شکیل احمد رامے ایشیئن انسٹیٹوٹ آف ایکو۔سولائزیشن کے سربراہ اور ماہر معیشت ہیں۔ موجودہ وفاقی بجٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ہر حکومت یا سیاسی جماعت یہ بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ معاشی محاذ پر سب اچھا چل رہا ہے اور ہم عوام کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن تفصیلات میں پتہ چلتا ہے کہ سب اچھا کیا ہے۔

’اس سے قبل جب بجٹ آتا تھا تو اُس میں کچھ اُمیدافزاء باتیں ہوتی تھیں اور کچھ سخت فیصلے ہوتے تھے۔ لیکن اس دفعہ مشکل یہ ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت کی کس بات پہ تنقید کریں اور کس پہ نہ کریں۔

یہ آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ہے یا آئی ایم ایف کی منظوری سے تیار کردہ بجٹ ہے اور کہنا مشکل ہے کہ ہم حکومت پہ تنقید کریں یا آئی ایم ایف پہ۔ اس بجٹ میں جی ڈی پی شرح نمو کے اعدادوشمار  بہت حیران کُن ہیں۔‘

شکیل رامے نے کہا کہ سب لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ سال کی پہلی 3 سہ ماہیوں میں شرح نمو 1.

7 فیصد تھی۔ چوتھی سہ ماہی میں ایسا کیا ہو گیا کہ شرح نمو 5.3 فیصد ہو گئی کیونکہ 2.8 فیصد شرح نمو کے لیے حکومت جو طریقہ کار وضع کر رہی ہے اُس کے لیے لازمی ہے کہ آخری سہ ماہی میں شرح نمو 5.3 فیصد ہو۔ لیکن ان اعداد و شمار کو کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

مذکورہ 5.3 فیصد شرح نمو چوتھی سہ ماہی کا تخمینہ ہے اور یہ حتمی اعداد و شمار نہیں کیونکہ چوتھی سہ ماہی کے ابھی 3 ماہ پورے نہیں ہوئے۔ ابھی حکومت اکتوبر میں جو نظرثانی شدہ اعداد وشمار شائع کرے گی اُس سے ہمیں درست اندازہ ہو گا۔ ابھی جو نظر آ رہا ہے کہ حکومت شاید اس شرح نمو کو نظرِثانی میں کم دکھا دے کیونکہ دوسری صورت میں حکومت کو ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ 5.3 فیصد شرح نمو کہاں سے آئی۔

دوسرا اس بار جو ڈیٹا پر بات ہوئی کہ پہلی دفعہ اقتصادی سروے میں غربت اور بے روزگاری کے اعداد و شمار شامل نہیں کئے گئے۔ ہمارے ہاں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد ہے اور یہ عدد اتنا بڑا ہے کہ اُسے اقتصادی سروے ہی سے حذف کر دیا گیا ہے۔

منی بجٹ کا آنا لازمی نظر آتا ہے

شکیل رامے نے کہا کہ منی بجٹ تو آن کارڈ ہے اور کئی ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے لگتا ہے کہ منی بجٹ کا آنا تو لازمی ہے۔ مثلاً حکومتی اخراجات 7000 ارب سے زائد کے ہیں جبکہ حکومتی ریونیو 11000 ارب کا ہے۔ اب ان اعداد و شمار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت قرض کے ذریعے سے معیشت چلانے کی کوشش کرے گی۔ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ہم قرضوں کی رقم کو جی ڈی پی کی شرح تناسب کے حساب سے کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے بھی بات چیت چل رہی ہے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ قرض کو جی ڈی پی کے 65 فیصد پر لے کر آئیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نئے قرضے نہیں لیے جائیں گے بلکہ پرانے قرضوں کو ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آمدن اور اخراجات میں جو 6.5 ٹریلین کا گیپ ہے اس کو کس طرح سے پُر کیا جائے گا۔

