ڈرائنگ رومز اور واٹس ایپ جرنیلوں کے نام
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
افتخار گیلانی
مئی کے مہینے میں، جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ جنگ کی گھنٹیاں بجنے لگیں، سرحدوں پر فوجیں صف آرا تھیں اور میزائل سرحد پار کر رہے تھے ، تو اصل لڑائی شہروں، محلوں، چائے خانوں اور ڈرائنگ رومز میں لڑی جا رہی تھی۔ نہ وردی کی ضرورت تھی، نہ تربیت کی۔ ہر شخص وہاٹس ایپ پر جرنیل بنا بیٹھا تھا۔ ہر دوسرا فرد اسٹریٹجک تجزیہ کار بن کر عسکری مشورے دے رہا تھا۔ جیسے کرکٹ میچ کے دوران ہر شائق ماہر کوچ بن جاتا ہے ، ویسے ہی مئی کی اس کشیدگی کے دوران ہر فرد اپنی رائے دے رہا تھاکب، کہاں، اور کیسے حملہ ہونا چاہیے ۔
دہلی کی ہماری رہائشی سوسائٹی گروپ میں ایک آنٹی نے بیلسٹک میزائل ٹکنالوجی پر ایک لمبی پوسٹ شیئر کی ۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ معلومات انہیں اپنے کزن سے ملی، جو فضائیہ میں کام کرتا تھا۔بعد ازاں پتہ چلا کہ وہ کزن دراصل تنخواہوں والے اکاؤنٹس سیکشن میں تھا، اور اس کا میزائلوں سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا ایک اکاؤنٹنٹ کا میزائل لانچر سے ہو سکتا ہے ۔اسی گروپ میں ایک انکل جو جنگی مشورہ دے رہے تھے سے پوچھا گیا کہ ان کی عسکری قابلیت کیا ہے ؟، تو انہوں نے اعلان کیا ؛’میں نے ‘بارڈر’ اور ‘اوڑی’ فلمیں دس بار دیکھی ہیں، مجھے جنگ کی باریکیاں بخوبی معلوم ہیں ‘ اعتراضات کرنے والوں پر انہوں نے ملک دشمنی کا الزام لگا کر چپ کروادیا۔
دہلی کے ایک پوش علاقے کے واٹس ایپ گروپوں میں گویا جنگ چھڑ گئی تھی ،جب پاکستان پر ہندوستان نے میزائلوں سے حملے کیے ،ٹی وی پر جب وہ جگہیں دکھائی جا رہی تھیں۔ ایک آنٹی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’ارے بھئی، عمارت تو جوں کی توں کھڑی ہے ! مرنے والے بھی وردی میں نہیں تھے ۔’ان کی سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ میزائل نے عمارت پر عمودی حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ قوس کی شکل میں گرا۔’یہ کیا طریقہ ہوا؟ میزائل تو اوپر سے سیدھا مارنا چاہیے تھا!’ انہوں نے لکھا تھا۔ابھی دفاعی ترجمان کی پریس کانفرنس مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پر دفاعی حکمت عملی طے ہونے لگی تھی۔ ایک پان والے نے پوسٹ کیا تھا،’بھائی صاحب، وہ ہدف درست نہیں تھا۔ ہمیں ان کا تیل کا ذخیرہ ملتان میں اڑا دینا چاہیے تھا!’ایک خاتون نے ٹوئٹر پر مشورہ دیا کہ انڈین ایئر فورس کو ملتان میں تھوکر نیاز بیگ کو نشانہ بنانا چاہیے ، کیونکہ وہاں مبینہ طور پر ہندوستان مخالف عناصر موجود ہیں۔ بعد میں جب کسی نے ان کی تصحیح کی کہ تھوکر نیاز بیگ تو لاہور میں ہے ، تو انہوں نے خاموشی سے پوسٹ ڈیلیٹ کر دیاور اگلے دن اسٹریٹجک خاموشی اختیار کر لی۔
ہندوستانی نیوز چینلوں پر ایسا ماحول بن گیا تھا گویا گلیڈیئیٹرز کا میدان ہو۔ ایک خود ساختہ جنرل صاحب میز پر بیٹھے فرما رہے تھے ؛’اگر میرے مشورے پر حملہ ہوتا، تو آج دشمن ہتھیار ڈال چکا ہوتا۔’ایک شادی کی تقریب میں، دولہا ابھی ہال میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک ماموں صاحب نے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا؛’یہ جو حملہ ہوا ہے نا، یہ الیکشن اسٹنٹ ہے ۔ اصل حملہ تب ہوتا جب ہم ان کا ریڈار سسٹم تباہ کرتے ۔’دلہن کی خالہ نے کان میں سرگوشی کی؛’ارے چھوڑو حملہ، یہ بتاؤ، لڑکا کس رجمنٹ میں ہے ؟’
