اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک کو نیٹو کے طرز پر اتحاد بنانا چاہیے، مجھے مسلم ممالک کے اجلاس میں مایوسی نہیں ہوئی، حماس کی قیادت امریکہ کی مرضی سے قطر میں بیٹھی تھی، قطر میں اسرائیلی حملہ امریکی کی مرضی سے ہوا۔ بڑا واقعہ ہے کچھ وقت لگے گا لیکن کچھ نا کچھ ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے قطر میں اسرائیلی حملہ امریکی کی مرضی سے ہوا، مسلم دنیا کو سمجھنا چاہیے، اپنے دوست نما دشمن میں تفریق کر لیں۔ گز شتہ روز نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا مسلم ممالک کو نیٹو کے طرز پر اتحاد بنانا چاہیے، مجھے مسلم ممالک کے اجلاس میں مایوسی نہیں ہوئی، حماس کی قیادت امریکہ کی مرضی سے قطر میں بیٹھی تھی، قطر میں اسرائیلی حملہ امریکی کی مرضی سے ہوا۔ بڑا واقعہ ہے کچھ وقت لگے گا لیکن کچھ نا کچھ ہوگا۔
انہوں نے کہا غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے یہ سب کچھ امریکہ کی مرضی کیساتھ ہوا ہے، شام میں امریکہ کی مرضی سے حکومت آئی ہے، اسرائیل اس پر بھی حملے سے باز نہیں آ رہا۔ وزیر دفاع نے کہا اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، اس کو سوڈان سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لائے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا امریکہ اور مغرب میں جو رائے عامہ بن رہی ہے، یہ اسرائیل کیلئے زیادہ خطرناک ہے، امریکہ اور باقی دنیا میں رائے عامہ اسرائیل کیخلاف ہو رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ کی مرضی مسلم ممالک کی مرضی سے نے کہا
پڑھیں:
بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
معصوم مرادآبادی
بہار میں چناؤ کا اسٹیج پوری طرح تیار ہے ۔یہاں اصل مقابلہ’این ڈی اے ‘ اور’انڈیا اتحاد’ کے درمیان ہے ۔انڈیا اتحاد’مہا گٹھ بندھن’ کے نام سے چناؤ لڑرہا ہے ، جس میں سات پارٹیاں شامل ہیں۔ اس اتحاد کی ساری امیدیں مسلم رائے دہندگان کے ساتھ ہیں جو ریاست کے 13 کروڑ ووٹروں میں اٹھارہ فیصد کے قریب ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ بہار کا ووٹر دیگر صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ باشعور اور بالغ ہے اور وہ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتا۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے اس الیکشن میں لالو پرشاد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو وزیراعلیٰ کا چہرہ ہیں اور ان کے ساتھ ہی ملاح سماج کے مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے طورپر پیش کیا گیا ہے ۔ یہیں سے دراصل مسلم حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئی ہیں کہ جب دوتین فیصد ووٹوں والے ملاح برادری کے لیڈر کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر اٹھارہ فیصد مسلم رائے دہندگان کی نمائندگی کرنے والے کسی مسلمان کو یہ عہدہ کیوں نہیں مل سکتا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ نائب وزیراعلیٰ سے ہوتی ہوئی مسلم وزیراعلیٰ تک پہنچ گئی ہے ۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بہار میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہریاست میں مسلم وزیراعلیٰ کیوں نہیں ہوسکتا؟ حالانکہ ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 17/فیصد ہے ۔’ بیرسٹر اویسی نے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کے لیے حکمراں این ڈی اے اور اپوزیشن انڈیا اتحاد دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ مجلس اتحاد المسلمین اس بار بہار کی32/اسمبلی نشستوں پر چناؤ لڑرہی ہے ۔ بہار کیگزشتہ چناؤ میں مجلس کوپانچ نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور یہ تلنگانہ کے باہر کسی ریاست میں اس کی سب سے بڑی کامیابی تھی، لیکن درمیان میں مجلس کے چار ممبران اسمبلی نے بغاوت کرکے آرجے ڈی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور اس واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب شاید ہی بیرسٹر اویسی بہار کا رخ کریں گے ، لیکن اب وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ بہار اسمبلی الیکشن لڑرہے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ بیرسٹر اویسی نے گوپال گنج سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہ”بہار میں مسلمان وزیراعلیٰ کیوں نہیں بن سکتا؟ جہاں 17فیصد مسلمان رہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان جماعتوں کو ایک ایسے شخص کو نائب وزیراعلیٰ بنانے میں کوئی دقت نہیں ہے ، جو آبادی کے صرف تین فیصد حصے کی نمائندگی کرتا ہو۔ بیرسٹر اویسی نے اس سلسلہ میں انڈیا اتحاد کی جانب سے نشاد لیڈر مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کی پیشکش کا حوالہ دیا جو وکاس شیل انسان پارٹی کے سربراہ ہیں۔ بیرسٹر اویسی نے یہ بھی کہا کہ کانگریس، آرجے ڈی اور سماجوادی پارٹی جیسی جماعتوں کو مسلمانوں کے ووٹ چاہئیں، وہ بی جے پی سے ڈراکر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی ہیں لیکن یہ بی جے پی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں سے ووٹ مانگتی ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان پارٹیوں کے جھوٹ کو بے نقاب کیا جائے ۔ یہ پارٹیاں ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ نہیں دے سکتیں۔ مسلمانوں کو اپنی قیادت بنانے پر توجہ دینی چاہئے ۔