حکومت زراعت کو گھٹنوں پر لے آئی ہے

شکیل رامے نے کہا کہ حکومتی اخراجات اور آمدن میں جو گیپ ہے اُس کو پورا کرنے کا ایک طریقہ پیداوار میں اضافہ ہے یعنی زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت پچھلے ایک سال کے دوران زرعی شعبے کو گھٹنوں پر لے آئی ہے۔ پچھلے سال ہماری شرح نمو میں اہم کردار زرعی شعبے کی ترقی کا تھا کیونکہ ہماری زراعت نے 6.5 فیصد کی شرح سے ترقی کی تھی جبکہ اس دفعہ زرعی شعبے کی شرح نمو 0.53 فیصد ہے۔ تمام بڑی فصلوں کی شرح نمو منفی میں ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ لائیو اسٹاک کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے۔ جبکہ لائیو اسٹاک ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس میں تصدیقی عمل بہت مشکل ہے۔

بڑے صنعتی پیداواری یونٹس کی ترقی بھی منفی میں ہے یعنی 1.7- فیصد۔ اس بجٹ میں حکومت نے ایسا کچھ نہیں دیا جس سے لگے کہ زراعت اور صنعت کو درپیش مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ چیزیں کیسے پوری ہوں گی اس لیے توقع یہی ہے کہ منی بجٹ آئے گا۔

زرعی شعبے کے مسائل بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں

جب زرعی شعبے کو امداد دینے کی باری آئی تو حکومت نے کہا کہ کھادیں، بیج جو مارکیٹ ریٹ پر مِل رہا ہے اُسی پر خریدیں ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔ لیکن جب کسان کی گندم کی فصل آئی تو حکومت کہتی ہے کہ 2200 روپے فی من بیچیں۔ کسان سے بات کریں تو وہ کہتا ہے کہ اُس کی گندم کا فی من پیداواری خرچہ 4000 روپے ہے۔ حکومت کی ان پالیسیز کی وجہ سے زرعی شعبے پر زوال آیا ہے اور اگر ایسا ہی رہا تو آئندہ سال آپ کو کھانے کے لالے پڑیں گے۔

اس سال کسانوں کی آلو اور پیاز کی فصلیں اچھی ہو گئیں۔ ہم نے اُن کی قیمتیں اتنی کم کر دیں کہ اب کسان پریشان ہے کہ میں کیا کروں۔ اُس کسان کی پیداواری لاگت پوری نہیں ہو رہی۔

زرعی شعبے کے ساتھ ایسا کر کے ہم غربت میں اضافہ کر رہے ہیں

شکیل رامے نے کہا کہ زرعی شعبے کے بارے میں جس طرح ہم نے گندم کی قیمتِ خرید کو کم کیا، اس سے دوسری فصلوں پر بھی اثر پڑے گا اور ہماری غربت میں اضافہ ہوگا۔ کیونکہ ہمارے ملک کی غربت کے زیادہ اعداد و شمار دیہی علاقوں سے آتے ہیں۔

حکومت انکم سپورٹ پروگرام ختم کر دے

شکیل رامے نے کہا کہ حکومتی اخراجات ختم کرنے کے لیے حکومت کو انکم سپورٹ پروگرام ختم کرنا چاہیے اور وہ پیسے زراعت اور صنعتی پیداوار بڑھانے پر خرچ کئے جانے چاہئیں۔ اگر پیسہ دینا ہے تو کاروبار کے لیے دیں۔ دوسری طرف حکومت کو اپنے اخراجات بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔

اس بجٹ میں ورکنگ کلاس کے لیے کوئی ریلیف ہے؟

اس بار جو کہا گیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور کوئی نئے ٹیکسز نہیں لگائے جائیں گے۔ لیکن ابھی منی بجٹ بھی آنا ہے اور نظرِثانی شدہ اعداد و شمار بھی آنا ہیں تو اس لیے حتمی طور پر کوئی بات کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے میں لوگوں کو کم سے کم تنخواہ نہیں ملتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شکیل احمد رامے

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: شکیل احمد رامے شکیل رامے نے کہا کہ ا ئی ایم ایف میں اضافہ کہ حکومت سہ ماہی مشکل ہے کی کوشش کوشش کر ہے کہ ا ہے اور رہی ہے کے لیے کی شرح