جنوبی دہلی کے لاجپت نگر علاقے کے شرما جی، جو دن بھر لائف انشورنس کی پالیسیاں بیچتے ہیں، شام کو عسکری ماہر بن جاتے ہیں۔ وہ بھارتی فوج کو جیسلمیر کے قریب تعیناتی کی اسٹریٹجی سمجھا رہے تھے ؛’اگر میں جنرل ہوتا، تو میں برہموس میزائل شمال مشرق سے چلاتا، مغرب سے نہیں۔ پھر دیکھتے وہ کیا کرتے !’پھر فرمایا؛’ہائپرسانک میزائل استعمال کرنے چاہیے ، جیسا روس نے کیا۔ سب سے پہلے پاکستان کے ڈرون ہیک کرو۔ میرے بیٹے کو ہیکنگ آتی ہے ۔ ایرفورس کو اس کی خدمات لینی چاہیے !’جب حقیقی جرنیل خطرات کا حساب لگا رہے تھے ، تب وہاٹس ایپ کے سِم کارڈ جرنیل مشورے دے رہے تھے ؛
‘بھائی، کراچی پر ایٹم بم پھینکو اور کھیل ختم کرو!’
ایک بابو نے مشورہ دیا؛
‘ریورس میزائل استعمال کرو، اگر انٹرسیپٹ ہو جائے تو واپس آ جائے گا!’
ایک خاتون نے صبح جھاڑو دیتے ہوئے دوسری سے کہا؛’بی بی، رات کے حملے کی آواز سنی؟’
جواب آیا؛’وہ میزائل نہیں تھا، میرا شوہر خراٹے مار رہا تھا!’
مگر سچ یہ ہے کہ سرحدوں پر جب گولیاں چلتی ہیں، جب لاشیں گرتی ہیں، تب صرف سپاہی نہیں، انسانیت بھی مرتی ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ 2016 میں سرجیکل اسٹرائک کے بعد ایک معروف چینل کے ایڈیٹر جو خود کو اسٹریٹجک امور کے ماہر سمجھتے ہیں، کیونکہ ماضی میں پتہ نہیں کیوں پاکستان نے ان کو قبائلی علاقوں میں ڈاکو مینٹری بنانے کی اجازت دی، نے سرینگر کے ڈل گیٹ علاقے میں لائن آف کنٹرول کھینچ کر ایک کرنل کے ساتھ ایک گھنٹے کا لائیو شو کیا۔وہ کرنل سے پوچھ رہے تھے کہ مظفر آباد تک پہنچنے میں فوج کو کتنا وقت لگے گا۔ ان کا جواب تھا کہ بس سترہ گھنٹوں میں قبضہ ہو جائے گا اگر راستہ میں ٹریفک جام نہ ہوا۔ایسے ماحول میں، جہاں جوش کو حب الوطنی سمجھا جائے ، وہاں اگر کوئی تجزیہ کار احتیاط کا مشورہ دے ، تو اسے دشمن کا ایجنٹ سمجھا گیا۔ سفارت کار اگر جنگ سے بچنے کی بات کریں تو انہیں بزدل، اور صحافی سوال کریں تو غدار قرار دیا گیا۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے ایک قتل نے پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی تھی؟کیا ہم بھول گئے کہ نازی جرمنی کے فالس فلیگ حملے سے دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تھی، جس میں کروڑوں افراد مارے گئے ؟اور کیا ہم یاد رکھتے ہیں کہ جب واجپائی کو مشورہ دیا گیا کہ نیپال سے دہلی آنے والے اغوا شدہ طیارے کو لاہور میں تباہ کر دیں، تو انہوں نے انکار کیا؟ انہوں نے تین سو جانوں کو بچانے کو ترجیح دی، محض سفارتی پروپیگنڈے کی خاطرانہوں نے جانیں قربان کرنے سے انکار کردیا تھا۔شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے ۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے ، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے ۔تب ہمیں احساس ہوگا کہ میزائل صرف پاکستان پر ہی نہیں، ہمارے شعور پر بھی گرے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
Self Sabotage
ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔
سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔
وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔
اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔
کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔
کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔
کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔
میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔
ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔
تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔
آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔
سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔
ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