بچوں کے ہاتھ میں قلم، کتاب، لیپ ٹاپ ہونے چاہئیں، اوزار، اینٹیں نہیں: مریم نواز
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) بچوں کی جبری مشقت کے حوالے سے وزیراعلیٰ مریم نواز کے ویژن کے تحت سیف سٹی اتھارٹی کے زیر اہتمام پاکستان کا پہلا ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی قائم کر دیا گیا ہے۔ ورچوئل سنٹر فارچائلڈ سیفٹی میں پروفیشنل ماہرین کی ٹیم گم شدہ افراد کی تلاش، ورثا سے رابطے اور تصدیق پر مامور ہے۔ ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی نہ صرف گم شدہ بچوں بلکہ ضعیف العمر بزرگوں کو گھر واپس لانے کیلئے موثر ثابت ہوا ہے۔ بچے یا ضعیف العمر عزیز واقارب کی گم شدگی کی صورت میں ورچوئل فار چائلڈ سیفٹی سے آسان ترین رابطے کا سسٹم موجود ہے۔ ایمرجنسی ہیلپ لائن 15 پر کال کرکے 3 کا بٹن دبا کر ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی سے فوری رابطہ ممکن ہے۔ پنجاب بھر کے شہری سیفٹی ایپ کے ذریعے بھی ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی سے رابطے کر سکتے ہیں۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پہلی مرتبہ دیگر صوبوں کے گم شدہ بچوں اور شہریوں کے لئے خصوصی ہیلپ لائن 0309-0000015 کو بھی فعال کیا گیا ہے۔ خصوصی ہیلپ لائن پر کال، واٹس ایپ میسج یا ٹیکسٹ میسج کے ذریعے گم شدہ بچوں سے متعلق اطلاع دینے کی سہولت بھی موجود ہے۔ ورچوئل سیفٹی سنٹر پر گم شدہ افراد سے متعلق شکایت کیلئے 59635 سے زائد افراد رابطہ کرچکے ہیں۔ پنجاب کے پہلے ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی کے ذریعے 53542 گم شدہ افراد سے متعلق کیس کامیابی سے ہمکنار ہوگئے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کے اختراعی ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی کے ذریعے 26 ہزار سے زائد افراد گم شدگی کے بعد اپنے گھروں میں پہنچ گئے ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ بچے میری ریڈ لائن ہیں، گمشدگی کی صورت میں والدین کے دکھ کو سمجھ سکتی ہوں۔ بچے خواہ ہمارے ہوں یا کسی اور صوبے کے ہمیں سب پیارے ہیں۔ گم شدگی کی صورت میں ہر بچے کو خیر وعافیت سے گھر پہنچانے کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ پاکستان کے پہلے ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی سے ملک کا ہر شہری مستفید ہوسکتا ہے۔ پنجاب کا پہلا ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی انسانی ہمدردی، قومی یکجہتی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور گڈ گورننس کی کامیاب مثال ہے۔ گمشدہ بچوں کی واپسی کیلئے تمام تر ریاستی وسائل استعمال میں لانے تیار ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ بچوں کے محفوظ مستقبل کیلئے پنجاب چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نافذ کرنے والا پہلا صوبہ ہے۔ پنجاب میں پہلا ورچوئل چائلڈ سیفٹی سٹیشن قائم کر کے بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنارہے ہیں۔ چائلڈ لیبر قطعاً برداشت نہیں، آج کے دور میں چائلڈ لیبر کے واقعات انسانیت کے لئے المیہ ہے۔ بچوں سے جبری مشقت، معاشرے کے باشعور شہریوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں قلم،کتاب اور لیپ ٹاپ ہونے چاہئیں، اوزار اور اینٹیں نہیں۔ قلم تھامنے والی کم سنی کی عمر میں بوجھ اٹھانے پر مجبور بچے ہر مہذب معاشرے کیلئے سوالیہ نشان ہیں۔ کسی معصوم بچے کا بچپن محفوظ نہ رہا تو آنے والے کل میں معاشرہ مفید شہری سے محروم رہے گا۔ چائلڈ لیبر کو محض ایک مسئلہ نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کا سوال سمجھتی ہوں۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کیے جارہے ہیں۔ بچوں کو جبری مشقت سے نجات دلا کرتعلیم کی طرف لا رہے ہیں۔ ایسا پنجاب چاہتے ہیں جہاں ہر بچہ مزدوری نہیں علم حاصل کرے اور قوم کا مستقبل سنوارے۔مریم نواز نے احمد آباد میں بھارتی طیارہ گرنے مسافروں کی ہلاکت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے راولپنڈی میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے کانسٹیبل سجاد حسین کو خراج حسین پیش کیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: چائلڈ لیبر مریم نواز کے ذریعے شدہ بچوں بچوں کے
پڑھیں:
دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
پاکستان ٹیلی ویژن نے 61 برس کے سفر میں بہت سے ایسے منفرد کردار متعارف کروائے ہیں جنہوں نے ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دل میں بسیرا کر لیا۔ ٹی وی اور دنیا کی اسکرین سے ہٹ جانے کے بعد بھی یہ کردار لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہو سکے۔ بعض کی یاد میں ان کی ناگہانی موت نے درد کا رنگ پیدا کردیا۔ اس طرح کی ایک ہر دلعزیز شخصیت معروف کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کی ہے، جن کی اکتیسویں برسی جمعرات کو منائی گئی۔ میرے لیے انہیں یاد کرنے کی وجہ 1999 میں شائع ہونے والی کتاب ‘دلبر دلدار’ بنی ہے جسے پنجابی کے معروف لیکھک حسین شاد نے مرتب کیا تھا۔
کسی کی یاد دیرپا بنانے کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں کئی ذائقے ہیں، دلدار کے بڑوں، ہم عصروں اور دوستوں نے بڑی محبت سے انہیں یاد کیا ہے۔ نمونے کے طور پر دلدار کے بیس کالم بھی ہیں۔ یہ سب نگارشات بہت اہم ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دلدار پرویز بھٹی سے الفت کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔
میرے لیے اس کتاب میں توشہ خاص دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادداشتوں کے چند صفحات ہیں جن میں اپنے حالات بیان کرنے لیے جو پیرایہ اظہار اختیار کیا گیا ہے وہ معاشرے کے اس انتشار کی کہانی بن جاتا ہے جس کا آغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اس لکھت کی اٹھان خبر دیتی ہے کہ اگر یہ پایہ تکمیل کو پہنچتی تو ایک منفرد آپ بیتی ہمارے سامنے آتی۔ اس کا پہلا پیراگراف ذرا ملاحظہ کیجیے:
‘میرا خاندان بہت مختصر تاریخ رکھتا ہے، میرے بزرگ محمد بن قاسم کے ساتھ نہیں آئے تھے نہ شاہوں کی اولاد تھے۔ ہم نے قائداعظم سے کبھی ملاقات نہیں کی نہ ہی انہوں نے یا کسی مرد قلندر نے ہمیں خواب میں بشارت دی۔ ہم نے پاکستان بالکل نہیں بنایا نہ اس کے لیے کوئی قربانی دی، یہ ہمیں بنا بنایا مل گیا تھا، تایا فوج میں تھے۔ ہمارا قافلہ لٹنے پٹنے سے بچ گیا (افسوس) یہاں آکر مزے سے پراٹھے کھائے، گھر الاٹ کرایا اور گوجرانولہ میں دوبارہ آباد ہو گئے۔ دوبارہ اس لیے کہ ہم یہیں سے نقل مکانی کرکے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔ ابا کو ایک دفعہ تانگے میں سوار ہوتے ہوئے ایک گولی لگتے لگتے رہ گئی یہ گولی اس ٹانگ کو نشانہ بنا رہی تھی جو وہ پائیدان پر رکھ چکے تھے، چلانے والا کوئی اناڑی بدمست سکھ تھا ورنہ زخمی ٹانگ کے بدلے لیاقت علی خان سے ایک آدھ مربع تو مل ہی جاتا اصل میں ہماری ساری زندگی ایسے ہی مس چانسز سے عبارت ہے۔‘
