‘پہلی بار غربت اور بیروزگاری کے اعداد و شمار اقتصادی سروے میں نہیں دیے گئے’
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
شکیل احمد رامے ایشیئن انسٹیٹوٹ آف ایکو۔سولائزیشن کے سربراہ اور ماہر معیشت ہیں۔ موجودہ وفاقی بجٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ہر حکومت یا سیاسی جماعت یہ بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ معاشی محاذ پر سب اچھا چل رہا ہے اور ہم عوام کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن تفصیلات میں پتہ چلتا ہے کہ سب اچھا کیا ہے۔
’اس سے قبل جب بجٹ آتا تھا تو اُس میں کچھ اُمیدافزاء باتیں ہوتی تھیں اور کچھ سخت فیصلے ہوتے تھے۔ لیکن اس دفعہ مشکل یہ ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت کی کس بات پہ تنقید کریں اور کس پہ نہ کریں۔
یہ آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ہے یا آئی ایم ایف کی منظوری سے تیار کردہ بجٹ ہے اور کہنا مشکل ہے کہ ہم حکومت پہ تنقید کریں یا آئی ایم ایف پہ۔ اس بجٹ میں جی ڈی پی شرح نمو کے اعدادوشمار بہت حیران کُن ہیں۔‘
شکیل رامے نے کہا کہ سب لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ سال کی پہلی 3 سہ ماہیوں میں شرح نمو 1.
مذکورہ 5.3 فیصد شرح نمو چوتھی سہ ماہی کا تخمینہ ہے اور یہ حتمی اعداد و شمار نہیں کیونکہ چوتھی سہ ماہی کے ابھی 3 ماہ پورے نہیں ہوئے۔ ابھی حکومت اکتوبر میں جو نظرثانی شدہ اعداد وشمار شائع کرے گی اُس سے ہمیں درست اندازہ ہو گا۔ ابھی جو نظر آ رہا ہے کہ حکومت شاید اس شرح نمو کو نظرِثانی میں کم دکھا دے کیونکہ دوسری صورت میں حکومت کو ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ 5.3 فیصد شرح نمو کہاں سے آئی۔
دوسرا اس بار جو ڈیٹا پر بات ہوئی کہ پہلی دفعہ اقتصادی سروے میں غربت اور بے روزگاری کے اعداد و شمار شامل نہیں کئے گئے۔ ہمارے ہاں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد ہے اور یہ عدد اتنا بڑا ہے کہ اُسے اقتصادی سروے ہی سے حذف کر دیا گیا ہے۔
منی بجٹ کا آنا لازمی نظر آتا ہےشکیل رامے نے کہا کہ منی بجٹ تو آن کارڈ ہے اور کئی ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے لگتا ہے کہ منی بجٹ کا آنا تو لازمی ہے۔ مثلاً حکومتی اخراجات 7000 ارب سے زائد کے ہیں جبکہ حکومتی ریونیو 11000 ارب کا ہے۔ اب ان اعداد و شمار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت قرض کے ذریعے سے معیشت چلانے کی کوشش کرے گی۔ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ہم قرضوں کی رقم کو جی ڈی پی کی شرح تناسب کے حساب سے کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے بھی بات چیت چل رہی ہے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ قرض کو جی ڈی پی کے 65 فیصد پر لے کر آئیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نئے قرضے نہیں لیے جائیں گے بلکہ پرانے قرضوں کو ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آمدن اور اخراجات میں جو 6.5 ٹریلین کا گیپ ہے اس کو کس طرح سے پُر کیا جائے گا۔
حکومت زراعت کو گھٹنوں پر لے آئی ہےشکیل رامے نے کہا کہ حکومتی اخراجات اور آمدن میں جو گیپ ہے اُس کو پورا کرنے کا ایک طریقہ پیداوار میں اضافہ ہے یعنی زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت پچھلے ایک سال کے دوران زرعی شعبے کو گھٹنوں پر لے آئی ہے۔ پچھلے سال ہماری شرح نمو میں اہم کردار زرعی شعبے کی ترقی کا تھا کیونکہ ہماری زراعت نے 6.5 فیصد کی شرح سے ترقی کی تھی جبکہ اس دفعہ زرعی شعبے کی شرح نمو 0.53 فیصد ہے۔ تمام بڑی فصلوں کی شرح نمو منفی میں ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ لائیو اسٹاک کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے۔ جبکہ لائیو اسٹاک ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس میں تصدیقی عمل بہت مشکل ہے۔
بڑے صنعتی پیداواری یونٹس کی ترقی بھی منفی میں ہے یعنی 1.7- فیصد۔ اس بجٹ میں حکومت نے ایسا کچھ نہیں دیا جس سے لگے کہ زراعت اور صنعت کو درپیش مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ چیزیں کیسے پوری ہوں گی اس لیے توقع یہی ہے کہ منی بجٹ آئے گا۔
زرعی شعبے کے مسائل بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیںجب زرعی شعبے کو امداد دینے کی باری آئی تو حکومت نے کہا کہ کھادیں، بیج جو مارکیٹ ریٹ پر مِل رہا ہے اُسی پر خریدیں ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔ لیکن جب کسان کی گندم کی فصل آئی تو حکومت کہتی ہے کہ 2200 روپے فی من بیچیں۔ کسان سے بات کریں تو وہ کہتا ہے کہ اُس کی گندم کا فی من پیداواری خرچہ 4000 روپے ہے۔ حکومت کی ان پالیسیز کی وجہ سے زرعی شعبے پر زوال آیا ہے اور اگر ایسا ہی رہا تو آئندہ سال آپ کو کھانے کے لالے پڑیں گے۔
