بجٹ بھی آئی ایم ایف کی مرضی کا پیش کیاگیا،پیریاسرسائیں
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)پاکستان مسلم لیگ فنکشنل مرکزی نائب صدر پیر یاسر سائیں کے میڈیا کوآرڈینیٹر شاہد خان اور دیگر نے اپنے بیان میں کہا کہ فارم 47 کی حکومت کی نااہلی اس سے بڑی کیا ہوگی کہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی مرضی کا پیش کیا جس میں امیروں کی پنشن میں اضافہ اور غریبوں کی ٹینشن میں اضافہ اراکین اسمبلی و سینٹ جنہوں نے از خود اپنی تنخواہوں میں 300 فیصد اور مرات میں من پسند اضافہ کیا جس پر ائی ایم ایف کو کہیں بھی شکایت نہیں ہوئی لیکن جب ملک کو چلانے والے سرکاری اور غیر سرکاری محنت کشوں کی تنخواہوں پنشن میں اضافے کی بات ائی تو حاضر ملازمین کے لیے 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے سات فیصد اضافہ کر کے یہی ارکان اسمبلی ڈیسک بجا کر بجٹ کو متوازن قرار دے دیتے رہے جہاں ملک میں ایسا دوہرا نظام اور نا انصافی کا اطلاق ہو وہ ملک کسی صورت ترقی نہیں کر سکتا پچھلے قرضے اتارے نہیں گئے اور مزید قرضے لے کر خود اپنی عیاشیوں کے لیے بندر بانٹ کر کے عوام کو حالیہ بجٹ میں غریب سے غریب تر کر دیا جس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا یہ مکمل طور پر عوام دشمن بجٹ ہے یہ بجٹ عوام کا نہیں سرمایہ داروں کا بجٹ ہے جس میں اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا گیا ہے اور تنخواہوں میں نجی شعبے کے ملازمین کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس بجٹ کو ائی ایم ایف کا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فارم 47 کی جالی حکومت کو نہ ہم نے پہلے تسلیم کیا تھا نہ اپ کرتے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا ہمارا مطالبہ ہے کہ اس جالی اور عوام کی مسترد شدہ حکومت کو فوری طور پر ہٹا کر نئے انتخابات کرائے جائیں موجودہ بجٹ مصنوعی ہے جس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا حکومت کو چاہیے تھا کہ ٓائی ایم ایف کی اجازت کے بجائے ملازمین کی تنخواہوں پنشنوں میں خود فیصلہ کرتے اور چھوٹے ملازمین کو انکم ٹیکس میں جھوٹ دے کر بڑے سرمایہ دار جاگیردار پر ٹیکس لگا کر خسارہ پورا کیا جاتا موجودہ بجٹ عوام کے ساتھ مذاق ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایم ایف
پڑھیں:
گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-4
راجا ذاکرخان
گلگت بلتستان کے عوام یکم نومبرکو یوم آزادی گلگت بلتستان بھرپور انداز سے مناتے ہیں، یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے ڈوگرہ فوج سے 28 ہزار مربع میل کا علاقہ جہاد سے آزاد کرایا، گلگت بلتستان کے بچوں، بوڑھوں، مرد اور خواتین نے آزادی کے لیے اپنے سب کچھ قربان کرکے آزادی کی نعمت حاصل کی، تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقوں نے پاکستان بننا تھا اور ہندو اکثریتی علاقوں نے ہندوستان میں شامل ہونا تھا مگر انگریزوں اور ہندووں کی ملی بھگت سے وہ مسلم علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے جس میں کشمیر بھی شامل ہے، کشمیر پر مسلط ڈوگرہ نے ہندوستان سے جعلی اعلان الحاق کیا جس کی وہ سے تنازع پیدا ہوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے جہاد سے یہ خطے آزاد کرالیے مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر کشمیرکے علاقوں پر ہندوستان نے جبری فوجی قبضہ کرلیا جو آج تک قائم ہے۔
گلگت بلتستان کا یہ آزاد علاقہ آج دس اضلاع پر مشتمل ہے دنیا کی بڑی اونچی چوٹیاں یہاں ہیں، دنیا کا بلند ترین سطح پر میدان دیوسائی یہاں موجود ہے، دریا پہاڑ جنگلات ریگستان یہاں پائے جاتے ہیں، اس حوالے سے یہ دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہے، دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح یہاں آتے ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاح جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ ایک ہی نظر میں وہ سارے منظر دیکھ لیتے ہیں جو نظروں کو خیرہ کردیتے ہیں۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بیس کیمپ کی حیثیت رکھتے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم نے ان آزاد خطوں کے عوام کے لیے انقلابی حکومت قائم کرائی تاکہ یہاں کے عوام کے مسائل حل بھی ہوں اور بقیہ کشمیرکی آزادی کے لیے حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کریں، بیس کیمپ کی یہ حکومت قائد اعظم کے وژن کا نتیجہ ہے۔ لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی ایک ہی حکومت زیادعرصہ نہ چل سکی، پھر معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کیا گیا، اگرچہ عوام چاہتے تھے کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلیں مگر کسی وجہ سے ان دونوں خطوں کا نظام حکومت الگ کیا گیا۔ نظام حکومت الگ کرانے میں گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزاد کشمیرکی قیادت نے زیادہ کردار ادا کیا۔
گلگت بلتستان کے نظام حکومت میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں، اس وقت عبوری صوبے کا اسٹیٹس ہے، گورنر اور ویزرا علیٰ ہیں مگر یہ عبوری ہیں جب تک کشمیر آزاد ہوتا یہاں کے عوام پاکستان اور مقبوضہ کشمیرکے بھائیوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں نظام حکومت کافی کمزور تھا ابھی کافی حد تک نظام حکومت میں بہتری آئی ہے اور ابھی بھی ارتقائی عمل جاری ہے۔ اس حساس خطے پر دشمن کی نظریں ہمیشہ سے رہی ہیں۔ فرقہ واریت کا شکار رہا ہے مگر یہاں کے تمام ہی مکاتب فکر کے علماء اور عوام نے سوچا کہ ہمیں تقسیم کرو اور حکومت کرو کا عمل کارفرما ہے اس لیے یہاںکے عوام نے فیصلہ کیا کہ اب ہم کو مل کر رہنا ہے اور اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور ترقی کا راستہ بھی یہی ہے۔ اس سوچ اور فکر کو پذیرائی ملی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں امن ہے۔ اس خطے میں سنی، اہل تشیع، نوربخشی، اسماعیلی سمیت دیگر مذاہت کے لوگ آباد ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں پاکستان کی جماعتوں کی شاخیں موجود ہیں مگر جماعت اسلامی، لبریشن فرنٹ سمیت دیگر ریاستی جماعتیں بھی موجود ہیں جو فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ ریاستی جماعتوں میں جماعت اسلامی بڑی اور فعال جماعت ہے جو پورے گلگت بلتستان میں موجود ہے عوام کے کام کررہی ہے، انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور اچھا مقابلہ کرتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرگلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کئی دورے کیے ہیں۔
گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے، یہ پاکستان کا قدرتی حصار ہے، گلگت بلتستان کے عوام بھی اپنی آزادی کا دن منانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے بھی دعائوں کرتے ہیں کہ وہ بھی آزادی ہوں حقیقی آزادی وہ ہوگی جب پور ا کشمیرآزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنے گا۔