بہار میں کسی مسلمان کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنانا اس وقت انڈیا اتحاد کی مجبوری ہے کیونکہ یہ مسئلہ اب سنگین رخ اختیار کرتا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بہار کانگریس کے انچارج کرشنا الاورو نے یہ اشارہ دیا ہے کہ”مہاگٹھ بندھن کی سرکار میں کانگریس سے دوسرا نائب وزیراعلیٰ مسلمان ہوسکتا ہے ۔ ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہار میں مہا گٹھ بندھن کی طرف سے مسلمانوں کو نظرانداز کئے جانے کی بات گھر گئی ہے اور انڈیا اتحاد اس معاملے میں فکر مند نظر آتا ہے ۔ فکر مندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہار میں پولنگ کے دن سرپر ہیں اور اگر ایسے میں مسلمان تذبذب کا شکار ہوگئے تو اس کا بڑا نقصان مہا گٹھ بندھن کو پہنچ سکتا ہے ۔حالانکہ عام خیال یہی ہے کہ بہار میں مسلم ووٹوں کی اکثریت آرجے ڈی کے حق میں جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ بہار میں کبھی کوئی مسلمان وزیراعلیٰ نہ رہا ہو۔ جن لوگوں کی یادداشت اچھی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ چچا عبدالغفور بہار میں 1973 سے 1975تک کانگریس کے وزیراعلیٰ رہے ۔بہار ہی نہیں آسام میں بھی انورہ تیمور کانگریس کی وزیراعلیٰ ر ہیں۔ اتنا ہی نہیں مہاراشٹر جیسی ریاست جہاں مسلم آبادی دس فیصد سے بھی کم ہے عبدالرحمن انتولے کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا،جو آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے معتمد خاص تھے ، لیکن ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ مسلمان حاشئے پر پہنچادئیے گئے ہیں کشمیر کے علاوہ کسی مسلمان کو کسی اورریاست کا وزیراعلیٰ پروجیکٹ کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ ماضی میں ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت اس درجہ رہی ہے کہ سیکولر اسٹیج پر کسی مسلمان لیڈر کو بٹھانا سیاسی ضرورت سمجھی جاتی تھی، لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے سیکولر پارٹیوں کے لیے بھی مسلمان’اچھوت’ بن گئے ہیں۔یہ پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں، لیکن انھیں حصہ داری نہیں دینا چاہتیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان بی جے پی سے خوفزدہ ہوکر انھیں ووٹ دے گا۔
بہار میں کسی مسلمان کو وزیراعلیٰ بنانے کا مطالبہ نیا نہیں ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام ولاس پاسوان نے سب سے پہلے یہ موضوع اچھالا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیٹے اور لوک جن شکتی پارٹی کے موجودہ صدر چراغ پاسوان نے کہا ہے کہ”میرے والد رام ولاس پاسوان نے کسی مسلمان کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے اپنی پارٹی تک قربان کردی تھی، لیکن مسلمانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ انھوں نے راشٹریہ جنتا دل پر الزام عائد کیا کہ وہ2005میں بھی مسلم وزیراعلیٰ کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لیے 2025کے چناؤ میں بھی ڈپٹی سی ایم کے عہدے کے لیے کسی مسلمان کی حصہ داری یقینی نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان اگر صرف ووٹ بینک بن کررہیں گے تو انھیں عزت اور اقتدار میں حصہ داری نہیں ملے گی۔
راشٹریہ جنتا دل بہار میں مسلم ووٹوں کی سب سے بڑی دعویدار پارٹی ہے اور وہ اس مرحلے میں جبکہ چناؤبالکل سرپر ہیں یہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ انتخابی ماحول میں کوئی بدمزگی پیدا ہو۔آرجے ڈی کے لیے کسی مسلمان کانام نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے پیش کرنے کے خطرات اور بھی ہیں۔ آرجے ڈی میں نئے اور پرانے مسلم لیڈروں کی بھرمار ہے اور یہ سب ذات پات کے حصار میں قید ہیں۔ بہار میں اونچے اور نیچے طبقوں کی تفریق اتنی زیادہ ہے کہ اگر کسی ایک طبقہ کے مسلم لیڈر کانام نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے پیش کیا گیا تو دوسرا طبقہ لازمی طورپر ناراض ہوجائے گا۔اس لیے راشٹریہ جنتا دل یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔بہرحال بہار کے انتخابی میدان میں بی جے پی کو چھوڑ کر تمام ہی سیکولر اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے ۔سبھی کو یہ امید ہے کہ مسلمان اسے ووٹ دیں گے اور سبھی مسلمانوں کی خیرخواہی کے دعویدار بھی ہیں۔6/اور11/ نومبر کو دومرحلوں میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں آرجے ڈی نے اپنے 143/ امیدواروں میں 18/ مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں جبکہ کانگریس کے مسلم امیدواروں کی تعداد دس ہے ۔جنتا دل (یو) کے 101/امیدواروں میں مسلمانوں کی تعداد محض چار ہے ۔ جبکہ چراغ پاسوان کی پارٹی نے اپنے 29 امیدواروں میں صرف ایک مسلمان محمد کلیم الدین کو بہادر گنج سے ٹکٹ دیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے مسلمان کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔2020کے اسمبلی چناؤ میں 24/ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ بہار میں کم وبیش پچاس سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان ہارجیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مسلم اکثریتی حلقے سیمانچل میں واقع ہیں اور سبھی پارٹیاں یہاں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