اس سال کسانوں کی آلو اور پیاز کی فصلیں اچھی ہو گئیں۔ ہم نے اُن کی قیمتیں اتنی کم کر دیں کہ اب کسان پریشان ہے کہ میں کیا کروں۔ اُس کسان کی پیداواری لاگت پوری نہیں ہو رہی۔
زرعی شعبے کے ساتھ ایسا کر کے ہم غربت میں اضافہ کر رہے ہیںشکیل رامے نے کہا کہ زرعی شعبے کے بارے میں جس طرح ہم نے گندم کی قیمتِ خرید کو کم کیا، اس سے دوسری فصلوں پر بھی اثر پڑے گا اور ہماری غربت میں اضافہ ہوگا۔ کیونکہ ہمارے ملک کی غربت کے زیادہ اعداد و شمار دیہی علاقوں سے آتے ہیں۔
حکومت انکم سپورٹ پروگرام ختم کر دےشکیل رامے نے کہا کہ حکومتی اخراجات ختم کرنے کے لیے حکومت کو انکم سپورٹ پروگرام ختم کرنا چاہیے اور وہ پیسے زراعت اور صنعتی پیداوار بڑھانے پر خرچ کئے جانے چاہئیں۔ اگر پیسہ دینا ہے تو کاروبار کے لیے دیں۔ دوسری طرف حکومت کو اپنے اخراجات بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بجٹ میں ورکنگ کلاس کے لیے کوئی ریلیف ہے؟اس بار جو کہا گیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور کوئی نئے ٹیکسز نہیں لگائے جائیں گے۔ لیکن ابھی منی بجٹ بھی آنا ہے اور نظرِثانی شدہ اعداد و شمار بھی آنا ہیں تو اس لیے حتمی طور پر کوئی بات کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے میں لوگوں کو کم سے کم تنخواہ نہیں ملتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
شکیل احمد رامےذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: شکیل احمد رامے شکیل رامے نے کہا کہ ا ئی ایم ایف میں اضافہ کہ حکومت سہ ماہی مشکل ہے کی کوشش کوشش کر ہے کہ ا ہے اور رہی ہے کے لیے کی شرح
پڑھیں:
مالی بحران: پی ٹی آئی نے مرکزی سیکریٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں پر 50 فیصد کٹ لگا دیا
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی سیکرٹریٹ سے منسلک درجنوں ملازمین شدید مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں، جب کہ پارٹی قیادت کی جانب سے تنخواہوں کی ادائیگی کے وعدے تاحال پورے نہیں کیے جا سکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2024 سے اب تک ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی کی جا رہی ہے، جس سے ان کے روزمرہ کے معاملات بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی سیکریٹریٹ پر چھاپے کے دوران گرفتاریاں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اہم سوالات اٹھا دیے
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ان ملازمین میں کئی ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے پارٹی کے لیے اپنی خدمات کے دوران نہ صرف گرفتاریاں برداشت کیں بلکہ جسمانی تشدد اور مقدمات کا سامنا بھی کیا۔ بعض ملازمین پر ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں، جنہیں بعد ازاں ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اگرچہ تحریکِ انصاف اس وقت شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے، تاہم چند لاکھ روپے ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونا پارٹی کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی، قانونی مشیر سلمان اکرم راجا اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم سمیت متعدد سینیئر رہنماؤں کو بارہا اس مسئلے سے آگاہ کیا جا چکا ہے، مگر تاحال کسی قسم کا عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔
میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ افراد کے مطابق ان کے سربراہ صبغت اللہ ورک سیاسی دباؤ اور مالی مشکلات کے باعث کئی ماہ روپوش رہے، اور حال ہی میں انہوں نے قیادت کو اپنا باقاعدہ استعفیٰ بھی ارسال کر دیا ہے۔ پارٹی نے مشکل وقت میں ان کی خدمات کو بھی نظر انداز کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت کے باوجود پی ٹی آئی کے درجنوں ایم این ایز اور ایم پی ایز نے تاحال مرکزی فنڈ میں اپنا مالی تعاون جمع نہیں کروایا، جس سے صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔ شیخ وقاص اکرم کی جانب سے واجبات کی ادائیگی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی، مگر اس پر اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
یہ بھی پڑھیں: ’یہ تو وہی جگہ ہے‘، اکبر ایس بابر 13 برس بعد پی ٹی آئی سیکریٹریٹ پہنچ گئے
پارٹی کے اندرونی حلقوں میں اس صورتحال پر سخت تشویش پائی جا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر یہی روش برقرار رہی تو ملازمین کی ایک بڑی تعداد پارٹی سے ناطہ توڑنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پی ٹی آئی سیکریٹریٹ تنخواہ میں کٹوتی مالی بحران ملازمین وی نیوز