پڑھیں:

سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک

کراچی:

حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کی معیشت کوقلیل مدتی طور پر متاثرکیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتارسست ہو سکتی ہے،جبکہ افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔

اسی تناظر میں اسٹیٹ بینک نے پالیسی شرح سود کو 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بینک کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب کے باوجود پاکستان کی معیشت گزشتہ بڑے سیلابوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مضبوط ہے۔

قرضوں کی ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر اورکرنٹ اکاؤنٹ کی صورتحال مستحکم رہی ہے۔ علاوہ ازیں امریکاکی جانب سے درآمدی محصولات میں ترمیم نے عالمی تجارتی بے یقینی میں کمی لائی ہے، جو پاکستان کیلیے  مثبت پیش رفت ہے۔

سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق خریف کی فصل کو سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے، جس سے تجارتی خسارے میں اضافے کاامکان ظاہرکیاجا رہا ہے۔

اگرچہ امریکاسے بہتر مارکیٹ رسائی کی بدولت اس نقصان کاکچھ حد تک ازالہ متوقع ہے،تاہم زرعی اور صنعتی شعبوں کے ساتھ ساتھ خدمات کا شعبہ بھی متاثر ہوگا۔

اسٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ مالی سال 26-2025 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.25 فیصد سے 4.25 فیصدکی نچلی حدکے قریب رہنے کاامکان ہے۔

اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصدکے درمیان رہنے کی توقع ہے۔ سیلاب کے بعد ترسیلات زر میں اضافے کی امیدکی جا رہی ہے،جبکہ منصوبے کے مطابق اگر سرکاری آمدن مقررہ وقت پر موصول ہوگئی تو دسمبر 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر 15.5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔

حکومتی اخراجات میں اضافے اور محصولات میں ممکنہ سست روی کے باعث مالی گنجائش محدود ہونے کاخدشہ ہے۔

اسٹیٹ بینک نے زور دیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینااور خسارے میں چلنے والے اداروں میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔

دوسری جانب، سیلاب کے باوجود نجی شعبے میں قرضوں کی طلب میں موجودہ رفتار برقرار رہنے کی توقع ہے۔

مہنگائی کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ جولائی 2025 میں افراط زر 4.1 فیصد جبکہ اگست میں 3 فیصد رہی، تاہم سیلاب کے بعدخوراک کی قیمتوں کے حوالے سے غیر یقینی میں اضافہ ہوگیاہے،رواں مالی سال میں مہنگائی 5 سے 7 فیصدکے ہدف سے تجاوزکر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بالی وڈ نے پاکستان کا مشہور گانا ‘بول کفارہ’ دوسری بار چُرالیا
  • 74 فیصد پاکستانی ملکی حالات سے پریشان
  • سندھ میں بیراجوں میں پانی کی آمد و اخراج کے تازہ ترین اعداد و شمار جاری
  • ایشیا کپ میں صائم ایوب ایک بار پھر ناکام : مسلسل تیسری بار ‘0’ پر آ ئوٹ
  • پاکستان کے حالات درست سمت میں نہیں، 74 فیصد شہریوں کی رائے
  • شادی کے دن لاپتا ہونے والے نوجوان کی واپسی، ‘زبردستی’ کے رشتے سے بھاگ کر سڑکوں پر پھرنے کا انکشاف
  • غزہ: امداد تقسیم کرنے والی کمپنی میں مسلم مخالف ‘انفیڈلز’ گینگ کے کارکنوں کی بھرتی کا انکشاف
  • ‘نینو بنانا’ ایڈیٹنگ ٹول کی وجہ سے گوگل جیمنی ایپ اسٹور پر پہلے نمبر پر آنے میں کامیاب
  • ’شروع ہونے سے پہلے ہی بائیکاٹ کیا جائے‘، عائشہ عمر کے ڈیٹنگ ریئلٹی شو ‘لازوال عشق’ پر صارفین پھٹ پڑے
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک