتے تھے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ زماں و مکاں بدلنے سے انسان کی بنیادی کیفیات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

یونانی ادب میں تین ڈرامہ نگاروں اسکائی لیس،یوری پیڈیس اور سوفوکلیز نے بہت کامیابی سمیٹی اور بہت شہرت کمائی۔سوفوکلیز ایک عظیم المیہ نگار تھا جو 496قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس کے باپ کا تلواریں ڈھالنے کا کام تھا جس سے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔سوفوکلیز جوانِ رعنا بنا۔اس کا ذہن بھی رسا تھا۔

اس نے موسیقی اور رقص کے علاوہ دوسرے علوم و فنون میں بھی دسترس حاصل کی۔اپنے وقت کی سرکردہ شخصیات سے سوفوکلیز کی اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔چند ایک سے اس کے ذاتی مراسم تھے جن میں پیری کلیز اور ہیری ڈوٹس بھی شامل تھے۔ول ڈیورانٹ نے سوفوکلیز کی بہت تعریف کی ہے۔سوفوکلیز نے بہت سے ڈرامے لکھے جن کی صحیح تعداد کا علم نہیں لیکن ول ڈیورانٹ نے تعداد 113بتائی ہے۔ہم تک اس کے کل 7ڈرامے Ajax,Electra,,Oedipus Rex,Antigine,Tradian Women,Philoctetes,اورOedipus at Colonusپہنچے ہیں۔ایڈی پس ریکس نے سوفوکلیز کو ادب میں امر کر دیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اس کی ملکہ پیشین گوئی کر دیتا ہے کے بادشاہ اوریکل کے ہے کہ اس کرتا ہے ملکہ جو جاتا ہے ہوتا ہے قتل کر ہے اور کے پاس بچے کو

پڑھیں:

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

کسی بھی نظریاتی و عسکری حریف کو محض پچھاڑنے کی خواہش سے کچھ نہیں ہوتا اگر آپ کو حریف کی حکمتِ عملی اور اس کے پیچھے کارفرما ذہن کا ادراک نہ ہو۔

حالیہ ایران اسرائیل جنگ، غزہ کے المیے ، لبنان اور شام میں مداخلت ، اسرائیل مخالف بڑھتے عالمی جذبات اور مغربی حکومتوں کی منافقانہ پالیسی کی فضا میں خود اسرائیلی تجزیہ کار اور اسٹیبلشمنٹ کے گرگانِ باراں دیدہ اپنی ریاست کے عزائم کو کس سمت جاتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ سمجھنا بھی بہت اہم ہے۔

ڈیوڈ وینبرگ یروشلم میں قائم مسگاف انسٹیٹیوٹ برائے صیہونی حکمتِ عملی و قومی سلامتی سے وابستہ ہیں اور اٹھائیس برس سے اخباری مضامین بھی لکھ رہے ہیں۔ان کے خیالات پڑھ کے اسرائیل کے موجودہ و آیندہ عزائم کی تصویر نہ صرف صاف صاف دیکھی جا سکتی ہے بلکہ اس شعر کا مفہوم بھی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ،

سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

               ( احمد نوید )

ڈیوڈ وینبرگ فرماتے ہیں ،

’’ مغرب نے لگ بھگ چار دہائی پہلے اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے دستبرداری اور درپیش خطرات کا عسکری جواب دینے کے بجائے تحمل اور سفارت کاری برتنے کا جو مطالباتی نسخہ اوسلو امن معاہدے کے نام پر اسرائیل کے حلق سے اتارنے کی کوشش کی ۔اس کا اثر مغربی کنارے اور غزہ کی طرف سے دہشت گرد حملوں ، شام اور لبنان میں اسرائیل دشمنوں کی پناہ گاہوں اور ایران کے جوہری بم منصوبے کی شکل میں سب کے سامنے ہے ۔

چنانچہ گزشتہ پونے دو برس سے اسرائیل نے سفارت کاری اور فوجی طاقت کے استعمال میں توازن کی نئی حکمتِ عملی اپنا لی ہے اور دور و نزدیک کے خطرات سے نپٹنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو سپرپاورز برتتی ہیں۔یعنی حسبِ ضرورت خان یونس سے اصفہان تک بھرپور اور اچانک فیصلہ کن کارروائیاں جاری رکھی جائیں۔