امرتسر کی حکایت بھی اسی طرز میں بیان ہوئی ہے جس کے قصے انہوں نے اپنی والدہ اور بڑے بھائی سے سنے تھے جن سے ان کے والد نثار علی بھٹی ایڈووکیٹ کے سکھوں اور ہندوؤں سے خوشگوار تعلقات اور محلے کے مکینوں کے دل میں ان کے لیے پائی جانے والی تکریم کا پتا ملتا ہے، گاؤں میں اپنی یاد زندہ رکھنے کے لیے وہ اپنے دادا کے حسنِ عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:
‘گاؤں چھوڑنے کے غم کو دادا نے اسی گلی میں کنواں کھدوا کر غلط کیا، اس کنویں پر شطرنج اور چوسر کی بازی لگتی اور کیا بڑا کیا چھوٹا بلا امتیاز مذہب سب مل بیٹھتے۔’
فسادات میں محبت کے نفرت میں بدلنے کا تذکرہ بھی وہ کرتے ہیں، خاندانی روایات کے علاوہ امرتسر کے بارے میں ان کی معلومات کا ماخذ اے حمید اور خواجہ افتخار کی کتابیں تھیں۔
گوجرانولہ میں سینٹ میری اسکول کی مسیحی استانیوں کو وہ بڑی محبت سے یاد کرتے ہیں جو ان کے بقول ‘ٹافیاں چاکلیٹ بھی دیتی تھیں اور مسکراہٹیں اور شاباشیں بھی، سب سے اچھی اور پیاری نیلی آنکھوں والی سسٹر وکٹرین تھیں، لمبا قد اور پیار ہی پیار۔ پیانو پر بیٹھ جاتیں اور ہم سب اے بی سی ڈی گاتے۔’
وہ اس اسکول پر عیسائیت پھیلانے کا الزام مسترد کرتے ہوئے اپنے ہاں کے پرائیوٹ انگریزی اسکولوں پر کاٹ دار تبصرہ کرتے ہیں:
‘اب تو گھر گھر انگریزی اسکول کھل گئے ہیں، میٹرک فیل ماہر تعلیم ان کو چلا رہے ہیں، ڈبل فیس پر بچے، آدھی تنخواہ پر استانیاں، ایک آدھ اچھی سی استانی سے دوسری شادی اور دنوں میں لکھ پتی اب کوئی ان اسکولوں کے خلاف نہیں بولتا۔’
دلدار پرویز بھٹی میں ریڈیو اور ٹی وی پر کام کرنے کی فطری صلاحیت کا اظہار بھی ان کے بچپن میں ہونے لگا تھا، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔
لکھتے ہیں: ‘اداکار میں بچپن ہی سے تھا، بس اشارے کی دیر تھی، بیٹا آنکھ مارو، انگریز کیسے سیگریٹ پیتے ہیں، شیر کیسے گرجتا ہے، سردی کیسے لگتی ہے، جیسے چھوٹے چھوٹے اشاروں پر فوراً عمل کرتا، کان مروڑنے پر فوراً ریڈیو بن جاتا اور خبریں، گانے اور سارے دن کے واقعات اگلنے شروع کر دیتا۔’
اب ہم ان کی ادھوری خودنوشت سے ان کی وفات سے قریباً 2 ماہ پہلے فرنٹیئر پوسٹ میں شائع ہونے والے انٹرویو کی طرف بڑھتے ہیں جو گزشتہ دنوں اس اخبار کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کے دوران میری نظروں سے گزرا۔
اس سے اسکول کے زمانے میں ان کی رومانوی طبیعت کی جھلک سامنے آتی ہے، ان دنوں اداکارہ ثریا ان کے خوابوں کی شہزادی تھی اور تصورات کی دنیا میں کافی عرصہ ان کی بیوی بھی رہیں۔ ان کی دادی نے یقین دلا رکھا تھا کہ ثریا اس لیے شادی نہیں کررہیں کہ دلدار کے بڑے ہونے کا انتظار ہو رہا ہے۔
اس انٹرویو میں دلدار نے بتایا ہے کہ ریڈیو پر اناؤنسر کے لیے آڈیشن انہوں نے پاس کر لیا تھا لیکن وہ ریڈیو جوائن نہیں کر سکے کیوں کہ ان کے والد چاہتے تھے وہ پہلے ایم اے انگریزی کریں سو اس خواہش کا احترام کیا اور لیکچرار بن گئے۔ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ دنیا میں دو زبانیں اہم ہیں۔ پنجابی لوگوں کے دلوں کو گرفت میں لیتی ہے اور انگریزی ان کے دماغوں پر تصرف جماتی ہے۔
ان سے کامیاب کمپیئر ہونے کے باوجود پرائم ٹائم میں شاذو نادر نظر آنے کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ وہ اوپر والوں کو مکھن نہیں لگاتے، ان کی کوئی پی آر نہیں ہے اور وہ دوسروں کی طرح پیپلز پارٹی کے چمچے نہیں بن سکتے۔ ان کے خیال میں اسی بنا پر لوگ انہیں جمہور میلے اور جشن آزادی کی تقریب میں نہیں دیکھ سکے۔
دلدار کو پاکستان میں کمپیئرنگ میں نیا اسٹائل متعارف کروانے پر نہ صرف ناز تھا بلکہ ان کی دانست میں دوسروں نے اس کی تقلید کی، وہ صرف ضیا محی الدین کے اسٹائل کو مختلف قرار دیتے تھے، جسے دلدار کے خیال میں انہوں نے مغرب سے مستعار لیا۔
دلدار پرویز بھٹی نے بتایا کہ ان کے والد کا رنگ پکا جبکہ والدہ کا صاف تھا۔
رنگ کے معاملے میں بھائی والد اور بہنیں والدہ پر گئیں جس کی وجہ سے دلدار کے والد ازراہِ تفنن ان کی والدہ کو اکثر چھیڑتے تھے۔ کالے رنگ کی وجہ سے خاندان اور اس سے باہر بھی انہیں تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا۔ احساسِ کمتری سے بچانے کے لیے ان کی والدہ ہمیشہ انہیں چاند کا ٹکڑا کہا کرتی تھیں اور اس بات پر یقین سے وہ کالے رنگ کے خلاف تعصب کا مقابلہ کر سکے، اس لیے فرنٹیئر پوسٹ کو انٹرویو میں انہوں نے خود کو پیدائشی نرگسیت پسند بتایا تھا۔
اس پروفائل میں 23 مارچ 1978 کو ان کی شادی کا بھی تذکرہ ہے جس سے مجھے دلدار کے یار عزیز امجد اسلام امجد کے مضمون میں درج ان کی شادی سے جڑا ایک قصہ یاد آتا ہے جو ان کے سعادت مند ہونے کا ثبوت ہے۔
امجد صاحب کے بقول ‘اس کی شادی کا دن تھا، بارات گوجرانولہ سے ہمارے ہمسائے میں آنا تھی، سو طے پایا کہ ہم بھابھی کے گھر کے سامنے ایک جگہ جمع ہو جائیں اور وہیں سے بارات میں شامل ہوں، کچھ دیر بعد اطلاع ملی کہ بارات پہنچ گئی ہے، لیکن دولہا گاڑی سے اتر کر کہیں چلا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بارات ہمارے گھر کے سامنے رکی تھی اور دولہا ہماری والدہ کو سلام کرنے اور ان کی دعا لینے ہمارے گھر گیا تھا کیونکہ والدہ علالت کی وجہ سے شادی میں شریک نہیں ہو سکتی تھیں۔’
امجد اسلام امجد کی دلدار سے 25 سالہ دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ایم اے او کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ امجد صاحب کے بقول: ‘دوستی بھی ایسی جیسی اسکول کے لڑکوں میں ہوتی ہے کہ دوست دن کو رات کہے تو آپ ستارے گننا شروع کردیں۔’
امجد اسلام امجد سے دلدار کا گہرا یارانہ تھا اور احمد ندیم قاسمی سے ان کی ارادت مندی تھی، ایک دن وہ ان حضرات کو بااصرار سوپ پلانے چینی ریستوران میں لے گئے جہاں سے باہر نکلنے پر فقیر ان سے پیسے مانگنے لگا، اس نہ جب بہ تکرار یہ کہا :
‘بادشاہ کچھ دیتا جا’
اس پر دلدار پرویز بھٹی کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے ہاتھ جوڑ کر فقیر سے کہا ‘ابھی کچھ دیر پہلے تک میں واقعی بادشاہ تھا مگر اب ان لوگوں (مراد قاسمی صاحب اور امجد صاحب) نے مجھے تمہاری طرح فقیر کردیا ہے۔ اس لیے معاف کرو۔’
امجد اسلام امجد نے نثر کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی ہمدمِ دیرینہ کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے:
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
(دلدار پرویز بھٹی کے لیے ایک نظم)
کس کا ہمدرد نہ تھا، دوست نہ تھا، یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں
اپنی باتوں سے سبھی درد بھلا دیتا تھا
اس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکے، غم کے
پھر بھی ہر بزم کو گلزار بنا دیتا تھا
ہر دکھی دل کی تڑپ
اس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گھل کر
اس کی راتوں میں سلگ اٹھتی تھی
میری اور اس کی رفاقت کا سفر
ایسے گزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں
یہ جو پچیس برس
آرزو رنگ ستارے کی طرح لگتے تھے
کیسے آنکھوں میں اتر آئے ہیں آنسو بن کر
اس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے
وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خوشبو بن کر
اس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی
ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا
نام کا اپنے بھرم اس نے کچھ ایسے رکھا
دل احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا
کوئی پھل دار شجر ہو سرراہے، جیسے
کسی بدلے، کسی نسبت کا طلب گار نہ تھا
اپنی نیکی کی مسرت تھی اثاثہ اس کا
اس کو کچھ اہل تجارت سے سروکار نہ تھا
کس کا ہمدرد نہ تھا، دوست نہ تھا، یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
دلدار پرویز بھٹی نے ٹی وی پر اداکاری کی، خبریں پڑھیں لیکن انہیں احساس ہوا کہ ان کا اصل میدان کمپیئرنگ ہے۔ ‘ٹاکرا’ سے انہیں پہچان ملی اور پھر ‘میلہ’ اور ‘پنجند’ سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ پنجابی کمپیئرنگ میں وہ اپنے اسٹائل کے مؤجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ ان کے بعد پنجابی میں کمپیئر آتے رہے لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
انسانی شخصیت کی تعمیر میں مادری زبان کا بنیادی کردار ہوتا ہے، یہ آپ کے ذہن کو جلا بخشتی ہے جس کے بعد آپ دوسری زبانوں سے علاقہ پیدا کرکے ذہنی افق وسیع کرتے ہیں۔
دلدار پرویز بھٹی کی وجہ شہرت ان کے پنجابی پروگرام بنے لیکن دوسری زبانوں سے بھی ان کا برابر ربط ضبط رہا۔ کالج میں وہ انگریزی کے استاد تھے۔ اردو میں کالم لکھتے تھے۔ اس لیے بیک وقت تین زبانوں سے ان کا معاملہ رہتا تھا جس سے ان کی طبیعت میں کشادگی پیدا ہوئی۔
انٹرنیٹ پر ان کی ویڈیوز سے آپ ان کی حاضر دماغی اور بذلہ سنجی کے نمونے دیکھ کر آج بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔
ایک ویڈیو میں وہ دوسروں کی کمال مہارت سے نقل اتارتے ہیں اور ان کے برابر بیٹھے معروف ٹی وی پروڈیوسر یاور حیات بھی ان کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر ‘پنجند’ کے ایک کلپ سے ان کے پروگرام کے تنوع کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
اس میں ہماری ملاقات پنجابی کے معروف فکشن نگار، شاعر اور مترجم افضل احسن رندھاوا سے ہوتی ہے۔ ببو برال اور نشیلا کی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ لکڑی سے مجسمے بنانے والے ہنرمند سے دلدار گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، ایک خاتونِ خانہ سے کھانے کے بارے میں پرلطف مکالمہ ہوتا ہے۔
دلدار پرویز بھٹی کے فنی کمالات کا سب اعتراف کرتے ہیں، استاد اور لکھاری کی حیثیت سے بھی معروف ہوئے، ان کے شخصی محاسن بھی بہت تھے لیکن ان کی ذات کی ایک خوبی جو ان کی وفات کے بعد اس وقت کھل کر سامنے آئی جب ان کی مالی اعانت سے مستفید ہونے والے ضرورت مندوں اور ناداروں نے ان کے مرنے پر گریہ کیا اور دنیا نے جان لیا کہ دلدار کتنوں کے چارہ ساز تھے۔
زندگی کی آخری سانسوں تک وہ انسانیت کی خدمت میں جٹے رہے اور انہیں اجل کا سندیسہ اس وقت ملا جب وہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کی چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کے لیے امریکا میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے اور روشن دماغ دلدار کو برین ہیمبرج ہم سے ہمیشہ کے لیے دور لے گیا تھا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews ادھوری یادیں پاکستان ٹیلی ویژن دلدار پرویز بھٹی محمودالحسن وی نیوز