اسرائیل تلخ تاریخی تجربات کے سبب قائل ہو چکا ہے کہ اس کے ہمسائے کسی مصالحت پسند اسرائیل کے بجائے کسی ایسی طاقتور ریاست کے ساتھ ہی پرامن رہ سکتے ہیں جس سے وہ بھلے تعلقات بہتر نہ بھی رکھیں مگر اس کی طاقت سے خوف ضرور کھائیں۔

اسرائیل کو گذرے برسوں میں یہ کڑوا احساس بھی ہوا کہ خاموشی کے جس عرصے کو مغربی ممالک نے امن کا دور سمجھ کے دھوکا کھایا ۔اسی عرصے کو اسرائیل کے دشمنوں نے خود کو مضبوط بنانے میں صرف کیا۔مگر اب اسرائیل بظاہر امن کے سراب سے دھوکا کھانے کے بجائے ہر اس ممکنہ خطرے کا سر اٹھاتے ہی قلع قمع کرنے کو تیار ہے جو آگے چل کے تن آور درخت بننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور پھر اسے جڑ سے اکھاڑنا مشکل تر ہو جائے۔

اسرائیلی قیادت کو اچھے سے سمجھ ہے کہ مشرقِ وسطی میں اسرائیل دشمن قوتیں بظاہر امن ، تحمل اور سفارت کاری کا جو بھی راگ الاپیں۔اندر سے وہ اسرائیل کے وجود کے درپے ہیں۔لہٰذا شام میں سابق القاعدہ جنگجو احمد الشرع کی نئی حکومت اپنی بے ضرر اداؤں سے مغربی دنیا کو بھلے کتنا ہی لبھانے کی کوشش کرے مگر ماضی کی روشنی میں اسرائیل جانتا ہے کہ اگر یہ حکومت مستحکم ہو گئی تو آگے چل کے ہمارے لیے کتنا بڑا دردِ سر بن سکتی ہے۔

چنانچہ اسرائیل اس وقت اپنے دفاع کے لیے شام کے معاملات میں جو بھی حکمتِ عملی لاگو کرنا چاہے اس میں حق بجانب ہے۔اسرائیل یہ بھی جانتا ہے کہ حزب اللہ کو قابو میں رکھنا کسی بھی لبنانی حکومت کے بس سے باہر ہے۔ایسے میں اسرائیل جنوبی لبنان میں اپنی عسکری و علاقائی سلامتی ذمے داریوں سے کیوں غافل رہے اور کیوں نہ ہر وہ قدم اٹھائے جو اس کی موجودہ اور آیندہ سلامتی کے لیے بہتر ہو۔

اسرائیل اب اس پالیسی پر کاربند رہنا افورڈ نہیں کر سکتا کہ وہ تحمل سے بیس تیس برس بیٹھ کر حزب اللہ اور حماس کے منصوبوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا رہے اور پھر اپنے دفاع کے لیے ان کے حملوں کا انتظار کرے اور پھر امریکی ثالثی سے امید لگائے یا اقوامِ متحدہ کی امن کوششوں اور اپیلوں پر تکیہ کرتا رہے یا پھر یہ خیال رکھے کہ شام کا اتحاد برقرار رکھنے کی خاطر وہاں کی دروز اقلیت کی مدد کر کے اور شامی حدود میں بفرزون قائم کر کے اپنی شمالی سرحد مستحکم نہ کرے۔

انیس سو چورانوے میں جوڈیا سماریا ( مغربی کنارے) پر قائم فلسطینی اتھارٹی سے بھی یہی امید تھی کہ وہ ایک دن اس قابل ہو جائے کہ اپنی جانب سے اسرائیل کو لاحق دہشت گردی کو لگام دے سکے۔مگر یہ امید بر نہ آنے کے سبب اسرائیلی فوج کو بادلِ نخواستہ جنین ، تلکرم اور نابلس میں داخل ہو کر دہشت گردی کے ٹھکانوں ( فلسطینی پناہ گزین کیمپ ) کو صاف کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکا اور یورپی یونین نے فلسطینی اتھارٹی کو شفاف ، جمہوری ، متحرک اور مستحکم حکومت میں بدلنے کے لیے گزشتہ تیس برس میں کیا نہیں کیا۔مگر اربوں ڈالر اور یوروز کی امداد بھی مطلوبہ نتائج پیدا نہ کر سکی۔ الٹا اقربا پروری اور کرپشن بڑھتی چلی گئی اور مارے جانے والے دہشت گردوں کے خاندانوں کو مالی مدد دے کر ان کی مزید حوصلہ افزائی کی گئی۔

اس پورے عرصے میں اتھارٹی نے ایک بھی نیا اسپتال کھڑا نہیں کیا۔کسی ایک پناہ گزین کو کہیں آباد نہیں کیا۔بس ایک نیا سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بن سکا۔ امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز کی تربیت پر ایک ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے۔اس مشن میں جزوی کامیابی ضرور ہوئی مگر یہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کا ساتھ اور پناہ دیتی رہیں۔اسرائیلی قید میں جو دہشت گرد ہیں ان میں سے بارہ فیصد کا تعلق انھی سیکیورٹی فورسز سے ہے۔ اس پورے عرصے میں فلسطینی اتھارٹی نے کسی بھی بین الاقوامی فورم پر اسرائیل کو نشانے پر رکھنے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔

پھر بھی فرانس اور سعودی عرب جیسے ممالک اس دھوکے میں ہیں کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا نسخہ ہی اسرائیلی سیکیورٹی کو لاحق امراض کا تریاق ہے۔ فرانس نے تو اگلے چند روز میں غیر موجود فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ٹھوس عندیہ بھی دے دیا ہے۔

اسرائیل اپنے جنوبی علاقے کو غزہ سے ہونے والے دہشت گرد حملوں سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کی شرط اگر یہ ہے کہ حماس کے مکمل قلع قمع سے پہلے مستقل جنگ بندی ہو جائے اور پھر اس جنگ بندی سے حاصل وقفے میں حماس پہلے کی طرح کھڑی ہو جائے تو یہ حالت اسرائیل اب کسی طور قبول نہیں کر سکتا۔غزہ کی تعمیرِ نو اسے مکمل غیر عسکری علاقہ بنائے بغیر ممکن نہیں۔غزہ میں کسی متبادل ’’ ٹیکنو کریٹ ’’ گورننس کا ڈھانچہ بھی امن کی ضمانت بننے کے بجائے حماس کا نیا مکھوٹا ثابت ہو گا۔

اسرائیل کو غزہ میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے اب مصر سمیت کسی عرب ریاست اور اقوامِ متحدہ کے امن دستوں کی کارکردگی پر بھی اعتبار نہیں۔بلکہ مصر نے تو ہمیشہ غزہ میں اسلحے کی اسمگلنگ سے نگاہیں چرائیں۔

 کل کلاں یورپ اور امریکا ایران سے کوئی جوہری سمجھوتہ کر بھی لیں تو اسرائیل اس سمجھوتے کو دوسروں کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اپنے تحفظ کے نظریے سے دیکھے گا اور اس بابت کسی بھی وقت ہر مناسب کارروائی کا حق محفوظ رکھے گا۔

اسرائیل بطور علاقائی طاقت اپنی عسکری بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔مغرب کو بھی اب پہلے سے بڑھ کے احساس ہونا چاہیے کہ ایک طاقتور اور قابلِ بھروسہ اتحادی (اسرائیل ) ہی مشرقِ وسطی کی شکل بدلنے کا اہل اور کسی بھی جامع علاقائی امن کا ضامن ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • عافیہ صدیقی۔۔ پائی ہے کس جرم میں سزا، یاد نہیں
  • ’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘
  • بہادر مگر تنہا!
  • اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے
  • زباں فہمی257 ؛ دارُالّسُرُور۔رام پور (حصہ دُدُم)
  • پبلک ٹرانسپورٹ کیا سب کا حق نہیں؟
  • پاکستانی شناخت کا مقدمہ
  • سوال مت پوچھیے!
  • نام ماں کا بھی
  • کیا یہ ہے وہ پاکستان